Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)
سرورِ عالم ﷺ
میلادُ النبیؐ
سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ
معراج کی رات
معراج کا پیغام
معراج کا سفرنامہ
شب برأت
روزہ اور ضبطِ نفس
عید قربان
قربانی
پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے
زندگی بعد موت

نشری تقریریں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

معراج کی رات

عام روایت کے مطابق آج کی رات معراج کی رات ہے۔ یہ معراج کا واقعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے سب سے زیادہ مشہور واقعات میں سے ہے لیکن یہ جس قدر مشہور ہے اسی قدر افسانوں کی تہیں اس پر چڑھ گئی ہیں۔ عام لوگ عجوبہ پسند ہوتے ہیں۔ ان کی عجائب پسندی کے جذبے کو بس اپنی تسکین کا سامان چاہیے۔ اس لیے معراج کی اصل روح اور اس کی غرض اور اس کے فائدوں اور نتیجوں کو تو انھوں نے نظر انداز کر دیا اور ساری گفتگو اس پر ہونے لگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جسم کے ساتھ آسمان پر گئے تھے یا صرف رُوح گئی تھی۔ براق کیا تھا، جنت اور دوزخ کا حال آپ نے کیا دیکھا اور فرشتے کس شکل کے تھے۔ حالانکہ دراصل یہ واقعہ تاریخ انسانی کے ان بڑے واقعات میں سے ہے جنھوں نے زمانے کی رفتار کو بدلا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا ہے اور اس کی حقیقی اہمیت کیفیت ِ معراج میں نہیں بلکہ مقصد اور نتیجہ ٔ معراج میں ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ کُرّۂ زمین جس پر ہم آپ رہتے ہیں خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے۔ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں اُن کی حیثیت کچھ اس طرح کی سمجھ لیجیے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بڑا بھاری فرق ہے۔ دنیوی حکومتوں کے گورنر اور وائسرائے محض انتظام ملکی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں اور سلطان کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لیے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب، پاکیزہ اخلاق، اور سچے علم و عمل کے وہ اصول بتائیں جو روشنی کے مینارے کی طرح انسانی زندگی کی شاہراہ پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے۔ مگر اس فرق کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی ہے۔ دنیا کی حکومتیں گورنری جیسے ذمہ داری کے منصب انھی لوگوں کو دیتی ہے جو ان کے سب سے زیادہ قابل اعتماد آدمی ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس عہدے پر مقرر کر دیتی ہیں تو پھر انھیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کا پورا موقع دیتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح کس پالیسی پر چل رہا ہے، اور ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کر دیتی ہیں جو عام رعایا پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔ ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسے ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں جو سب سے زیادہ قابلِ اعتماد تھے۔ اور جب انھیں اس منصب پر مقرر کر دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور ان پر کائنات کے وہ اسرار ظاہر کیے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔
مثال کے طور پر حضرت ابراہیمؑ کو آسمان اور زمین کے ملکوت، یعنی اندرونی انتظام کا مشاہدہ کرایا گیا۱؎ اور یہ بھی آنکھوں سے دکھا دیا گیا کہ خدا کس طرح مُردوں کو زندہ۲؎ کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو طور پر جلوۂ ربانی دکھایا گیا اور ایک خاص بندے کے ساتھ کچھ مدت تک پھرایا گیا تاکہ اللہ کی مشیت کے تحت دنیا کا انتظام جس طرح ہوتا ہے اس کو دیکھیں اور سمجھیں۔۳؎ ایسے ہی کچھ تجربات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی تھے۔ کبھی آپ خدا کے مقرب فرشتے کو افق پر علانیہ دیکھتے ہیں،۴؎ کبھی وہ فرشتہ قریب ہوتے ہوتے اس قدر قریب آجاتا ہے کہ آپ کے اور اس کے درمیان دو کمانوں کے بقدر بلکہ اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ جاتا ہے۔ کبھی وہی فرشتہ آپ کو سدرۃ المنتہیٰ، یعنی عالم مادی کی آخری سرحد پر ملتا ہے۔ اور وہاں آپ خدا کی عظیم الشان نشانیاں دیکھتے ہیں۔۵؎
اسی نوعیت کے تجربات میں سے ایک وہ چیز ہے جس کو معراج کہتے ہیں۔ معراج صرف سیر اور مشاہدے ہی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایسے موقعے پر ہوتی ہے جب کہ پیغمبر کو کسی کار خاص پر مقرر کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے اور اہم ہدایات دی جاتی ہیں۔ وہ موسیٰ ؑ کی معراج ہی تھی جب کہ ان کو وادیٔ سینا پر بلا کر احکام عشر (ten commandments)دیئے گئے اور ان کو حکم دیا گیا کہ مصر جاکر فرعون کو منشائے خداوندی کے مطابق نظام حکومت میں اصلاح کرنے کی دعوت دو۔ اسی طرح وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی معراج تھی جب انھوں نے ساری رات پہاڑ پر گزاری اور پھر اٹھ کر بارہ رسول مقرر کیے اور وہ وعظ کہا جو پہاڑی کے وعظ کے نام سے مشہور ہے۔ ایسا ہی ایک اہم موقع وہ تھا جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو طلب کیا گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب آپؐ کو اپنے مشن کی تبلیغ کرتے ہوئے تقریباً بارہ سال گزر چکے تھے۔ حجاز کے اکثر قبائل میں اور قریب کے ملک حبش میں آپؐ کی آواز پہنچ چکی تھی۔ اور آپ کی تحریک ایک مرحلے سے گزر کر دوسرے مرحلے میں قدم رکھنے کو تھی۔ دوسرے مرحلے سے میری مراد یہ ہے کہ اب وقت آگیا تھا کہ آپ مکہ کی ناموافق سرزمین کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف منتقل ہو جائیں جہاں آپ کی کامیابی کے لیے زمین تیار تھی۔ اس دوسرے مرحلے میں آپؐ کا مشن بہت پھیلنے والا تھا۔ صرف حجاز اور صرف عرب ہی نہیں بلکہ گرد و پیش کی دوسری قوموں سے بھی سابقہ پیش آنا تھا۔ اور اسلام کی تحریک ایک اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کو تھی، اس لیے اس اہم موقعے پر آپ کو ایک نیا پروانہ تقرر اور نئی ہدایات دینے کے لیے بادشاہ کائنات نے اپنے حضور میں طلب فرمایا۔
اسی پیشی و حضوری کا نام معراج ہے۔ عالم بالا کا یہ حیرت انگیز سفر ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس سفر کے ضمنی واقعات احادیث میں آئے ہیں۔ مثلاً بیت المقدس پہنچ کر نماز ادا کرنا، آسمان کے مختلف طبقات سے گزرنا۔ پچھلے زمانے کے پیغمبروں سے ملنا اور پھر آخری منزل پر پہنچنا۔ لیکن قرآن ضمنی چیزوں کو چھوڑ کر ہمیشہ اصل مقصد تک اپنے بیان کو محدود رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے کیفیت معراج کا ذکر نہیں کیا، بلکہ وہ چیز تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے جس کے لیے آنحضرتؐ کو بلایا گیا تھا۔ قرآن کی سترھویں سورت میں آپ کو یہ تفصیل مل سکتی ہے۔ اس کے دو حصے ہیں ایک حصے میں مکہ کے لوگوں کو آخری نوٹس دیا گیا کہ اگر تمھاری سختیوں کی وجہ سے خدا کا پیغمبر جلا وطنی پر مجبور ہوا تو مکہ میں تم کو چند سال سے زیادہ رہنے کا موقع نہ مل سکے گا۔۱؎ اور بنی اسرائیل کو جن سے عنقریب مدینہ میں پیغمبر سے براہ راست سابقہ پیش آنا تھا، خبردار کیا گیا کہ تم اپنی تاریخ میں دو زبردست ٹھوکریں کھا چکے ہو اور دو قیمتی موقعے کھو چکے ہو۔ اب تم کو تیسرا موقع ملنے والا ہے اور یہ آخری موقع ہے۔۲؎
دوسرے حصے میں وہ بنیادی اصول بتائے گئے جن پر انسانی تمدن و اخلاق کی تعمیر ہونی چاہیے۔ یہ ۱۴ اصول ہیں۔۳؎
۱۔ صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور اقتدار اعلیٰ میں اس کے ساتھ کسی کی شرکت نہ تسلیم کی جائے۔
۲۔ تمدن میں خاندان کی اہمیت ملحوظ رکھی جائے، اولاد والدین کی فرماں بردار و خدمت گزار ہو اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ہمدرد و مددگار ہوں۔
۳۔ سوسائٹی میں جو لوگ غریب یا معذور ہوں یا اپنے وطن سے باہر مدد کے محتاج ہوں وہ بے وسیلہ نہ چھوڑ دیئے جائیں۔
۴۔ دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے۔ جو مال دار اپنے روپے کو بُرے طریقے سے خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔
۵۔ لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں، نہ بخل کرکے دولت کو روکیں اور نہ فضول خرچی کرکے اپنے لیے اور دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کریں۔
۶۔ رزق کی تقسیم کا قدرتی انتظام جو خدا نے کیا ہے انسان اس میں اپنے مصنوعی طریقوں سے خلل نہ ڈالے، خدا اپنے انتظام کی مصلحتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔
۷۔ معاشی مشکلات کے خوف سے لوگ اپنی نسل کی افزائش نہ روکیں۔ جس طرح موجودہ نسلوں کے رزق کا انتظام خدا نے کیا ہے آنے والی نسلوں کے لیے بھی وہی انتظام کرے گا۔
۸۔ خواہش نفس کو پورا کرنے کے لیے زنا کا راستہ بُرا راستہ ہے لہٰذا نہ صرف زنا سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کے قریب جانے والے اسباب کا دروازہ بھی بند ہونا چاہیے۔
۹۔ انسانی جان کی حرمت خدا نے قائم کی ہے لہٰذا خدا کے مقرر کردہ قانون کے سوا کسی دوسری بنیاد پر آدمی کا خون نہ بہایا جائے، نہ کوئی اپنی جان دے، نہ دوسرے کی جان لے۔
۱۰۔ یتیموں کے مال کی حفاظت کی جائے، جب تک وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوں ان کے حقوق کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔
۱۱۔ عہد و پیمان کو پورا کیا جائے، انسان اپنے معاہدات کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔
۱۲۔ تجارتی معاملات میں ناپ تول ٹھیک ٹھیک راستی پر ہونا چاہیے۔ اوزان اور پیمانے صحیح رکھے جائیں۔
۱۳۔ جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کرو، وہم اور گمان پر نہ چلو، کیونکہ آدمی کو اپنی تمام قوتوں کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے کہ اس نے انھیں کس طرح استعمال کیا۔
۱۴۔ نخوت اور تکبر کے ساتھ نہ چلو، غرور کی چال سے نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہو۔
یہ ۱۴ اصول جو معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے تھے ان کی حیثیت صرف اخلاقی تعلیمات ہی کی نہ تھی، بلکہ یہ وہ پروگرام تھا جس پر آپ کو آئندہ سوسائٹی کی تعمیر کرنی تھی۔ یہ ہدایات اس وقت دی گئی تھیں جب آپؐ کی تحریک عنقریب تبلیغ کے مرحلے سے گزر کر حکومت اور سیاسی اقتدار کے مرحلے میں قدم رکھنے والی تھی۔ لہٰذا یہ گویا ایک مینی فیسٹو تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ خدا کا پیغمبر ان اصولوں پر تمدن کا نظام قائم کرے گا۔ اسی لیے معراج میں یہ ۱۴ نکات مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام پیروان اسلام کے لیے پانچ وقت کی نماز فرض۱؎ کی۔ تاکہ جو لوگ اس پروگرام کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے اٹھیں ان میں اخلاقی انضباط پیدا ہو اور وہ خدا سے غافل نہ ہونے پائیں۔ ہر روز پانچ مرتبہ ان کے ذہن میں یہ بات تازہ ہوتی رہے کہ وہ خود مختار نہیں ہیں بلکہ ان کا حاکم اعلیٰ خدا ہے جس کو انھیں اپنے کام کا حساب دینا ہے۔

شیئر کریں