Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

معنی ٔ خلافت

خلافت کی بحث میں سب سے پہلے ہم کو لغت عرب کی طرف رجوع کرکے یہ تحقیق کرنا چاہیے کہ کیا فی الواقع عربی زبان میں اس لفظ کے معنی صرف ’جانشینی‘ ہی کے ہیں، یا اس کے معنی نیابت کے بھی آتے ہیں۔
لغوی بحث
امام راغب اصفہانی اپنی مفردات میں لکھتے ہیں:
وَالْخِلاَ فَۃُ نِیَابَۃٌ عَنِ الْغَیْرِ اَمَّا لِغَیْبَۃِ الْمَنُوْبِ عَنْہُ وَاَمَّا لِمَوْتِہٖ وَاَمَّالِعَجْزِہٖ وَاَمَّالِتَشْرِیْفِ الْمُسْتَخْلِفِ۔
خلافت کسی دوسرے کی نیابت ہے‘ خواہ منوب عنہ‘ کے غائب ہونے کی وجہ سے ہو، یا اس کی موت کے سبب سے ہو، یا اس کے عجز کے سبب سے، یا اس شخص کو بزرگی عطا کرنے کے لیے جسے خلیفہ بنایا گیا ہے۔
لین (lane)نے اپنی مشہور لغت مدالقاموس (arabic english lexicon) میں لفظ خلیفہ کے معنی: successor کے علاوہ vicegerent کے بھی لکھے ہیں۔
خلافت کے لیے ضروری نہیں ہے کہ منوب عنہ مر جائے یا موجود نہ ہو۔ امام راغب لکھتے ہیں:
خَلَفَ فُلاَنٌ فُلاَ نًا قَامَ بِالْاَمْرِعَنْہُ اَمَّا مَعَہ‘ وَاِمَّا بَعْدَہٗ۔
فلاں شخص فلاں شخص کا خلیفہ ہوا، یعنی اس کی طرف سے کار پرداز ہوا، خواہ اس کے ساتھ یا اس کے بعد۔
اس مادے سے جو ابواب مشتق ہوئے ہیں ان کی خاصیتوں سے اس کے معنی میں بھی تغیر واقع ہوتا ہے۔
خَلَفَ خِلاَفَۃً کے معنی: خلیفہ ہونے، یا بعد میں آنے، یا پیچھے رہنے کے ہیں۔ خَلَفَہ‘ خِلَافَۃً کَانَ خَلِیْفَتَہ‘ وَبَقِیَ بَعْدَہ‘ وَجَائَ بَعْدَہ‘۔ (تاج العروس)۔قرآن مجید میں ہے: فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ الاعراف169:7 یعنی ان کے بعد ایسے ناخلف آئے، یا ان کے جانشین ہوئے جو کتاب کے وارث ہوئے۔ وَقَالَ مُوْسٰي لِاَخِيْہِ ہٰرُوْنَ اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ الاعراف142:7 اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم میری قوم کے اندر میرے بعد میرے جانشین یا نائب ہو۔ قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِيْ مِنْۢ بَعْدِيْ۔ الاعراف 150:7 موسیٰ نے کہا کہ میرے بعد تم نے میری بہت بری نیابت کی۔ وَلَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰۗىِٕكَۃً فِي الْاَرْضِ يَخْلُفُوْنَo الزخرف60:43 اگر ہم چاہیں تو زمین میں تم میں سے ملائکہ پیدا کریں جو تمھاری جگہ آباد ہوں۔
تَخَلُّفْ کے معنی: پیچھے رہ جانے کے ہیں۔ مَا كَانَ لِاَھْلِ الْمَدِيْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ يَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللہِ۔ التوبہ120:9 مدینہ کے باشندوں اور گرد و نواح کے بدویوں کو یہ ہرگز زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسولؐ کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے۔
اَخْلَفَ کے معنی: کھوئی ہوئی چیز واپس دینے‘ یا دلانے‘ یا اس کا بدل عطا کرنے کے ہیں۔ اَخْلَفَ اللّٰہُ لَکَ وَعَلَیْکَ خَیْرًا اَیْ اَبْدَلَکَ بِمَا ذَھَبَ عَنْکَ وَعَوَّضَکَ عَنْہُ (نہایہ ابن اثیر) چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَہُوَيُخْلِفُہٗ وَہُوَخَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ سبا39:34 جو تم خرچ کرو گے اللہ اس کا نعم البدل تم کو دے گا اور وہ بہترین رازق ہے۔ حدیث میں ہے:فَکَفَّلَ اللّٰہُ لِلْغَازِیْ اَنْ یُّخْلِفَ نَفَقَتَہ‘ ۔ اللہ نے غازی کے لیے ذمہ لیا ہے کہ جو کچھ وہ خرچ کرے گا‘ اللہ اس کا بدل عطا کرے گا۔
خَلَّفَ اور اِسْتَخْلَفَ کے معنی: اپنا خلیفہ بنانے کے ہیں:یُقَالُ خَلَّفَ فُلاَنًا اِذْجَعَلَہ‘ خَلِیْفَتَہ‘ کَاَسْتَخْلَفَہ‘۔ (تاج العروس)
اِسْتَخْلَفَ کہہ کر اگر منوب عنہ کی تصریح نہ کی گئی ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ اپنا خلیفہ بنایا: اِسْتَخْلَفَ فُلاَ نًا اَیْ جَعَلَہ‘ خَلِیْفَۃً لَہ‘۔اور اگر منوب عنہ کی تصریح ہو تو پھر معنی یہ ہوں گے کہ اس شخص کا جانشین بنایا جس کا ذکر کیا گیا ہے‘ اِسْتَخْلَفَ فُلاَ نًا مِنْ فُلاَنٍ اَیْ جَعَلَہ‘ مَکَانَہ‘ (اقرب الموارد)۔ پس جہاں قرآن مجید نے محض استخلاف کا ذکر کیا ہے اور مستخلف لہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا مثلاً: لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ النور55:24 ایسے مقامات پر استخلاف کے معنی یہی ہوں گے کہ اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا، اور جہاں مستخلف لہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہاں معنی یہ ہوں گے کہ دوسرے کی جگہ یا دوسرے کے بعد خلیفہ بنایا، لیکن واضح رہے کہ جب کبھی پچھلے نائب کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرا نائب مقرر کرنے کا ذکر کیا جائے گا تو اس میں دونوں مفہوم شامل ہوں گے۔ یعنی اس کا مفہوم یہ بھی ہو گا کہ حاکم اعلیٰ نے فلاں شخص کو فلاں شخص کی جگہ مقرر کیا اور یہ بھی کہ اس نے فلاں شخص کے بعد فلاں شخص کو اپنا نائب مقرر کیا۔ مثلاً: اگر کہا جائے کہ ’ اِسْتَخْلَفَ الْمَلِکُ اللَّوْرَدَ اَرُوْنَ بَعْدَ اللَّوْرَدَ رِیْدِنْکَ فِی وِلاَیَۃِ ھِنْد‘ تو اس کے یہ معنی بھی ہوں گے کہ بادشاہ نے لارڈارون کو لارڈریڈنگ کے بعد اس کی جگہ ہندستان کا وائسرائے بنایا اور یہ بھی ہوں گے کہ اس نے ارون کو ریڈنگ کے بعد ہندستان کی ولایت میں اپنا وائسرائے مقرر کیا۔ ان دونوں مفہوموں میں کوئی تضاد و تناقض نہیں ہے کہ بیک وقت صادق نہ آسکیں۔ پس اِنْ يَّشَاْ يُذْہِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا يَشَاۗءُ الانعام133:6 کا یہ مفہوم بھی ہے کہ خدا تمھاری جگہ دوسروں کو دے دے گا اور یہ بھی کہ خدا تمھاری جگہ دوسروں کو اپنا خلیفہ بنا لے گا۔ جہاں تک لغت کا تعلق ہے کوئی امر ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں مفہوم لینے میں مانع نہیں ہے۔
جَعَلَہ‘ خَلِیْفَۃً کے معنی: صرف خلیفہ بنانے کے ہیں۔ خلیفہ کے معنی خواہ نائب کے ہوں یا جانشین کے‘ دونوں صورتوں میں اس کا مفہوم ایک اضافی مفہوم ہے اور اس کا اتمام بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ کوئی مستخلف لہ اور منوب عنہ بھی ہو‘ عام اس سے مقدر ہو یا مذکور۔ پس جس جگہ جَعَلَ خَلِیْفَۃً کے ساتھ قرآن مجید نے مستخلف لہ کی تصریح کر دی ہے وہاں تو مفہوم واضح ہے۔ مثلاً: وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ الاعراف69:7 اور وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ الاعراف74:7 اور ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ یونس14:10 لیکن جہاں مستخلف کی طرف قطعاً کوئی اشارہ نہیں ہے، وہاں ایک مستخلف لہ مقدر ماننا پڑے گا‘ مثلاً: يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَۃً فِي الْاَرْضِص26:38 اوروَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ النمل62:27 اور وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ الانعام 165:6 اور اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً البقرہ 30:2
اس طرح کی تمام آیات کے بارے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں انسان یا انسانوں کو کس کا خلیفہ بنانے کا ذکر ہے؟
اگر آپ کہتے ہیں کہ پچھلی مخلوقات یا گذشتہ اقوام‘ یا شاہانِ پیشین کا خلیفہ‘ تو قطع نظر اس سے کہ یہ ایک تکلف ہے، بعض آیتوں میں یہ معنی کھپتے ہی نہیں۔ مثال کے طور پر وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَائَ الْاَرْضِ میں خلفا کو زمین کی طرف مضاف کیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ: زمین کے خلفا ہے۔ اس سے یہ معنی نکالنے کی کہاں گنجایش ہے کہ زمین پر پہلے جو لوگ متمکن تھے ان کے خلفاء؟ پھر اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً کے معنی اگر یہ لیے جائیں کہ:میں پچھلے ساکنینِ ارض کا ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہیں ان ساکنینِ ارض کا ذکر کیا ہے جن کی خلافت انسان کے سپرد کی گئی ہے؟ اگر کیا ہے تو حوالہ پیش کیجیے۔ اگر نہیں کیا تو فرمائیے کہ ایسی صورت میں محض زبان اور ادب کے نقطۂ نظر سے اس فقرے کا یہ مفہوم زیادہ اقرب الی الفہم ہے کہ’میں پچھلے مجہول الحال ساکنینِ ارض کا ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘ یا یہ کہ میں زمین میں اپنا ایک نائب مقرر کرنے والا ہوں؟ اگر سامع صرف عربی جانتا ہو، اور ان عقلی مقدمات سے ناآشنائے محض ہو جنھیں مولانا …… نے ترتیب دے کر ایک نتیجہ اخذ کیا ہے‘ تو اس فقرے کو سن کر وہ ان دونوں معنوں میں سے کون سے معنی مراد لے گا؟

خلافت میں فرماں روائی کا مفہوم
اس لغوی تحقیق کے بعد میں آپ کو دعوت دوں گا کہ آپ خلافت کے اس مفہوم پر غور کیجیے جس کو خود آپ نے اور مولانا …… نے مراد لیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
خلافت فی الارض سے مراد: زمین کی سلطنت و حکومت کی جانشینی ہے۔
مولانا…… اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً کا ترجمہ ’’میں زمین میں ایک بادشاہ بنانے والا ہوں‘ کرتے ہیں اور اس پر نوٹ لکھتے ہیں:
حضرت آدمؑ اپنے سے پہلے ساکنانِ زمین کے بجائے بادشاہ بنائے گئے تھے۔
غور فرمائیے کہ خلافت کے معنی تو محض جان نشینی یا قائم مقامی‘ یا بعد میں آنے کے ہیں۔ پھر اس میں بادشاہی اور فرماںروائی کا مفہوم کہاں سے آگیا؟ اگر نفسِ خلافت اس مفہوم سے خالی ہے اور یقیناً خالی ہے تو اس میں یہ مفہوم اس اعتبار ہی سے آ سکتا ہے کہ خلیفہ کو خلافت کسی فرماںروا اور کسی سلطان سے ملی ہو۔ پھر جب انسان کو وہ خلافت ملی جس میں خود آپ کے اعتراف کے مطابق سلطنت و فرماںروائی کی جھلک ہے تو لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ انسان جس کا خلیفہ ہوا وہ کوئی فرماںروا تھا۔ اب فرمائیے کہ کیا قرآن سے علمی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان سے پہلے زمین پر کوئی ایسی مخلوق تھی جس میں فرماںروائی کی شان تھی؟ فرماںروائی کے لیے علم‘ حکمت‘ اختیار‘ ارادہ‘ قدرت وغیرہ صفات کا ہونا ضروری ہے‘ کیونکہ ان کے بغیر زمین اور اس کی موجودات پر فرماںروائی نہیں ہوسکتی۔ علمی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس کرۂ خاکی پر انسان سے پہلے کوئی مخلوق ایسی موجود نہ تھی جو ان صفات سے متصف ہوتی۔ اسی کی تصدیق قرآن بھی کرتا ہے۔ وہ ہم کو بتاتا ہے کہ انسان سے پہلے خدا کی جو مخلوق سب سے افضل تھی یعنی ملا ئکہ جن کو عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ الانبیاء 26:21 کہا گیا ہے،اس کا بھی یہ حال تھا کہ وہ علم اشیاء سے بے خبر تھی ۔
ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَۃِ۝۰ۙ فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا البقرہ31-32:2 اور ارادہ و اختیار کی آزادی سے بالکل محروم تھی۔ لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَo التحریم66:6 دوسری مخلوق جن تھے‘ سو اُن کے متعلق کوئی بات قرآن مجید نے ایسی بیان نہیں کی جس سے معلوم ہوتا ہو کہ ان کو زمین کی فرماںروائی حاصل تھی۔ رہے حیوانات و نباتات و جمادات‘ تو ان کا حال آپ جانتے ہیں۔ پھر آخر وہ کون سی مخلوق تھی جس کی خلافت‘ زمین کی فرماںروائی کے اعزاز کے ساتھ انسان کو حاصل ہوئی؟
تاہم اگر مان لیا جائے کہ یہ پرانے ساکنینِ ارض ہی کی خلافت ہے اور وہ ساکنینِ ارض انسان سے پہلے زمین کے فرماںروا تھے‘ تو کیا وہ بالاصالت فرماںروا تھے‘ یا ان کی فرماںروائی بھی نائبانہ تھی؟ پہلی شق تو آپ اختیار نہیں کرسکتے‘ کیونکہ اسلامی عقیدے کی رُو سے بالاصل اور بالذات فرماںروا صرف حق تعالیٰ ہے اور اس کے سوا سب کی فرماںروائی محض عطائی ہے۔ اب رہی دوسری شق تو اس کو اختیار کرنے کی صورت میں یا تو آپ کو خلافت درخلافت کا ایک لامتناہی سلسلہ ماننا پڑے گا‘ یا پھر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ فرماںروائی کی شان خواہ یکے بعد دیگرے کتنے ہی خلفا کو ملی ہو‘ بہرحال اس کا سرچشمہ وہی ذاتِ حق تعالیٰ ہے اور خلافت میں بادشاہی کی جھلک اسی وقت آسکتی ہے جب کہ وہ خلافتِ الٰہی ہو۔
قرآنی اشارات
اب میں آپ کو ان قرآنی اشارات کی طرف توجہ دلائوں گا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو جس خلافت سے سرفراز کیا گیا ہے وہ دراصل خلافت ِ الٰہی ہے۔ قرآنِ مجید کا بیان ہے کہ خدا نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍالتین95:4 اس کو اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا:قَالَ يٰٓـاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ۝۰ۭ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَo صٓ75:38 اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی ‘ثُمَّ سَوّٰىہُ وَنَفَخَ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ السجدہ 9:32 اس کو علم کی نعمت سے سرفراز کیا: وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّہَا البقرہ31:2 زمین و آسمان کی ساری چیزوں کواُس کے حق میں مسخر کر دیا: وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْہُ۝۰ۭ الجاثیہ13:45
ان صفات کے ساتھ جب انسان کی تخلیق پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کے آگے سجدہ کریں۔ یہ حکم سورہ ص کے آخر میں جس انداز سے بیان کیا گیا ہے وہ خاص طور پر قابلِ غور ہے:
اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِيْنٍo فَاِذَا سَوَّيْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِيْنَo فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ كُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَo اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ اِسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَo قَالَ يٰٓـاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ۝۰ۭ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَo قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْہُ۝۰ۭ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِيْنٍo قَالَ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّكَ رَجِيْمٌ o ص 71-77:38
جبکہ تیرے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں‘ پس جب میں اس کو پورا بنالوں اور اس کے اندر اپنی رُوح سے کچھ پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔ چنانچہ تمام ملائکہ نے سجدہ کیا‘ مگر ابلیس نے نہ کیا۔ وہ گھمنڈ میں پڑ گیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابلیس کس چیز نے تجھے اس ہستی کو سجدہ کرنے سے منع کیا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟ تو نے اپنے آپ کو بڑا سمجھ لیا ہے یا واقعی تو کچھ بڑے لوگوں میں سے ہے۔ اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے بنایا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اچھا تو یہاں سے تُو نکل جا، تُو مردود ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو سجدہ کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ نے اس کو اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا تھا۔ یعنی وہ قدرت اور صنعت الٰہی کا مظہرِ اتم تھا اور اس کے اندر خود اپنی طرف سے ایک خاص روح پھونکی تھی اور ایک محدود پیمانے پر اس میں وہ صفات پیدا کردی تھیں جو بدرجہ فوق التمام خود باری تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ اس شان اور ان صفات پر انسان کو پیدا کرنے کے بعد اعلان کیا گیا کہ ہم اس کو زمین میں خلیفہ بنانے والے ہیں‘ جیسا کہ سورہ بقرہ کے چوتھے رکوع میں ارشاد ہوا ہے۔ فرشتوں نے اس معاملے میں کچھ اپنے شکوک پیش کیے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے انسان کی سب سے افضل صفت یعنی علم کا مظاہرہ کرایا۔ اس طرح جب خلافت کے لیے انسان کی اہلیت ثابت کر دی گئی تو فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ اس کی خلافت تسلیم کرو اور علامتِ تسلیم کے طور پر اسے سجدہ کرو۔ تمام فرشتوں نے اسے تسلیم کیا اور سربسجود ہوگئے‘ مگر شیطان نے اس کی خلافت ماننے سے انکار کیا‘ اس لیے اس کو راندہ ٔدرگاہ کر دیا گیا۔
یہ تمام اشارات کیا ظاہر کر رہے ہیں؟ تمام مخلوقات پر انسان کی فضیلت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ عام مقابلے میں اس کی فضیلت ثابت کی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ہماری صفات کا مظہرِ اَتم ہے۔ ہم نے اس میں اپنی طرف سے ایک خاص روح پھونکی ہے۔ حکم ہوتا ہے اور وہ بھی کس کو؟ فرشتوں کو کہ اس کو سجدہ کرو۔ ان سب باتوں کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم اس کو خلیفہ بنانے والے ہیں۔ ان تیاریوں کے ساتھ جس خلیفہ کی خلافت کا اعلان کیا گیا‘ کیا وہ محض پرانے ساکنینِ ارض ہی کا خلیفہ تھا؟ اگر صرف بات اتنی ہی تھی کہ پرانے بسنے والوں کی جگہ کسی دوسرے کو بسایا جارہا تھا تو اس کے لیے فرشتوں کے سامنے اس کی خلافت کا اعلان کرنے اور یوں اس کی فضیلت کا مظاہرہ کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور پھر ملائکہ کو یہ حکم کیوں دیا گیا کہ اس کرۂ خاکی کے نو آباد کار کو جو فقط دوسرے لوگوں کی جگہ لینے کے لیے جارہا تھا‘ سجدہ کریں؟
خلافت ِالٰہی سے مراد کیا ہے؟
دوسری بات جو قرآن مجید میں ایک اور موقع پر ارشاد ہوئی ہے‘ خلافت ِالٰہی کے مفہوم پر صاف روشنی ڈالتی ہے۔ فرمایا:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo الاحزاب72:33
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تھا، مگر انھوں نے اس کا بار اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے‘ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بے شک وہ ظالم اور انجام سے بے خبر نکلا۔
اس آیت میں بار امانت سے مراد اختیار (freedom of choice)اور ذمے داری و جواب دہی (responsibility)ہے اور ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں میں اس بار کو اٹھانے کی تاب نہ تھی۔ انسان سے پہلے کوئی مخلوق ایسی نہ تھی جو یہ پوزیشن قبول کرسکتی۔ آخر کار انسان آیا اور اس نے یہ بار اٹھا لیا۔ اس بیان سے متعدد نکات نکلتے ہیں:
۱۔ انسان سے پہلے زمین و آسمان میں کوئی مخلوق بار امانت کی حامل نہیں تھی۔ انسان پہلی مخلوق ہے جس نے یہ بار اٹھایا ہے۔ لہٰذا منصب امانت میں وہ کسی مخلوق کا جانشین (successor) نہیں ہے۔
۲۔ جس چیز کو سورۂ بقرہ میں خلافت کہا گیا ہے وہی چیز یہاں امانت کے لفظ سے تعبیر کی گئی ہے، کیونکہ وہاں فرشتوں پر ثابت کیا گیا تھا کہ تم خلافت کے اہل نہیں ہو‘ اس کا اہل انسان ہے اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ زمین و آسمان کی کوئی مخلوق ہماری امانت کا بار اٹھانے کی اہل نہ تھی‘ صرف انسان اس کا متحمل ہوا۔
۳۔ خلافت کے مفہوم کو امانت کا لفظ واضح کر دیتا ہے، اور یہ دونوں لفظ نظام عالم میں انسان کی صحیح حیثیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ انسان زمین کافرماںروا ہے، مگر اس کی فرماںروائی بالاصالت نہیں ہے بلکہ تفویض کردہ (delegated)ہے۔ لہٰذا اللہ نے اس کے اختیاراتِ مفوضہ (delegated power)کو امانت سے تعبیر کیا ہے‘ اور اس حیثیت سے کہ وہ اس کی طرف سے ان اختیارات مفوضہ کو استعمال کرتا ہے، اسے خلیفہ (vicegerent)کہا ہے۔ اس تشریح کے مطابق خلیفہ کے معنی یہ ہوئے کہ وہ شخص جو کسی کے بخشے ہوئے اختیارات کو استعمال کرے۔(person excercising delegated powers)

شیئر کریں