Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسئلۂ قربانی شرعی اور عقلی نقطۂ نظر سے پاکستان میں قربانی کے خلاف مہم
اس پروپیگنڈے کا اثر ہندی مسلمانوں پر
شیطانی ذوق تفرقہ اندازی
تفریق بین اللہ و الرسول
منصبِ رسولؐ
رسالت کا غلط تصوُّر
غلط تصو ر کی فتنہ انگیزی
چند مثالیں اور نتائج
سنت، قرآن کی عملی تشریح ہے
قربانی کے قرآنی احکام اور ان کی حکمت
اوقاتِ قربانی کی تعیین
قربانی کا تاریخی پس منظر
اسے عالم گیر بنانے میں مصلحت
قربانی کی حقیقی روح
نبیؐ کی خدا داد بصیرت
احادیث سے قربانی کا ثبوت
فقہائے اُمّت کا اِتفاق
اُمّت کا تواتر عمل
ہمارا اَخلاقی انحطاط
مخالفین کے دلائل کا دینی تجزیہ
اجتماعی نقطۂ نظر سے جائزہ
معترضین کے چند مزید سہارے

مسئلہ قربانی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

معترضین کے چند مزید سہارے

حال میں ایک صاحب نے کچھ شرعی سہارے اس غرض کے لیے تلاش کیے ہیں کہ قربانی بند نہ سہی محدود ہی ہو جائے اور حکومت اسے محدود کرکے حد مقرر سے زائد قربانیوں کا روپیہ خیراتی کاموں میں صرف کرنے کا انتظام کردے۔ ان سہاروں کی نوعیت بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔
وہ کہتے ہیں کہ قربانی صرف امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک واجب ہے، باقی ائمہ دین اسے صرف سنت مانتے ہیں۔ حالانکہ ان کی یہ بات بھی غلط ہے کہ اسے صرف امام اعظم واجب قرار دیتے ہیں، اوریہ بھی غلط کہ باقی ائمہ اسے سنت اس معنی میں مانتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ جن ائمہ نے اسے واجب قرار دیا ہے ان میں امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ بھی شامل ہیں، اور امام شافعیؒ وغیرہ جنھوں نے اسے سنت مانا ہے وہ سب اسے سنت موکدہ کہتے ہیں جس کا ترک جائز نہیں۔
ان کا بیان ہے کہ شارع کا منشا قربانی کو محدود کرنا تھا کیوں کہ حضورؐ نے قربانی کا حکم صرف ذی استطاعت لوگوں کو دیا ہے اور حدیث میں یہ بھی فرمایا ہے کہ علیٰ کل اھل بیت فی کل عام اضحیۃ وعتیرۃ (ہر گھر کے لوگوں پر ہر سال ایک قربانی بقرعید کی اور ایک رجب کی لازم ہے)۔ حالانکہ ترمذی کے بقول یہ حدیث غریب اور ضعیف السند ہے اور ابودائود نے صراحت کی ہے کہ رجب کی قربانی کا حکم حضورؐ نے منسوخ فرما دیا تھا۔ تاہم اس بحث کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ شارعؐ نے ایک چیز کو لازم کرتے ہوئے اگر اس کی ایک کم از کم حد مقرر کی ہو تو کیا واقعی اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع اس پر عمل کو محدود کرنا چاہتا ہے؟ نماز صرف پانچ وقت کی چندرکعتیں فرض ہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ شارع نماز کو محدود رکھنا چاہتا ہے اور فرض رکعتوں سے زیادہ پڑھنا اسے پسند نہیں؟ روزے صرف رمضان کے فرض ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ روزوں کو محدود کرنا ہی مقصود ہے اور زائد روزے ناپسندیدہ ہیں؟ زکوٰۃ کی ایک محدود مقدار صرف صاحب نصاب پر لازم کی گئی ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کو محدود کرنا پیش نظر ہے اور غیر صاحب نصاب اگر راہ خدا میں مال صرف کرے یا صاحب نصاب زکوٰۃ کے علاوہ کچھ خیرات کرے تو یہ ناپسندیدہ بات ہوگی؟
وہ قرآن سے بعض نظیریں پیش کرتے ہیں کہ حج کی بعض رعایات سے فائدہ اٹھانے والوں اور بعض کوتاہیوں کا ارتکاب کرنے والوں پر جو قربانی لازم کی گئی ہے اس کا بدل روزوں کی شکل میں یا مالی انفاق کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے خود تجویز فرمایا ہے۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ بقر عید کی قربانی کا بدل بھی اسی طرح تجویز کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ یہ استدلال اصولاً غلط ہے۔ وہاں شارع نے دو تین متبادل صورتیں ایک واجب سے سبک دوش ہونے کے لیے خود تجویز کی ہیں۔ یہاں آپ شارع کی ایک ہی مقرر کردہ شکل عبادت کا بدل تجویز فرما رہے ہیں۔ یہ اختیار آپ کو کس نے دیا ہے؟ کیا اسی طرح آپ نماز، روزے، زکوٰۃ، حج اور دوسرے فرائض و واجبات کے بدل بھی، آپ ہی آپ تجویز کرلینے کے لیے آزاد ہیں؟
پھر وہ ہدایہ کی ایک عبارت سے یہ بالکل غلط مفہوم نکالتے ہیں کہ قربانی کے دنوں میں اگرچہ قربانی ہی کرنا افضل ہے، مگر اس کی بجائے جانور کی قیمت صدقہ کر دینا بھی جائز ہے۔ حالانکہ کوئی فقیہ اس بات کا قائل نہیں ہے کہ بقر عید کے ایام میں جانور کی قیمت کا صدقہ قربانی کا بدل ہوسکتا ہے۔ صاحب ہدایہ غریب کو اگر معلوم ہوتا کہ کسی وقت ان کے الفاظ التضحیہ فیھا افضل من التصدق بثمن الاضحیۃ کا مطلب یہ نکالا جائے گا کہ قربانی کے دنوں میں قربانی کی بجائے جانور کی قیمت صدقہ کر دینا بھی درست ہے تو وہ دس بار اس پر توبہ کرتے۔ آخر فقہ حنفی کی ایک کتاب ہدایہ ہی تو نہیں ہے۔ دوسری بے شمار کتابیں بھی دنیا میں موجود ہیں اور قریب قریب سب ہی میں بالفاظ صریح یہ بات لکھی گئی ہے کہ ان دنوں میں کوئی صدقہ قربانی کا بدل نہیں ہوسکتا۔
ایک دل چسپ استدلال ان کا یہ بھی ہے کہ اب لوگوں کے اندر خلوص و تقوٰی کم ہے اور اس کی بجائے فخر، ریا اور نام و نمود کی خاطر لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔ گویا جب یہی لوگ قربانی کی بجائے قومی فنڈز میں … اور وہ بھی سرکاری فنڈ میں… بڑھ چڑھ کر چندے دیں گے تو اس وقت یہ کام غایت درجہ خلوص و تقوٰی کے ساتھ ہوگا اس کے بعد بعید نہیں کہ ہر مسجد پر ایک محتسب خلوص پیما آلات لیے ہوئے موجود رہے اور اس سے ناپ ناپ کر ہر ’’ریا کار‘‘ نمازی کو حکم دے کہ نوافل اور سنتیں چھوڑ کر ان کے بدلے قومی فنڈ میں روپیہ داخل کرو۔
ان کم زور سہاروں پر یہ عمارت کھڑی کی گئی ہے کہ قربانی کو محدود کر دینا شریعت کے منشا کے مطابق ہے۔
٭…٭…٭

شیئر کریں