Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)
سرورِ عالم ﷺ
میلادُ النبیؐ
سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ
معراج کی رات
معراج کا پیغام
معراج کا سفرنامہ
شب برأت
روزہ اور ضبطِ نفس
عید قربان
قربانی
پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے
زندگی بعد موت

نشری تقریریں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

معراج کا پیغام

اسلامی تاریخ میں دو راتیں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک وہ رات جس میں نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول شروع ہوا۔ دوسری وہ رات جس میں آپ کو معراج نصیب ہوئی۔ پہلی رات کی اہمیت تو سب کو معلوم ہے کہ اس میں نوع انسان کی رہنمائی کے لیے وہ روشن ہدایت نامہ بھیجا گیا جو باطل کی تاریکیوں میں حق کا نور صدیوں سے پھیلا رہا ہے اور قیامت تک پھیلاتا رہے گا۔ لیکن دوسری رات کی اہمیت بعض دینیاتی بحثوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس رات میں انسانیت کی تعمیر کے لیے کتنا عظیم الشان کارنامہ انجام پایا۔آج اس مبارک رات کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ یہ رات ہمارے لیے کیا پیغام لائی ہے۔
معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ معراج کا یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے ۱۲ سال گزر چکے تھے۔ باوجودیکہ آپ کے مخالفین نے آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے ہی جتن کر ڈالے تھے، پھر بھی آپ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی۔عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا جس میں دو چار آدمی آپ کے ہم خیال نہ بن چکے ہوں۔ خود مکہ میں ایسے مخلص لوگوں کی ایک مختصر جماعت آپ کے گرد جمع ہوگئی تھی جن سے زیادہ سرگرم اور فدا کار حامی دنیا کی کسی تحریک کو کبھی نہیں ملے۔ اور مدینہ میں دو طاقتور اور خود مختار قبیلوں کی اکثریت آپ کی دعوت پر ایمان لاچکی تھی اب وہ وقت قریب آگیا تھا کہ آپ مکہ سے مدینے منتقل ہو جائیں، تمام ملک کے منتشر مسلمانوں کو اپنے پاس سمیٹ لیں، اور ان اصولوں پر ایک ریاست قائم کر دیں جن کی اب تک آپ تبلیغ کرتے رہے تھے۔ یہی وہ موقع تھا جب آپ کو معراج کا سفر پیش آیا۔
اس سفر سے واپس آکر جو پیغام آپ نے دیا وہ قرآن مجید کی سترھویں سورۃ، سورہ بنی اسرائیل میں آج تک لفظ بلفظ محفوظ ہے۔ اس کو دیکھیے اور اس کے تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھیے تو آپ کو صاف معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کے اصولوں پر ایک نئی یاست کا سنگ بنیاد رکھنے سے پہلے وہ ہدایات دی جارہی ہیں جن پر نبیؐ اور اصحاب نبیؐ کو آگے کام کرنا تھا۔
اس پیغام میں معراج کا ذکر کرنے کے بعد سب سے پہلے بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی گئی ہے۔ مصریوں کی غلامی سے نکل کر بنی اسرائیل نے جب آزاد زندگی شروع کی تھی تو خداوند عالم نے ان کی رہنمائی کے لیے کتاب عطا فرمائی تھی اور تاکید کر دی تھی کہ میرے سوا اب اپنے معاملات کو تکمیل کسی اور کے ہاتھ میں نہ دینا۔ مگر بنی اسرائیل نے خدا کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے بجائے کفران نعمت کیا اور زمین میں مصلح بننے کے بجائے مفسد و سرکش بن کر رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا نے ایک مرتبہ ان کو بابل والوں سے پامال کرایا، اور دوسری مرتبہ رومیوں کو ان پر مسلط کر دیا۔ اس سبق آموز تاریخ کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ صرف قرآن ہی وہ چیز ہے جو تمہیں ٹھیک ٹھیک راستہ بتائے گی۔ اس کی پیروی میں کام کرو گے تو تمہارے لیے بڑے انعام کی بشارت ہے۔
دوسری اہم حقیقت جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر انسان خود اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمہ داری رکھتا ہے۔ اس کا اپنا عمل اس کے حق میں فیصلہ کن ہے۔ سیدھا چلے گا تو آپ اپنا بھلا کرے گا۔ غلط راہ پر جائے گا تو خود ہی نقصان اٹھائے گا۔ اس شخصی ذمہ داری میں کوئی کسی کا شریک نہیں ہے، اور نہ کسی کا بار دوسرے پر پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا ایک صالح معاشرے کے ہر ہر فرد کو اپنا ذاتی ذمہ داری پر نگاہ رکھنی چاہیے۔ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہوں، اسے پہلی فکر یہ ہونی چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے۔
تیسری بات جس پر متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخر کار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے بڑے لوگوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے خوش حال اور مال دار اور صاحب اقتدار لوگ فسق و فجور پر اتر آتے ہیں، ظلم و ستم اور بدکاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں، اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں سیاسی اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بداخلاق لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں۔
پھر مسلمانوں کو وہ بات یاد دلائی گئی ہے جو قرآن میں بار بار دہرائی جاتی رہی ہے کہ اگر تمہارے پیش نظر صرف یہی دنیا اور اس کی کامیابیاں اور خوش حالیاں ہوں تو یہ سب کچھ تمہیں مل سکتا ہے۔ مگر اس کا آخری انجام بہت برا ہے۔ مستقل اور پائدار کامیابی جو اس زندگی سے لے کر دوسری زندگی تک کہیں نامرادی سے داغدار نہ ہونے پائے، تمہیں صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے جب کہ تم اپنی کوششوں میں آخرت اور اس کی باز پرس کو پیش نظر رکھو۔ دنیا پرست کی خوشحالی بظاہر تعمیر کی شان رکھتی ہے مگر اس تعمیر میں ایک بہت بڑی خرابی کی صورت مضمر ہے۔ وہ اخلاق کی اس فضیلت سے محروم ہوتا ہے جو صرف آخرت کی جوابدہی کا احساس رکھنے ہی سے پیدا ہوا کرتی ہے۔ یہ فرق تم دنیا ہی میں دونوں طرح کے آدمیوں کے درمیان دیکھ سکتے ہو۔ یہی فرق بعد کی منازل حیات میں اور زیادہ نمایاں ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ ایک کی زندگی سراسر ناکامی اور دوسرے کی زندگی سراسر کامیابی بن کر رہے گی۔
ان تمہیدی نصیحتوں کے بعد وہ بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر آئندہ اسلامی ریاست اور معاشرے کی تعمیر ہونی تھی۔ یہ ۱۴ اصول ہیں اور میں انہیں اسی ترتیب سے آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں جس طرح وہ معراج کے اس پیغام میں بیان کیے گئے ہیں۔
(۱) خدائے واحد کے سوا کسی کی خداوندی نہ مانی جائے۔ صرف وہی تمہارا معبود ہو۔ اسی کی تم بندگی و اطاعت کرو، اور اسی کے حکم کی پیروی تمہارا شعار رہے اگر اس کے علاوہ کسی اور کا اقتدار اعلیٰ تم نے تسلیم کیا، خواہ وہ کوئی غیر ہو یا تمہارا اپنا نفس، تو آخر کار تم قابل مذمت بن کر رہو گے اور ان برکتوں سے محروم ہو جائو گے جو صرف خدا کی تائید سے ہی حاصل ہوا کرتی ہیں۔( یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ ہی نہ تھا بلکہ اس سیاسی نظام کا جسے بعد میں مدینہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا، اولین بنیادی اصول بھی تھا۔ اس کی پوری عمارت اس نظریہ پر اٹھائی گئی تھی کہ خداوند عالم ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے اور خدا کی شریعت ہی ملک کا قانون ہے)
(۲) انسانی حقوق میں سب سے اہم اور مقدم حق والدین کا ہے۔ اولاد کو والدین کا مطیع، خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہیے۔ معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہیے جس میں اولاد والدین سے بے نیاز اور سرکش نہ ہو بلکہ ان سے نیک سلوک کرے، ان کا احترام ملحوظ رکھے اور بڑھاپے میں ان کی وہی ناز برداری کرے جو کبھی بچپن میں وہ اس کی کرچکے ہیں۔(اس دفعہ کی رو سے یہ طے کر دیا گیا کہ اسلامی نظام معاشرت کی بنا خاندان پر رکھی جائے گی اور خاندانی نظام کا محور والدین کا ادب و احترام ہوگا۔ بعد میں اسی دفعہ کے منشا کے مطابق والدین کے وہ شرعی حقوق معین کیے گئے جن کی تفصیلات ہم کو حدیث اور فقہ میں ملتی ہیں۔ نیز اسلامی معاشرہ کی ذہنی و اخلاقی تربیت میں اور مسلمانوں کے آداب تہذیب میں وہ خیالات و اطوار پیوست کر دیئے گئے جو خدا و رسولؐ کے بعد والدین کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان چیزوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے کر دیا کہ اسلامی ریاست اپنے قوانین اور انتظامی احکام کے ذریعہ سے خاندان کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط اور محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی)
(۳) اجتماعی زندگی میں تعاون، ہمدردی، اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری رہے۔ ہر رشتہ دار اپنے دوسرے رشتہ دار کا مددگار ہو۔ ہر محتاج انسان دوسرے انسانوں سے مدد پانے کا حق دار ہو۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے۔ معاشرے میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص ان سب انسانوں کے حقوق اپنے اوپر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہے۔ ان کی کوئی خدمت کرے تو یہ سمجھے کہ وہ ان کا حق ادا کر رہا ہے نہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے۔ اور اگر کسی خدمت کے قابل نہ ہو تو معذرت کرے اور خدا سے فضل مانگے تاکہ وہ دوسروں کے کام آسکے۔(اس دفعہ کی بنیاد پر مدینہ طیبہ کے معاشرے میں صدقات واجبہ اور صدقات نافلہ کے احکام دیئے گئے وصیت، وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے۔ یتیموں کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا۔ ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے۔ اور پھر اخلاقی تعلیمات کے ذریعہ سے پورے معاشرے میں فیاضی، ہمدردی اور تعاون کی ایسی روح پھونک دی گئی کہ لوگوں کے اندر قانونی حقوق کے ماسوا اخلاقی حقوق کا ایک وسیع ترین تصور پیدا ہوگیااور اس کی بنا پر لوگ خود بخود ایک دوسرے کے ایسے حق بھی پہچاننے اور ادا کرنے لگے جو کسی قانون کے زور سے نہ مانگے جاسکتے ہیں اور نہ دلوائے جاسکتے ہیں)
(۴) لوگ اپنی دولت کو غلط طریقوں سے ضائع نہ کریں۔ فخر اور ریا اور نمائش کے خرچ، عیاشی اور فسق و فجور کے خرچ جو انسان کی حقیقی ضروریات اور مفید کاموں میں صرف ہونے کے بجائے دولت کو غلط راستوں میں بہادیں دراصل خدا کی نعمت کا کفران ہیں۔ جو لوگ اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرتے ہیں وہ حقیقت میں شیطان کے بھائی ہیں اور ایک صالح معاشرے کا فرض ہے کہ ایسے بے جا صرف مال کو اخلاقی تربیت اور قانونی پابندیوں کے ذریعہ سے روک دے۔
(۵) لوگوں میں اپنا اعتدال ہونا چاہیے کہ وہ نہ تو بخیل بن کر دولت کی گردش کو روکیں اور نہ فضول خرچ بن کر اپنی معاشی طاقت کو ضائع کریں۔ معاشرے کے افراد میں توازن کی ایک ایسی صحیح حس پائی جانی چاہیے کہ وہ بجا خرچ سے باز بھی نہ رہیں اور بیجا خرچ کی خرابیوں میں بھی مبتلا نہ ہوں۔ (مدینہ کی سوسائٹی میں ان دونوں دفعات کے منشا کی ترجمانی مختلف طریقوں سے کی گئی۔ ایک طرف فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو ازروئے قانون حرام کر دیا گیا۔ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بھی بے جا صرف مال کی روک تھام کی گئی۔ تیسری طرف حکومت کو یہ اختیارات دیئے گئے کہ اسراف کی نمایاں صورتوں کو وہ اپنے انتظامی احکام کے ذریعے سے روک دے اور جو لوگ اپنے مال میں بہت زیادہ ناروا طریقوں سے تصرف کرنے لگیں ان کی جائداد کو عارضی طور پر خود اپنے انتظام میں لے لے۔ ان تدابیر کے علاوہ معاشرے میں ایک ایسی رائے عام بھی پیدا کی گئی جو فضول خرچیوں پر واہ واہ کرنے کے بجائے ملامت کرے، اور اخلاقی تعلیم کے ذریعہ سے افراد کے نفس کی اصلاح بھی کی گئی تاکہ وہ بجا اور بے جا خرچ کے فرق کو خود سمجھیں اور بے جا خرچوں سے آپ ہی آپ باز رہیں۔ اسی طرح بخل کو بھی جس حد تک قانون کے ذریعہ سے توڑا جاسکتا تھا اس کے لیے قانون سے کام لیا گیا اور باقی اصلاح کاکام رائے عام کے زور اور اخلاقی تعلیم کی طاقت سے لیا گیا۔ آج یہ اسی کا اثر ہے کہ مسلمان سوسائٹی میں کنجوسوں اور زر اندوزوں کو جس بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کی مثال کسی دوسری سوسائٹی میں نہ ملے گی)
(۶) خدا نے اپنے رزق کی تقسیم کا جو نظام قائم کیا ہے، انسان اپنی مصنوعی تدبیروں سے اس میں دخل انداز نہ ہو۔ اس نے اپنے سب بندوں کو رزق میں مساوی نہیں رکھا ہے بلکہ ان کے درمیان کم و بیش کا فرق رکھا ہے۔ اس کے اندر بہت سی مصلحتیں ہیں جن کو وہ خود ہی بہتر جانتا ہے۔ لہٰذا ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو خدا کے مقرر کیے ہوئے اس طریقہ سے قریب تر ہو۔ فطری نامساوات کو ایک مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا، یا نامساوات کو فطرت کی حدود سے بڑھا کر بے انصافی کی حد تک پہنچا دینا، دونوں یکساں غلط ہیں۔ (اس دفعہ میں قانون فطرت کے جس اصول کی طرف رہنمائی کی گئی تھی اس کی وجہ سے مدینے کے اصلاحی پروگرام میں یہ تخیل سرے سے کوئی راہ ہی نہ پا سکا کہ رزق اور وسائل رزق میں تفاوت اور تفاضل بجائے خود کوئی بے انصافی ہے اور انصاف قائم کرنے کے لیے امیری اور غریبی کا فرق مٹانا اور ایک ’’بے طبقات‘‘ معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرنا کسی درجہ میں بھی مطلوب ہے۔ اس کے برعکس مدینہ طیبہ میں انسانی تمدن کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جو راہ عمل اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ فطرت اللہ نے انسانوں کے درمیان جو فرق رکھے ہیں ان کو اصل فطری حالت پر جوں کا توں برقرار رکھا جائے اور دفعات ۳، ۴،۵ کے مطابق سوسائٹی کے اخلاق و اطوار اور قوانین کی اس طرح اصلاح کر دی جائے کہ معاش کا فرق و تفاوت کسی ظلم و بے انصافی کا موجب بننے کے بجائے ان بے شمار اخلاقی و روحانی اور تمدنی فوائد کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالق کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے)
(۷) نسلوں کی افزائش کو اس ڈر سے روک دینا کہ کھانے والے بڑھ جائیں گے تو معاشی ذرائع تنگ ہو جائیں گے، ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ جو لوگ اس اندیشے سے آنے والی نسلوں کو بلاک کرتے ہوئے وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ رزق کا انتظام ان کے ہاتھ میں ہے۔ حالانکہ رازق وہ خدا ہے جس نے انسانوں کو زمین میں بسایا ہے پہلے آنے والوں کے لیے بھی رزق کا سامان اسی نے کیا تھا اور بعد کے آنے والوں کے لیے بھی وہی سامان کرے گا۔جتنی آبادی بڑھتی ہے، خدا اسی نسبت سے معاشی ذرائع بھی وسیع کر دیتا ہے۔ لہٰذا لوگ خدا کے تخلیقی انتظامات میں بے جا دخل اندازی نہ کریں اور کسی قسم کے حالات میں بھی ان کے اندر ’’نسل کشی‘‘ کا میلان پیدا نہ ہونے پائے۔(یہ دفعہ ان معاشی بنیادوں کو قطعی طور پر منہدم کر دیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے لے کر آج تک مختلف ادوار میں ضبط ولادت کی تحریک اٹھتی رہی ہے قدیم زمانے میں افلاس کا خوف قتل اطفال اور اسقاط حمل کا محرک ہوا کرتا تھا اور آج وہ ایک تیسری تدبیر، یعنی منع حمل کی طرف دنیا کو دھکیل رہا ہے۔ لیکن معراج کے پیغام کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت دیتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر کھانے کے ذرائع بڑھانے کی تعمیری سعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے)
(۸) زنا عورت اور مرد کے تعلق کی بالکل ایک غلط صورت ہے۔ اس کو نہ صرف بند ہونا چاہیے بلکہ معاشرے کے اندر ان اسباب کا بھی سدباب کیا جانا چاہیے جو انسان کو اس کے قریب لے جاتے ہیں۔(یہ دفعہ آخر کار اسلامی نظام زندگی کے ایک وسیع باب کی بنیاد بنی اس کے منشا کے مطابق زنا اور تہمت زنا کو فوجداری جرم قرار دیا گیا، پردے کے احکام جاری کیے گئے، فواحش کی اشاعت پر پابندیاں عائد کی گئیں، شراب اور موسیقی اور رقص اور تصاویر پر بندشیں لگائی گئیں، اور ایک ایسا ازدواجی قانون بنایا گیا جس سے نکاح نہایت آسان ہوگیا اور زنا کے معاشرتی اسباب کا خاتمہ کر دیا گیا)
(۹)انسانی جان کو اللہ تعالیٰ نے قابل احترام ٹھہرایا ہے۔ کوئی شخص نہ اپنی جان لینے کا حق رکھتا ہے اور نہ کسی دوسرے کی جان۔ خدا کی مقرر کی ہوئی یہ حرمت صرف اسی صورت میں ٹوٹ سکتی ہے جب کہ خدا ہی کا مقرر کیا ہوا کوئی حق اس کے خلاف قائم ہو جائے۔ پھر حق قائم ہو جانے کے بعد بھی خون ریزی صرف اس حد تک ہونی چاہیے جہاں تک حق کا تقاضا ہو۔ قتل میں اسراف کی تمام صورتیں بند ہو جانی چاہییں، مثلاً جوش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا جن کے خلاف حق قائم نہیں ہوا ہے یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا، یا مار دینے کے بعد اس کی لاش کی بے حرمتی کرنا، یا ایسی ہی دوسری انتقامی زیادتیاں جو دنیا میں رائج رہی ہیں۔(اس دفعہ کی بنیاد پر اسلامی قانون میں خود کشی کو حرام کیا گیا۔ قتل عمد کو جرم ٹھہرایا گیا۔ قتل خطا کی مختلف صورتوں کے لیے خون بہا اور کفارے تجویز کیے گئے۔ اور قتل بالحق کو صرف تین صورتوں میں مقید کر دیا گیا۔ ایک یہ کہ کوئی شخص قتل عمد کا مرتکب ہوا ہو، دوسرے یہ کہ کسی شادی شدہ مرد یا عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہو، تیسرے یہ کہ کسی شخص نے اسلامی نظام جماعت کے خلاف خروج کیا ہو۔ پھر قتل بالحق کا فیصلہ کرنے کے اختیارات بھی صرف قاضی شرع کو دیئے گئے، اور اس کا ایک مہذب ضابطہ بنا دیا گیا)
(۱۰) یتیموں کے مفاد کی اس وقت تک حفاظت ہونی چاہیے جب تک وہ خود اپنے بل بوتے پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہو جائیں۔ ان کے مال میں کوئی ایسا تصرف نہ ہونا چاہیے جو خود ان کے مفاد کے لیے بہتر نہ ہو۔ (یہ محض ایک اخلاقی ہدایت ہی نہ تھی، بلکہ یتامیٰ کے حقوق کی حفاظت کے لیے اسلامی نظام حکومت میں قانونی اور انتظامی دونوں طرح کی تدابیر اختیار کی گئیں جن کی تفصیلات ہم کو حدیث و فقہ کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ پھر اسی دفعہ سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ ریاست اپنے ان تمام شہریوں کے مفاد کی محافظ ہے جو خود اپنے مفاد کی حفاظت کرنے کے قابل نہ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد انا ولی من لاولی لہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ اسلامی قانون کے ایک وسیع باب کی بنیاد ہے)
(۱۱) عہد و پیمان خواہ افراد ایک دوسرے سے کریں، یا ایک قوم دوسری قوم سے کرے، بہرحال ایمانداری کے ساتھ پورے کیے جائیں۔ معاہدوں کی خلاف ورزی پر خدا کے ہاں باز پرس ہوگی۔ (یہ بھی صرف اسلامی اخلاقیات ہی کی ایک اہم دفعہ نہ تھی بلکہ آگے چل کر اسلامی حکومت نے اسی کو اپنی داخلی اور خارجی سیاست کا سنگ بنیاد قرار دیا)
(۱۲) ناپ کے پیمانےاور اوزان ٹھیک رکھے جائیں اور لین دین میں صحیح تول تولی جائے۔ (اس دفعہ کے مطابق اسلامی حکومت کے محکمۂ احتساب پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک فرض یہ بھی عائد ہوا کہ وہ منڈیوں میں اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرے اور تطفیف کو بزور بند کر دے۔ پھر اسی سے یہ وسیع اصول اخذ کیا گیا کہ تجارت اور معاشی لین دین میں ہر قسم کی بے ایمانیوں اور حق تلفیوں کا سدباب کرنا حکومت کا فرض ہے)
(۱۳)تم کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کے صحیح ہونے کا تمہیں علم نہ ہو۔ اپنی سماعت اور بینائی کا اور اپنے دلوں کی نیتوں اور خیالات اور ارادوں کا تمہیں خدا کو حساب دینا ہے(اس دفعہ کا منشا یہ تھا کہ مسلمان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہم و گمان اور قیاس کے بجائے ’’علم‘‘ کی پیروی کریں۔ اس منشا کی ترجمانی اخلاق میں، قانون میں، ملکی نظم و نسق اور سیاست میں اور نظام تعلیم میں مختلف طریقوں سے بہت وسیع پیمانے پر کی گئی اور ان بے شمار خرابیوں سے اسلامی معاشرے کو بچا لیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنے سے زندگی کے مختلف پہلوئوں میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بدگمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگائو۔ قانون میں یہ مستقل اصول مقرر کیا گیا کہ محض شبہ پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے ۔ تفتیش جرائم میں یہ قاعدہ طے کر دیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی ناجائز ہے۔ غیر قوموں کے ساتھ برتائو میں بھی یہ پالیسی معین کر دی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے اور نہ شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں۔ نظام تعلیم میں بھی ان تمام نام نہاد ’’علوم‘‘ کو ناپسند کیا گیا جو محض ظن و تخمین اور لا طائل قیاسات پر مبنی ہیں اور مسلمانوں کے اندر ایک حقیقت پسندانہ ذہنیت پیدا کی گئی)
(۱۴) زمین میں جباروں اور متکبروں کی چال نہ چلو، تم نہ اپنی اکڑ سے زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ اپنے غرور میں پہاڑوں سے سر بلند ہوسکتے ہو۔ (یہ بھی محض ایک واعظانہ بات نہ تھی بلکہ درحقیقت اس میں مسلمانوں کو پیشگی تنبیہ کی گئ تھی کہ ایک حکمران گروہ بننے کے بعد وہ غرور و تکبر میں مبتلا نہ ہوں۔ یہ اسی ہدایت کا فیض تھا کہ جو حکومت اس منشور کے مطابق مدینہ طیبہ میں قائم کی گئی اس کے فرماں روائوں، گورنروں اور سپہ سالاروں کی زبان یا قلم سے نکلا ہوا ایک جملہ بھی آج ہمیں ایسا نہیں ملتا جس میں ادائے تکبر کا ادنیٰ شائبہ تک پایا جاتا ہو۔ حتیٰ کہ جنگ میں بھی انہوں نے کبھی فخر و غرور کی کوئی بات زبان سے نہ نکالی۔ ان کی نشست و برخاست، چال ڈھال اور عام برتائو، ہر چیز میں انکسار و تواضع کی شان پائی جاتی تھی، اور جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے تھے اس وقت بھی اکڑ اور تبختر سے کبھی اپنا رعب جمانے کی کوشش نہ کرتے تھے)
یہی وہ اصول تھے جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے پہنچ کر اسلامی سوسائٹی اور اسلامی ریاست کی تعمیر فرمائی۔
۵، جون ۱۹۴۸ئ؁

شیئر کریں