Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)
سرورِ عالم ﷺ
میلادُ النبیؐ
سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ
معراج کی رات
معراج کا پیغام
معراج کا سفرنامہ
شب برأت
روزہ اور ضبطِ نفس
عید قربان
قربانی
پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے
زندگی بعد موت

نشری تقریریں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

معراج کا سفرنامہ

معراج، پیغمبرِ اسلام کی زندگی کے اُن واقعات میں سے ہے جنھیں دنیا میں سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے۔ عام روایت کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے ۲۷ رجب کی رات کو پیش آیا۔ اس کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ معراج کس غرض کے لیے ہوئی تھی اور خدا نے اپنے رسول کو بلا کر کیا ہدایات دی تھیں۔ حدیث یہ بتاتی ہے کہ معراج کس طرح ہوئی اور اس سفر میں کیا واقعات پیش آئے۔
اس واقعہ کی تفصیلات ۲۸ ہم عصر راویوں کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں۔ سات راوی وہ ہیں جو خود معراج کے زمانہ میں موجود تھے۔ اور ۲۱ وہ جنھوں نے بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زبان مبارک سے اس کا قصہ سنا۔ مختلف روایتیں قصہ کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہیں اور سب کو ملانے سے ایک ایسا سفرنامہ بن جاتا ہے جس سے زیادہ دل چسپ، معنی خیز اور نظر افروز سفرنامہ انسانی لٹریچر کی پوری تاریخ میں نہیں ملتا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبری کے منصب پر سرفراز ہوئے ۱۲ سال گزر چکے تھے۔ ۵۲ برس کی عمر تھی۔ حرمِ کعبہ میں سو رہے تھے۔ یکایک جبریلؑ فرشتے نے آکر آپ کو جگایا۔ نیم خفتہ ونیم بیدار حالت میں اُٹھا کر آپ کو زَم زَم کے پاس لے گئے۔ سینہ چاک کیا۔ زَم زَم کے پانی سے اسے دھویا پھر اسے علم اور بُردباری اور دانائی اور ایمان ویقین سے بھر دیا۔ اس کے بعد آپ کی سواری کے لیے ایک جانور پیش کیا جس کا رنگ سفید اور قد خچر سے کچھ چھوٹا تھا۔ برق کی رفتار سے چلتا تھا اور اسی مناسبت سے اس کا نام ’’براق‘‘ تھا۔ پہلے انبیا بھی اس نوعیت کے سفر میں اسی سواری پر جایا کرتے تھے۔ جب آپ سوار ہونے لگے تو وہ چمکا۔ جبریل ؑنے تھپکی دے کر کہا، دیکھ کیا کرتا ہے، آج تک محمدؐ سے بڑی شخصیت کا کوئی انسان تجھ پر سوار نہیں ہوا ہے۔ پھرآپ اُس پر سوار ہوئے اور جبریل ؑآپ کے ساتھ چلے۔ پہلی منزل مدینہ کی تھی جہاں اُتر کر آپ نے نماز پڑھی۔ جبریل ؑ نے کہا اس جگہ آپ ہجرت کرکے آئیں گے۔ دوسری منزل طور سینا کی تھی جہاں خدا حضرت موسیٰ سے ہم کلام ہوا۔ تیسری منزل بیتِ لحم کی تھی جہاں حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے۔ چوتھی منزل پر بیت المقدس تھا جہاں بُراق کا سفر ختم ہوا۔
اس سفر کے دَوران میں ایک جگہ کسی پکارنے والے نے پکارا ادھر آئو۔ آپ نے توجہ نہ کی۔ جبریل ؑنے بتایا یہ یہودیت کی طرف بلا رہا تھا۔ دوسری طرف سے آواز آئی اِدھر آئو۔ آپ اس کی طرف بھی ملتفت نہ ہوئے۔ جبریل ؑنے کہا یہ عیسائیت کا داعی تھا۔ پھر ایک عورت نہایت بنی سنوری نظر آئی اور اس نے اپنی طرف بلایا۔ آپ نے اُس سے بھی نظر پھیر لی۔ جبریلؑ نے بتایا یہ دُنیا تھی۔ پھر ایک بوڑھی عورت سامنے آئی۔ جبریلؑ نے کہا دنیا کی عمر کا اندازہ اس کی عمر سے کر لیجیے۔ پھر ایک اور شخص ملا جس نے آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا، مگر آپ اُسے بھی چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ جبریلؑ نے کہا یہ شیطان تھا جو آپ کو راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔
بیت المقدس پہنچ کر آپ بُراق سے اُتر گئے اور اُسی مقام پر اُسے باندھ دیا جہاں پہلے انبیا اس کو باندھا کرتے تھے۔ ہیکل سلیمانی میں داخل ہوئے تو ان سب پیغمبروں کو موجود پایا جو ابتدائے آفرینش سے اُس وقت تک دنیا میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے پہنچتے ہی نماز کے لیے صفیں بندھ گئیں۔ سب منتظر تھے کہ امامت کے لیے کون آگے بڑھتا ہے۔ جبریلؑ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا دیا اور آپ نے سب کو نماز پڑھائی۔ پھر آپ کے سامنے تین پیالے پیش کیے گئے۔ ایک میں پانی، دوسرے میں دودھ، تیسرے میں شراب۔ آپ نے دُودھ کا پیالہ اُٹھا لیا۔ جبریلؑ نے مبارک باد دی کہ آپ فطرت کی راہ پا گئے۔
اس کے بعد ایک سیڑھی آپ کے سامنے پیش کی گئی اورجبریلؑ اس کے ذریعہ سے آپ کو آسمان کی طرف لے چلے۔ عربی زبان میں سیڑھی کو معراج کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے یہ سارا واقعہ معراج کے نام سے مشہور ہوا ہے۔
پہلے آسمان پر پہنچے تو دروازہ بند تھا۔ محافظ فرشتوں نے پوچھا کون آتا ہے؟ جبریلؑ نے اپنا نام بتایا۔ پوچھا تمھارے ساتھ کون ہے؟ جبریلؑ نے کہا محمدﷺ۔ پوچھاکیا انھیں بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں۔ تب دروازہ کھلا اور آپ کا پُرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ یہاں آپ کا تعارف فرشتوں اور انسانی ارواح کی ان بڑی بڑی شخصیتوں سے ہوا جو اُس مرحلہ پر مقیم تھیں۔ ان میں نمایاں شخصیت ایک ایسے بزرگ کی تھی جو انسانی بناوٹ کا مکمل نمونہ تھے۔ چہرے مُہرے اور جسم کی ساخت میں کسی پہلو سے کوئی نقص نہ تھا۔ جبریلؑ نے بتایا یہ آدم ہیں، آپ کے مورثِ اعلیٰ۔ ان بزرگ کے دائیں بائیں بہت لوگ تھے۔ وہ دائیں جانب دیکھتے تو خوش ہوتے اوربائیں جانب دیکھتے تو روتے۔ پوچھا یہ کیا ماجرا ہے؟ بتایا گیا کہ یہ نسلِ آدم ہے۔ آدمؑ اپنی اولاد کے نیک لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور بُرے لوگوں کو دیکھ کر روتے ہیں۔
پھر آپ کو تفصیلی مشاہدہ کا موقع دیا گیا۔ ایک جگہ آپ نے دیکھا کچھ لوگ کھیتی کاٹ رہے ہیں اور جتنی کاٹتے جاتے ہیں اتنی ہی وہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں۔
پھر دیکھا کچھ لوگ ہیں جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا۔ یہ وُہ لوگ ہیں جن کی سرگرانی انھیں نماز کے لیے اُٹھنے نہ دیتی تھی۔
کچھ اور لوگ دیکھے جن کے کپڑوں میں آگے اور پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے اور وہ جانوروں کی طرح گھاس چر رہے تھے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ وہ ہیں جو اپنے مال سے زکوٰۃ خیرات کچھ نہ دیتے تھے۔
پھر ایک شخص کو دیکھا کہ لکڑیوں کا گٹھا جمع کرکے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور جب وہ نہیں اٹھتا تو اس میں کچھ اور لکڑیاں بڑھا لیتا ہے۔ پوچھا یہ کون احمق ہے؟ کہا گیا یہ وہ شخص ہے جس پر امانتوں اور ذمہ داریوں کا اتنا بوجھ تھا کہ اُٹھا نہ سکتا تھا مگر یہ انھیں کم کرنے کے بجائے اور زیادہ ذمہ داریوں کا بار اپنے اوپر لادے چلا جاتا تھا۔
پھر دیکھا کہ کچھ لوگوں کی زبانیں اورہونٹ قینچیوں سے کترے جا رہے ہیں۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ غیر ذمہ دار مقرر ہیں جو بے تکلف زبان چلاتے اور فتنہ برپا کیا کرتے تھے۔
ایک اور جگہ دیکھا کہ ایک پتھر میں ذرا سا شگاف ہوا اور اس سے ایک بڑا موٹا سا بیل نکل آیا۔ پھر وہ بیل اسی شگاف میں واپس جانے کی کوشش کرنے لگا مگر نہ جا سکا۔ پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ کہا گیا یہ اُس شخص کی مثال ہے جو غیر ذمہ داری کے ساتھ ایک فتنہ انگیز بات کر جاتا ہے پھر نادم ہو کر اس کی تلافی کرنا چاہتا ہے مگر نہیں کر سکتا۔
ایک اور مقام پر کچھ لوگ تھے جو اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ دوسروں پر زبانِ طعن دراز کرتے تھے۔
انھی کے قریب کچھ اور لوگ تھے جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی پیٹھ پیچھے ان کی بُرائیاں کرتے اور ان کی عزت پر حملے کیا کرتے تھے۔
کچھ اور لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کے مشابہ تھے اور وہ آگ کھا رہے تھے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ یتیموں کا مال ہضم کرتے تھے۔
پھر دیکھا کچھ لوگ ہیں جن کے پیٹ بے انتہا بڑے اورسانپوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ آنے جانے والے ان کو روندتے ہوئے گزرتے ہیں مگر وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ سود خور ہیں۔
پھر کچھ اور لوگ نظر آئے جن کے ایک جانب نفیس چکنا گوشت رکھا تھا اور دوسری جانب سڑا ہوا گوشت جس سے سخت بدبُوآ رہی تھی۔ وہ اچھا گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ وہ مرد اور عورتیں ہیں جنھوں نے حلال بیویوں اور شوہروں کے ہوتے حرام سے اپنی خواہشِ نفس پوری کی۔
پھر دیکھا کچھ عورتیں اپنی چھاتیوں کے بل لٹک رہی ہیں۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا یہ وہ عورتیں ہیں جنھوں نے اپنے شوہروں کے سر ایسے بچے منڈھ دیئے جو اُن کے نہ تھے۔
اِنھی مشاہدات کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ایک ایسے فرشتے سے ہوئی جو نہایت تُرش روئی سے ملا، آپ نے جبریلؑ سے پوچھا، اب تک جتنے فرشتے ملے تھے سب خندہ پیشانی اور بشاش چہروں کے ساتھ ملے، ان حضرت کی خشک مزاجی کا کیا سبب ہے؟ جبریلؑ نے کہا اس کے پاس ہنسی کا کیا کام، یہ تو دوزخ کا داروغہ ہے۔ یہ سن کر آپ نے دوزخ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے یکایک آپ کی نظر کے سامنے سے پردہ اُٹھا دیا اور دوزخ اپنی تمام ہول ناکیوں کے ساتھ نمودار ہو گئی۔
اس مرحلہ سے گزر کر آپ دوسرے آسمان پر پہنچے۔ یہاں کے اکابر میں دو نوجوان سب سے ممتاز تھے۔ تعارُف پر معلوم ہوا یہ یحییٰ ؑاور عیسیٰ ؑہیں۔
تیسرے آسمان پر آپ کا تعارف ایک ایسے بزرگ سے کرایا گیا جن کا حُسن عام انسانوں کے مقابلہ میں ایسا تھا جیسے تاروں کے مقابلے میں چودھویں کا چاند۔ معلوم ہوا یہ یوسف علیہ السلام ہیں۔
چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑ، پانچویں پر حضرت ہارونؑ، چھٹے پر حضرت موسیٰؑ آپ سے ملے۔ ساتویں آسمان پر پہنچے تو ایک عظیم الشان محل (بیت المعمور) دیکھا جہاں بے شمار فرشتے آتے اور جاتے تھے۔ اس کے پاس آپ کی ملاقات ایک ایسے بزرگ سے ہوئی جو خود آپ سے بہت مشابہ تھے۔ تعارف پر معلوم ہوا حضرت ابراہیم ؑہیں۔
پھر مزید ارتقا شروع ہوا یہاں تک کہ آپ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچ گے جو پیش گاہِ ربُّ العزت اور عالم خلق کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیچے سے جانے والے یہاں رُک جاتے ہیں اور اوپر سے احکام اور قوانین براہِ راست یہاں آتے ہیں۔ اسی مقام کے قریب آپ کو جنت کا مشاہدہ کرایا گیا اور آپ نے دیکھا کہ اللہ نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ مہیا کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی ذہن میں اس کا تصور تک گزر سکا۔
سدرۃُ المنتہیٰ پر جبریلؑ ٹھہر گئے اور آپ تنہا آگے بڑھے۔ ایک بلند ہموار سطح پر پہنچے تو بارگاہِ جلال سامنے تھے۔ ہم کلامی کا شرف بخشا گیا۔ جو باتیں ارشاد ہوئیں ان میں سے چند یہ ہیں؟
(۱) ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔
(۲) سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں تعلیم فرمائیں گئیں۔
(۳) شرک کے سوا دوسرے سب گناہوں کی بخشش کا امکان ظاہر کیا گیا۔
(۴) ارشاد ہوا کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے اُس کے حق میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ مگر جو برائی کا ارادہ کرتا ہے اس کے خلاف کچھ نہیں لکھا جاتا اور جب وہ اس پر عمل کرتا ہے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے۔
پیشی خداوندی سے واپسی پر نیچے اُترے توحضرت موسٰیؑ سے ملاقات ہوئی۔ اُنھوں نے رُودار سن کر کہا میں بنی اسرائیل کا تلخ تجربہ رکھتا ہوں، میرا اندازہ ہے کہ آپ کی امت پچاس نمازوں کی پابندی نہیں کر سکتی۔ جائیے اور کمی کے لیے عرض کیجیے۔ آپ گئے اور اللہ جل شانہٗ نے ۱۰ نمازیں کم کر دیں۔ پلٹے تو حضرت موسیٰؑ نے پھر وہی بات کہی۔ ان کے کہنے پر آپ باربار اوپر جاتے رہے اور ہر بار دس نمازیں کم کی جاتی رہیں۔ آخر پانچ نمازوں کی فرضیت کا حکم ہوا اور فرمایا گیا کہ یہی پچاس کے برابر ہیں۔
واپسی کے سفر میں آپ اسی سیڑھی سے اُتر کر بیت المقدس آئے۔ یہاں پھر تمام پیغمبر موجود تھے۔ آپ نے ان کو نماز پڑھائی جو غالباً فجر کی نماز تھی۔ پھر بُراق پر سوار ہوئے اور مکہ واپس پہنچ گئے۔
صبح سب سے پہلے آپ نے اپنی چچا زاد بہن اُمِّ ہانی کو یہ رُوداد سنائی۔ پھر باہر نکلنے کا قصد کیا۔ اُنھوں نے آپ کی چادر پکڑ لی اور کہا خدا کے لیے یہ قصہ لوگوں کو نہ سنائیے گا ورنہ اُن کو آپ کا مذاق اڑانے کے لیے ایک اور شوشہ ہاتھ آ جائے گا۔ مگر آپ یہ کہتے ہوئے باہرنکل گئے کہ مَیں ضرور بیان کروں گا۔ حرم کعبہ میں پہنچے تو ابوجہل سے آمنا سامنا ہوا۔ اُس نے کہا کوئی تازہ خبر؟ فرمایا، ہاں۔ پوچھا کیا۔؟ فرمایا کہ میں آج کی رات بیت المقدس گیا تھا۔ کہا بیت المقدس؟ راتوں رات ہو آئے؟ اور صبح یہاں موجود؟ فرمایا، ہاں۔ کہا قوم کو جمع کروں؟ سب کے سامنے یہی بات کہو گے؟ فرمایا بے شک۔ ابوجہل نے آوازیں دے دے کر سب کو جمع کر لیا اور کہا لو اب کہو۔ آپ نے سب کے سامنے پورا قصہ بیان کر دیا۔ لوگوں نے مذاق اُڑانا شروع کیا۔ دو مہینہ کا سفر ایک رات میں؟ ناممکن! محال! پہلے تو شک تھا، اب یقین ہو گیا کہ تم دیوانے ہو گئے ہو۔
آناً فاناً یہ خبر تمام مکہ میں پھیل گئی بہت سے مسلمان اسے سُن کر اسلام سے پھر گئے۔ لوگ اس امید پر حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچے کہ یہ محمدؐ کے دستِ راست ہیں، یہ پھر جائیں تو اس تحریک کی جان ہی نکل جائے۔ انھوں نے یہ قصہ سن کر کہا اگر واقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان کیا ہے تو ضرور سچ ہو گا، اس میں تعجب کی کیا بات ہے، میں تو روز سنتا ہوں کہ ان کے پاس آسمان سے پیغام آتے ہیں اوراس کی تصدیق کرتا ہوں۔
پھر حضرت ابوبکرؓ حرمِ کعبہ میں آئے۔ رسولؐ اللہ موجود تھے۔ اور ہنسی اُڑانے والا مجمع بھی۔ پوچھا کیا واقعی آپ نے ایسا فرمایا ہے؟ جواب دیا، ہاں۔ کہا بیت المقدس میرا دیکھا ہوا ہے، آپ وہاں کا نقشہ بیان کریں، آپ نے فورًا نقشہ بیان کرنا شروع کر دیا اور ایک ایک چیز اس طرح بیان کی گویا بیت المقدس سامنے موجود ہے اور دیکھ دیکھ کر اس کی کیفیت بتا رہے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کی اس تدبیر سے جھٹلانے والوں کو ایک شدید ضرب لگی۔ وہاں بکثرت ایسے آدمی موجود تھے جو تجارت کے سلسلہ میں بیت المقدس جاتے رہتے تھے۔ وہ سب دلوں میں قائل ہو گئے کہ نقشہ بالکل صحیح ہے۔ اب لوگ آپ کے بیان کی صحت کا مزید ثبوت مانگنے لگے۔ فرمایا جاتے ہوئے میں فلاں مقام پر فلاں قافلہ پر سے گزرا جس کے ساتھ یہ سامان تھا، قافلہ والوں کے اُونٹ براق سے بھڑکے۔ ایک اونٹ فلاں وادی کی طرف بھاگ نکلا، میں نے قافلہ والوں کو اس کا پتا دیا۔ واپسی میں فلاں وادی میں فلاں قبیلہ کا قافلہ مجھے ملا، سب لوگ سو رہے تھے۔ میں نے ان کے برتن سے پانی پیا اور اس بات کی علامت چھوڑ دی کہ اس سے پانی پیا گیا ہے۔ ایسے ہی کچھ اور اَتے پتے آپ نے دیے اور بعد میں آنے والے قافلوں سے اُن کی تصدیق ہوئی۔ اس طرح زبانیں بند ہو گئیں مگر دل یہی سوچتے رہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آج بھی بہت سے لوگ سوچ رہے ہیں کہ یہ کیسے ہوا؟ (۳۰ جولائی ۱۹۴۳؁ء)

شیئر کریں