معاشی اَغراض کا اِشتِراک انسانی خود غرضی کا ایک ناجائز بچہ ہے۔ قدرت نے اس کو ہرگز پیدا نہیں کیا۔ آدمی کا بچہ کام کرنے کی قوتیں ماں کے پیٹ سے لے کر پیدا ہوتا ہے۔ جدوجہد کے لیے اسے ایک وسیع میدان ملتا ہے اور زندگی کے بے شمار وسائل اس کا استقبال کرتے ہیں۔ مگر وہ اپنی معیشت کے لیے صرف اس کو کافی نہیں سمجھتا کہ اس کے لیے رزق کے دروازے کھلیں، بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ دوسروں کے لیے وہ بند ہوجائیں۔ اسی خودغرضی میں انسانوں کی کسی بڑی جماعت کے مشترک ہوجانے سے وہ وحدت پیدا ہوتی ہے جو انھیں ایک قوم بننے میں مدد دیتی ہے۔ بظاہر وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے معاشی اَغراض کا ایک حلقہ قائم کرکے اپنے حقوق و مفاد کا تحفظ کرلیا۔ لیکن جب اسی طرح بہت سی جماعتیں اپنے گرد اسی قسم کے حصار کھینچ لیتی ہیں تو انسان پر اس کے اپنے ہاتھوں سے عرصۂ حیات تنگ ہوجاتا ہے۔ اس کی اپنی خودغرضی اس کے لیے پائوں کی بیڑی اور ہاتھ کی ہتھکڑی بن جاتی ہے۔ دوسروں کے لیے رزق کے دروازے بند کرنے کی کوشش میں وہ خود اپنے رزق کی کنجیاں گم کردیتا ہے۔ آج ہماری آنکھوں کے سامنے یہ منظر موجود ہے کہ یورپ، امریکہ اور جاپان کی سلطنتیں اسی کا خمیازہ بھگت رہی ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان معاشی قلعوں کو کس طرح مسمار کریں جن کو انھوں نے خود ہی حفاظت کا بہترین وسیلہ سمجھ کر تعمیر کیا تھا۔ کیا اس کے بعد بھی ہم یہ نہ سمجھیں گے کہ کسب ِ معیشت کے لیے حلقوں کی تقسیم اور ان کی بناپر قومی امتیازات کا قیام ایک غیرعاقلانہ فعل ہے؟ خدا کی وسیع زمین پر انسان کو اپنے رب کا فضل تلاش کرنے کی آزادی دینے میں آخر کون سی قباحت ہے؟