Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی ریاست میں ذمیّوں کے حقوق
غیر مسلم رعایا کی اقسام:
معاہدین:
مفتوحین:
ذمّیوں کے عام حقوق
حفاظت جان
فوجداری قانون:
دیوانی قانون:
تحفظ عزت:
ذمّہ کی پائیداری:
شخصی معاملات:
مذہبی مراسم:
عبادت گاہیں:
جزیہ و خراج کی تحصیل میں رعایات:
تجارتی ٹیکس
فوجی خدمت سے استثناء:
فقہائِ اسلام کی حمایت
زائد حقوق جو غیر مسلموں کو دیے جا سکتے ہیں
نمائندگی اور رائے دہی:
تہذیبی خود اختیاری:
آزادیٔ تحریر و تقریر وغیرہ
تعلیم:
ملازمتیں
معاشی کاروبار اور پیشے:
غیر مسلموں کے لیے تحفظ کی واحد صورت:
ضمیمۂ اوّل
ضمیمۂ دوم
حقوق شہریت

اسلامی ریاست میں ذِمّیوں کے حقوق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

معاہدین:

یہ لوگ جنگ کے بغیر یا دورانِ جنگ میں اطاعت قبول کرنے پر راضی ہو جائیں اور حکومت اسلامی سے مخصوص شرائط طے کر لیں، ان کے لیے اسلام کا قانون یہ ہے کہ ان کے ساتھ تمام معاملات ان شرائط ِ صلح کے تابع ہوں گے جو ان سے طے ہوئی ہوں۔ دشمن کو اطاعت پر آمادہ کرنے کے لیے چند فیاضانہ شرائط طے کر لینا اور پھر جب وہ پوری طرح قابو میں آ جائے تو اس کے ساتھ مختلف برتائو کرنا، آج کل کی مہذب قوموں کے سیاسی معمولات میں سے ہے۔ مگر اسلام اس کو ناجائز بلکہ حرام اور گناہِ عظیم قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ جب کسی قوم کے ساتھ کچھ شرائط طے ہو جائیں (خواہ وہ مرغوب ہوں یا نہ ہوں) تو اس کے بعد ان شرائط سے یک سرِ مو تجاوز بھی نہ کیا جائے، بلالحاظ اس کے کہ فریقین کی اعتباری حیثیت اور طاقت و قوت (Relative Position) میں کتنا ہی فرق آ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
لعلکم تقاتلون قومأ فتظھرون علیھم فیتقونکم باموالھم دون انفسھم وابنائھم وفی روایۃ فیصا لحونکم علی صلحٍ، فلا تصیبوا منھم فوق ذالک فانہ لا یصلح لکم۔ (ابو دائود، کتاب الجہاد)
’’اگر تم کسی قوم سے لڑو اور اس پرغالب آ جائو اور وہ قوم اپنی اور اپنی اولاد کی جان بچانے کے لیے تم کوخراج دینا منظور کر لے(ایک دوسری حدیث میں ہے کہ تم سے صلح نامہ طے کر لے) تو پھر بعد میں اس مقررہ خراج سے ایک حبہ بھی زائد نہ لینا، کیونکہ وہ تمہارے لیے ناجائز ہو گا‘‘۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
الامن ظلم معاھدا او انتقصہ او کلَّفہٗ قوق طاقتہ او اخذ منہ شیئاً بغیر طیب نفس فانا حجیجہٗ یوم القیامۃ۔ (ابو دائود، کتاب الجہاد)
’’خبردار! جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا‘ اس کے حقوق میں کمی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا، یا اس سے کوئی چیز اس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا، اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود مستغیث بنوں گا‘‘۔
ان دونوں حدیثوں کے الفاظ عام ہیں اور ان سے یہ قاعدۂ کلیہ مستبظ ہوتا ہے کہ معاہد ذمّیوں کے ساتھ صلح نامہ میں جو شرائط طے ہو جائیں ان میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ نہ ان پر خراج بڑھایا جا سکتا ہے، نہ ان کی زمینوں پر قبضہ کی جا سکتا ہے، نہ ان کی عمارتیں چھینی جا سکتی ہیں، نہ ان پر سخت فوجداری قوانین نافذ کیے جا سکتے ہیں، نہ ان کے مذہب میں دخل دیا جا سکتا ہے، نہ ان کی عزت و آبرو پر حملہ کیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی ایسا فعل کیا جا سکتا ہے جو ظلم یا انتقاص، یا تکلیف مالا یُطاق، یا اخذ بغیر طیب نفس کی حدود میں آتا ہو، انہی احکام کی بِنا پر فقہائے اسلام نے صلحاً فتح ہونے والی قوموں کے متعلق کسی قسم کے قونین مدون نہیں کیے ہیں اور صرف یہ عام قاعدہ وضع کرکے چھوڑ دیا ہے کہ ان کے ساتھ ہمارا معاملہ بالکل شرائطِ صلح کے مطابق ہو گا۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں:۔
یوخذ منھم ماصو لحوا علیہ ویوفی لھم ولا یزاد علیھم۔(کتاب الخراج صفحہ ۳۵)
’’ان سے وہی لیا جائے گا جس پر ان کے ساتھ صلح ہوئی ہے‘ ان کے حق میں صلح کی شرائط پوری کی جائیں گی‘ اور ان پر کچھ اضافہ نہ کیا جائے گا۔‘‘

شیئر کریں