Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
پہلا خط
میراث کے متعلق قرآن و سنّت کے اصولی احکام
قائم مقامی کے اصول کی غلطی
ایک اور غلط تجویز
دوسرا خط
مصنف کا جواب

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مصنف کا جواب

(۱) مولانا آزاد مرحوم کے مطبوعہ مکتوب سے کسی نئے نظریۂ فکر کی نشان دہی نہیں ہوتی۔ ان کے خط میں پہلے تو یتیم پوتے کے محجوب الارث ہونے کے حق میں فقہا کی ایک دلیل نقل کی گئی ہے اور پھر اس دلیل کا ردّ کیے بغیر محض یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’فقہا کی نظر صرف ایک علّت کی طرف گئی ہے اور تمام علل و اصول جو اس باب میں ثابت و معلوم ہیں، نظرانداز کر دیے گئے ہیں۔‘‘ لیکن وہ تمام، علل و اصول جو مولانا کے نزدیک ’’ثابت و معلوم‘‘ تھے ان کی کچھ تفصیل انھوں نے بیان نہیں فرمائی۔ اس لیے نہ تو یہی معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ علل و اصول کیا تھے جنھیں نظرانداز کر دیا گیا ہے اور نہ یہی پتہ چل سکتا ہے کہ وہ علل و اصول فی الواقع ثابت و معلوم ہیں بھی یا نہیں۔
(۲) آپ نے مولاناؒ کے مکتوب کی کس عبارت سے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ لڑکا باپ کے گھر پیدا ہونے سے مالک ورثہ قرار پاتا ہے، البتہ قابض ترکہ باپ کے مرنے کے بعد ہو گا؟‘‘ اس مطلب کا تو کوئی اشارہ تک مجھے اس خط میں نظر نہیں آیا۔ درحقیقت یہ خیال قرآن کے بالکل خلاف ہے جیسا کہ میں اپنے اس مضمون میں بیان کر چکا ہوں جو نوائے وقت میں آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے۔ قرآن کی رُو سے کوئی حق وراثت مورث کی زندگی میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ مورث کی موت کے ساتھ یہ حق صرف ان رشتہ داروں کے لیے ثابت ہوتا ہے جو اس وقت زندہ موجود ہوں۔ آپ جس نظریے کا ذکر کررہے ہیں وہ تو دراصل اس ہندوانہ رواجی قانون میں پایا جاتا ہے جو مدتوں تک یہاں مسلمانوں میں بھی رائج رہا ہے۔ ہندوئوں کے ہاں تصوّر یہ ہے کہ موروثی جائداد دراصل خاندان یا پوری نسل کی مشترک ملکیت ہے۔ خاندان کے افراد یکے بعد دیگرے جائداد کے محدود مالک بنتے ہیں اور ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ جائداد کو بجنسہٖ ایک سے دوسرے کی جانب منتقل کرتے چلے جائیں۔ ان کے ہاں گویا تمام موجود اور آیندہ نسل بیک وقت شریک ورثہ ہے۔ اسی اصول کے تحت رواجی قانون میں لڑکوں کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ اگر ان کا باپ جدّی جائداد کو تلف کرنے یا کسی اجنبی کی جانب منتقل کرنے کی کوشش کرے تو وہ ’’وارثانِ باز گشت‘‘ کی حیثیت سے استقرار حق کا دعویٰ دائر کرکے باپ کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام میں نہ تو موروثی اور غیر موروثی جائداد کے درمیان کوئی امتیاز قائم کیا گیا ہے اور نہ مالک کے اختیارات مشروط و محدود ہی رکھے گئے ہیں۔ ازروے اسلام ایک مالک اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک ِکامل ہے خواہ اس نے وہ جائداد خود پیدا کی ہو یا آبائو اجداد سے وراثت میں لی ہو اور وہ حینِ حیات اس میں بیع، ہبہ، وصیت، وقف، ہر طرح کے تصرف کے جملہ اختیارات رکھتا ہے۔
(۳) بے شک اسلامی قانون میں اس کی گنجایش موجود ہے کہ صاحب ِجائداد کے فاتر العقل یا سفِیہ ہونے کی صورت میں قاضی جائداد کو اپنی تحویل میں لے لے۔ لیکن اس معاملے میں بھی نہ تو جدّی جائداد کی کوئی تمیز روا رکھی گئی ہے اور نہ یہی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ صاحب جائداد کی اولاد یا کوئی دوسرا متوقع وارث ہی عدالت میں استغاثہ دائر کرے۔ بلکہ اس معاملے سے تعلق رکھنے والا ہر شخص عدالت کو متوجہ کر سکتا ہے۔ قانونِ اسلامی میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہو کہ کوئی شخص وراثت میں حق دار ہونے کی وجہ سے زندہ مالک ِ جائداد کے خلاف شکایت کا خصوصی استحقاق رکھتا ہے۔ اسلامی قانون کی اس شق کا مقصد کسی وارث کے ورثے کو محفوظ کرنا نہیں بلکہ اسراف و تبذیر اور ضیاع اموال کو روکنا ہے اور اس کا ماخذ آیت لَا تُؤْتُو السُّفَہَآئَ اَمْوَالَکُمْ ہے۔ اس قانون کی رو سے ایسے مالک کے تصرفات پر بھی پابندی عائد کی جا سکتی ہے جس کا سرے سے کوئی متوقع وارث موجود ہی نہ ہو۔
جو لوگ پوتے کی وراثت کے معاملے میں بہت زیادہ مضطرب ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ آخر کوئی اصول تو متعیّن کریں جس کی بنا پر بیٹوں کی موجودگی میں پوتے کو وراثت دی جا سکے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پوتا اولاد ہونے کی حیثیت سے بجائے خود میراث کا حق رکھتا ہے اور وہ اپنے دادا کی اسی معنی میں اولاد ہے جس معنی میں بیٹا باپ کی اولاد ہے تو پھر جس پوتے کا باپ زندہ ہو اسے بھی اپنے باپ سمیت اپنے دادا کے تمام بیٹوں کے ساتھ برابر حق وراثت میں شریک ہونا چاہیے مثلاً اگر ایک شخص کے چار بیٹے ہیں اور آٹھ پوتے ہیں تو وراثت چار کے بجائے بارہ برابر حصّوں میں تقسیم ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہے اور کوئی اس کا قائل نہیں ہے تو پھر محض یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ والی آیت کو پوتے کے حق وراثت میں پیش کرنا یا عربی اشعار کی مدد سے پوتے کو بمنزلہ اولاد قرار دے کر اسے دادا کا وارث بنانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ پوتا اپنے باپ کی زندگی میں نہیں بلکہ اپنے باپ کے مرنے کی صورت میں چچائوں کے ساتھ دادا کی وراثت کا حق دار ہوتا ہے۔ تو اوّل تو قرآن میں اس کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے لیکن تھوڑی دیر کے لیے دلیل کے سوال کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی ولدیت کی بنا پر زندہ بیٹوں کے ساتھ یتیم پوتے کو حق دار قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ اسے بیٹوں کے ساتھ مساوی حصّہ ملے۔ مثلاً ایک شخص کے اگر تین بیٹے زندہ ہیں اور ایک بیٹا چار لڑکے چھوڑ کر مرا ہے تو اس شخص کی جائداد سات برابر حصّوں میں تقسیم ہونی چاہیے۔ لیکن اگر اس بات کا بھی کوئی قائل نہیں ہے تو پھر پوتے کی وراثت لا محالہ اس بنیاد پر ہو گی کہ اس کا وفات یافتہ باپ اپنے باپ کی زندگی میں ورثے کا حق دار ہو چکا تھا اور اب یہ یتیم پوتا اپنے دادا کی نہیں بلکہ اپنے باپ کی میراث پا رہا ہے۔ اب اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ باپ کی زندگی میں مر جانے والے لڑکے کا حق باقی رہتا ہے تو پھر یہ صرف صاحب ِاولاد لڑکے کی حد تک محدود نہیں رہ سکتا بلکہ جو بیٹے لاولد مر گئے ہوں یا کمسنی اور شیر خوارگی کی حالت میں مر گئے ہوں، ان کا حق بھی باقی رہنا چاہیے اور ان کے شرعی وارثوں (مثلاً ان کی بیوی، ماں، یا ماں کی عدم موجودگی میں بہن بھائیوں) کو لازماً ملنا چاہیے۔ صرف صاحب ِاولاد لڑکے کی اولاد تک اس قاعدے کو محدود رکھنے کے لیے کوئی شرعی یا عقلی دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔ بعض لوگ مرے ہوئے بیٹے کی محض اولاد تک ورثے کو محدود رکھنے کے لیے نسبی و غیر نسبی یا خونی و غیر خونی رشتہ داروں کی تمیز قائم کرتے ہیں حالانکہ اوّل تو اس تمیز کی بنا پر بعض حق داروں کو محروم کرنا خلافِ قرآن اور خالص ہندوانہ ذہنیت ہے۔ اور دوسرے یہ بات قطعی ناقابلِ فہم بلکہ لغو ہے کہ نسبی رشتہ داروں کی صف میں صرف اولاد کو شامل کیا جائے اور والدہ اور بھائی بہنوں کو خارج کر دیا جائے۔
(ترجمان القرآن۔ جنوری ۱۹۵۹ء)

شیئر کریں