آخری سوال یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک معاشی، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی نظام کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ جواب یہ ہے کہ بالکل ویسا ہی تعلق ہے جیسا جڑ سے تنے کا اور تنے سے شاخوں کا اور شاخوں سے پتوں کا ہوتا ہے۔ ایک ہی نظام ہے جو خداکی توحید اور رسولوں کی رسالت پر ایمان سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی سے اخلاقی نظام بنتا ہے۔اسی سے عبادات کا نظام بنتا ہے جس کو آپ مذہبی نظام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی سے معاشرتی نظام نکلتا ہے۔ اسی سے معاشی نظام نکلتا ہے۔ اسی سے سیاسی نظام نکلتا ہے ۔ یہ ساری چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کو خدا کی کتاب مانتے ہیں تو آپ کو لامحالہ وہی اخلاقی اصول اختیار کرنے پڑیں گے جو اسلام نے سکھائے ہیں اور وہی سیاسی اصول اختیار کرنے پڑیں گے جو اسلام نے آپ کو دیئے ہیں۔ اسی کے اصولوں پر آپ کو اپنی معاشرت کی تشکیل کرنی ہوگی اور اسی کے اصولوں پر اپنی معیشت کا سارا کاروبار چلانا ہوگا۔ جس عقیدے کی بنا پر آپ نماز پڑھتے ہیں اسی عقیدے کی بنا پر آپ کو تجارت کرنی پڑے گی۔ جس دین کا ضابطہ آپ کے روزے اور حج کو منضبط کرتا ہے اسی دین کے ضابطے کی پابندی آپ کو اپنی عدالت میں بھی کرنی ہو گی اور اپنی منڈی میں بھی۔ اسلام میں مذہبی نظام، سیاسی نظام، معاشی نظام اور معاشرتی نظام الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی نظام کے مختلف شعبے اور اجزا ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ بھی ہیں اور ایک دوسرے سے طاقت بھی حاصل کرتے ہیں۔ اگر توحید و رسالت اور آخرت کا عقیدہ موجود نہ ہو اور اس سے پیدا ہونے والے اخلاق موجود نہ ہوں تو اسلام کا معاشی نظام کبھی قائم نہیں ہوسکتا اور قائم کیا بھی جائے تو چل نہیں سکتا۔ اس طرح اسلام کا سیاسی نظام بھی نہ قائم ہوسکتا ہے نہ چل سکتا ہے۔ اگر خدا اور رسولؐ اور آخرت پر عقیدہ اور قرآن پر ایمان نہ ہو، کیونکہ اسلام جو سیاسی نظام دیتا ہے اس کی بنا ہی اس عقیدے پر رکھی گئی ہے کہ خدا حاکمِ اعلیٰ ہے، رسول اس کا نمائندہ ہے، قرآن اس کا واجب الاطاعت فرمان ہے اور ہم کو آخر کار اپنے اعمال کی جواب دہی خدا کے سامنے کرنی ہے۔ پس یہ خیال کرنا ہی سرے سے غلط ہے کہ اسلام میں کوئی سیاسی یا معاشی نظام مذہبی اور اخلاقی نظام سے الگ اور بے تعلق بھی ہوسکتا ہے۔ جو شخص اسلام کو جانتا ہو اور جان کر اسے مانتا ہو وہ کبھی اس بات کا تصور تک نہیں کرسکتا کہ مسلمان ہوتے ہوئے اس کی سیاست اور معیشت ، یا اس کی زندگی کا کوئی شعبہ اس کے مذہب سے جدا ہوسکتا ہے، یا سیاست و معیشت اور عدالت و قانون میں اسلام سے آزاد ہو کر، یا اسلام کے سوا کوئی دوسرا نظام اختیار کر کے، صرف ’’مذہبی‘‘ امور میں اس کی پیروی کرنے کا نام بھی اسلامی زندگی ہے۔