Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مسلکِ اعتدال

کسی مسلمان کو اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کہ امورِ دین میں نبی صلی اللہ عیہ وسلم کا قول و عمل واجب الاتباع ہے اور قرآن کے بعدجس چیز کے ذریعے سے ہم کو اپنے دین کا علم حاصل ہوتا ہے وہ حضوؐر کا طریقہ ہی ہے۔ اس کے بعد سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ طریق نبوی کے علم کی کیا کیا صورتیں ہیں اور کس صورت کا دین میں کیا مرتبہ ہے۔
جو باتیں حضورؐ سے ہم تک پہنچی ہیں ان کو دو حصوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ حصہ ہے جو تواتر کے ساتھ آیا ہے، خواہ وہ تواتر عملی ہو یا خبری، دوسرا حصہ وہ ہے جو تواتر کے ساتھ نہیں آیا۔ ان میں سے پہلے حصے کے متعلق تمام امت کا اتفاق ہے کہ وہ یقینی ہے اور عقل بھی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اسے ثابت شدہ حقیقت تسلیم کرنا چاہیے، کیونکہ تواتر کا مفید یقین ہونا مسلمات میں سے ہے۔ رہا دوسرا حصہ تو اصولاً اس کو سب ظنی مانتے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ وہ مفید علم ضروری ہے۔ مگر اختلاف جو کچھ واقع ہوتا ہے وہ اس امر میں ہے کہ اس اصولی ظنیت کی بنا پر اخبار احاد کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ اس مسئلے میں تین مختلف مسلک ہیں۔
ایک گروہ کہتا ہے کہ احادیث کا تمام مجموعہ ظنی ہے، اس لیے وہ من حیث الکل رد کر دینے کے لائق ہے، کیونکہ جو چیز ظنی ہے وہ ثابت شدہ نہیں اور جو ثابت شدہ نہیں وہ لائق اتباع نہیں۔ مگر تھوڑے سے غور و خوض کے بعد اس مسلک کی غلطی واضح ہو جاتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کوئی مظنون چیز ثابت شدہ نہیں ہوتی لیکن کسی چیز کا ثابت شدہ نہ ہونا یہ معنی کب رکھتا ہے کہ وہ ردہی کر دینے کے قابل ہو؟ اگر اتباع کے لیے یقینی ہونا شرط ہے تو فرمائیے کہ ’’یقینیات‘‘ دنیا میں ہیں کتنے؟ آپ کی زندگی کے کتنے معاملات ایسے ہیں جن میں آپ صرف یقینیات کی پیروی کرتے ہیں اور مظنونات کو من حیث الکل رد کر دیتے ہیں؟ تجزیہ و تحلیل کے چند ہی مدارج طے کرکے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ قاعدہ زندگی میں نہ کبھی چلا ہے نہ چل سکتا ہے۔ مظنونات کو من حیث الکل قبول کرلینا جس درجے کی غلطی ہے، اسی درجے کی غلطی ان کو من حیث الکل رد کر دینا بھی ہے۔ عقل سلیم کا اقتضا یہ ہے اور اس کی پیروی زندگی کے تمام معاملات میں انسان کرتا ہے کہ تمام مظنونات کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے بلکہ ان کے درمیان تمیز کی جائے۔ ان میں سے ہر ایک کو جدا جدا جانچ کر دیکھا جائے اور تحقیق کے مختلف ذرائع سے کام لے کر یہ دریافت کیا جائے کہ کون سی چیز یقین سے کس درجہ قریب یا کس درجہ بعید ہے۔ جو چیز بعید ہو اُسے رد کر دو۔ جو چیز قرب و بُعد کے درمیان ہو اس میں توقف کرو۔ اور جو چیز قریب یا اقرب ہو اس کو بلحاظ اس درجہ کے قبول کرلو۔ یہی اصول ہے جس پر دنیا کے سارے معاملات میں عمل کیا جاتا ہے۔ اور چونکہ ہمارا دین غیر معقول نہیں ہے اس لیے اسی کی پیروی دین کے معاملات میں بھی کرنی چاہیے۔ کم از کم ہمیں تو قرآن میں کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ملی جو اس اصول کو خلاف حق قرار دیتی ہو۔ جن آیات میں ظن پر چلنے والوں کی برائی وارد ہوتی ہے ان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ظن کوئی گناہ ہے یا اس سے بالکلیہ اجتناب واجب ہے، بلکہ اس کا منشا صرف یہ ہے کہ جو ظن و تخمین وحی کے خلاف ہو، یا جس کو وحی سے بے نیاز اور بے پروا ہو کر اختیار کیا جائے، وہ گمراہی کا سبب ہے۔
احادیث کو بالکلیہ رد کر دینے سے عملاً جو خرابی واقع ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جزئیات میں انسان رسالت کی رہنمائی سے محروم ہو جاتا ہے، اور دین پر عمل کرنے کی تفصیلی صورتوں میں قیاس و رائے کا دخل اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس سے اصولی احکام کی اصل اسپرٹ کے بھی ضائع ہو جانے کا خوف ہے۔ نیز اس میں یہ بھی خطرہ ہے کہ جب تفصیلات میں سرے سے کوئی سند ہی نہ ہوگی تو لامحالہ انفرادیت راہ پائے گی۔ ہر شخص اپنی رائے اور اپنے رجحان کے مطابق جو صورت چاہے گا اختیار کرے گا۔ اور کوئی قوت ایسی باقی نہ رہے گی جو تفرقہ و انتشار اور اختلاف عمل کو انفرادیت کی آخری حدود تک پہنچنے سے روک سکتی ہو۔ مثال کے طور پر ایک نماز جمعہ ہی کو لیجیے۔ ہمارے پاس علم یقین کے جو ذرائع ہیں ان میں سے پہلا اور سب سے بڑا ذریعہ یعنی قرآن ہم کو صرف یہ ہدایت دیتا ہے کہ ’’جب نماز جمعہ کے لیے بلایا جائے تو سب کام چھوڑ کر دوڑ پڑو۔‘‘ دوسرا ذریعہ یعنی عمل متواتر ہم کو اس سے تھوڑی دُور آگے لے جاکر چھوڑ دیتا ہے۔ وہ صرف اتنا علم ہم کو دیتا ہے کہ جمعہ کا وقت ظہر کا وقت ہے، اس کے لیے جماعت شرط ہے، اس سے پہلے خطبہ ہونا چاہیے، اس کی رکعتیں دو ہیں اور اس کے لیے اذن عام ضروری ہے۔ ان امور کے بعد جتنے عملی جزئیات ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی قرآن یا عمل متواتر سے ہم کو معلوم نہیں ہوتی۔ اب اگر اخبار احاد کو بہ حیثیت مجموعی رد کر دینے کا اصول اختیار کیا جائے، تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر شخص جزئیات کو اپنی رائے سے مقرر کرے گا، اور کسی رائے کو بھی کوئی ایسی قوت حاصل نہ ہوگی جس کی بنا پر اسے دوسری رائے کے مقابلے میں ترجیح دی جاسکے اور مسلمانوں کی کسی بڑی جماعت پر اس کی پیروی لازم ہو جائے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس سے جزئیات میں کتنی افراتفری برپا ہوگی، نظام جماعت کو کتنا نقصان پہنچے گا اورکس طرح بعض صورتوں میں مقاصد شریعت تک فوت ہو جائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ اخبار احاد سے جو تفصیلات معلوم ہوئی ہیں وہ بھی کچھ نہ کچھ مختلف ہیں اور ان کی بنا پر بھی متعدد مذہب نکلتے ہیں۔ مگر اول تو ان میں بمشکل پانچ سات مذاہب نکلنے کی گنجائش ہے اور پھر ان سے جتنے مذہب بھی نکلتے ہیں ان میں سے ہر ایک کو اسی ایک بالاتر اقتدار کی سند حاصل ہے جس کو سب مسلمان تسلیم کرتے ہیں اور جس کی قوت سے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اس کا اتباع کرتی ہے۔ بخلاف اس کے اخبار احاد کو بالکلیہ رد کر دینے کے بعد بے شمار مذاہب کی گنجائش نکل آتی ہے اور ان میں سے کسی مذہب کو بھی کوئی ایسی سند حاصل نہیں ہوتی جو زیادہ نہیں دو ہی مسلمانوں کو ایک جزئیہ میں ایک طریقے پر جمع کر دے۔ نتیجہ اس کا بالکل ظاہر ہے۔ جمعہ کی قوتِ جامعہ ختم ہو کر رہ جائے گی، اختلاف عمل اس مقصد ہی کا خاتمہ کر دے گا۔ جس کے لیے اقامت جمعہ فرض کی گئی ہے۔
جمعہ کو ہم نے صرف مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ ورنہ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام کے نظامِ شرعی کو جو چیز ایک مستقل عملی نظام بناتی ہے اور جو چیز مسلمانوں کی تہذیب، تمدن، معاشرت، معیشت، سیاست غرض ان کی پوری اجتماعی زندگی اور انفرادی برتائو کو ایک مستقل تفصیلی شکل میں ڈھالتی ہے وہ وہی علم ہے جو ہم کو اخبار احاد سے حاصل ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پبلک اور پرائیویٹ زندگی، آپ کے اخلاق، آپ کی عادات، آپ کا طریق عبادت، آپ کا طرز تعلیم و تبلیغ، آپ کا طرز عدالت، آپ کے قانونی فیصلے، زندگی کے مختلف شعبوں میں آپ کی ہدایات اور آپ کا طرز عمل، پھر آپ کے خلفاء اور صحابہ اور اہل بیت اور تابعین کے آثار یہی وہ چیزیں ہیں جو اسلام کی عملی زندگی کا پورا نقشہ پیش کرتی ہیں، اور اسی نقشے پر اسلام ایک مکمل نظام حیات بنتا ہے۔ مگر ان چیزوں کے حصول کا ذریعہ نہ قرآن ہے نہ تواتر۔ صرف اخبار احاد ہی ہیںجو ہم تک معلومات اور ہدایات کا یہ عظیم الشان ذخیرہ پہنچاتی ہیں۔ ان کو مٹا دیجیے۔ پھر اسلام محض ایک ڈھانچہ رہ جائے گا جس پر گوشت پوست کچھ نہ ہوگا، جس کی شکل اور جس کے خد و خال کو جو شخص جس طرح چاہے گا بنائے گا۔ اس صورت میں درحقیقت کوئی ایک نظام جماعت قائم ہی نہ ہوسکے گا، کجا کہ کوئی ایسی تہذیب وجود میں آسکے جو اسلامی تہذیب ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کی مخالفت آج وہی لوگ کر رہے ہیں جو دراصل اسلامی تہذیب کے نظام کو توڑنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کے تعینات کی حدود میں اپنی اہواء اور خواہشات کی پیروی کے لیے کوئی گنجائش نہیں پاتے، اس لیے انھوں نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ اس چیز کو ہی مٹا دو جو اس نظام کی حد بندی کرتی ہے، پھر ہم آزاد ہو جائیں گے کہ اسلام کے ڈھانچے پر جس طرح چاہیں گوشت پوشت چڑھائیں اور جیسی چاہیں اس کی شکل بنا دیں۔
یہ لوگ احادیث کو مجموعی حیثیت سے مردود قرار دینے کے لیے ان حدیثوں کو مثال میں پیش کرتے ہیں جو باہم متعارض ہیں، یا جن میں انبیاء علیہم السلام پر طعن پایا جاتا ہے، یا جو صریح عقل کے خلاف ہیں۔ یا قرآن کے خلاف نظر آتی ہیں۔ ان چند افراد سے یہ لوگ پورے مجموعہ کے غلط اور قابل ِ رد ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ مگر یہ استدلال ایسا ہی ہے جیسے کسی قوم کے چند افراد کی بد معاشی سے پوری قوم کی بدمعاشی پر استدلال کیا جائے۔ جب ہر روایت بلحاظ متن اور بلحاظ اسناد دوسری روایت سے مختلف ہے تو ہر روایت کے متعلق جدا جدا تحقیق کرکے رائے قائم کرنی چاہیے کہ وہ قبول کرنے کے لائق ہے یارد کر دینے کے لائق۔ سب کو ایک مجموعہ کی حیثیت سے لے کر پورے مجموعے کے متعلق ایک ہی رائے قائم کر لینا کسی معقول انسان کا فعل نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ لوگ احادیث پر فرداً فرداً نگاہ ڈالیں گے تو ان کو معلوم ہوگا کہ جہاں ایک قلیل تعداد ایسی حدیثوں کی ہے جنھیں دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ یہ حدیثیں رسول اللہ کی نہیں ہوسکتیں، وہاں ایک کثیر تعداد ایسی حدیثوں کی بھی ہے جو حکمت کے جواہر سے لبریز ہیں، جن میں قانون اور اخلاق کے بہترین اصول پائے جاتے ہیں، جو اسلام کی حقیقت اور اس کے مصالح و حکم پر بہترین روشنی ڈالتی ہیں اور جن کو دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ یہ ایک رسول ہی کی حدیثیں ہوسکتی ہیں۔ پھر اگر یہ لوگ حق پرست اور انصاف پسند ہوں تو انھیں نظر آئے کہ محدثین ِ کرام نے عہد ِرسالت اور عہد ِ صحابہ کے آثار و اخبار جمع کرنے اور ان کو چھانٹنے اور ان کی حفاظت کرنے میں وہ محنتیں کی ہیں جو دنیا کے کسی گروہ نے کسی دور کے حالات کے لیے نہیں کیں۔ انھوں نے احادیث کی تنقید و تنقیح کے لیے جو طریقے اختیار کیے وہ ایسے ہیں کہ کسی دورِ گذشتہ کے حالات کی تحقیق کے ان سے بہتر طریقے عقل انسانی نے آج تک دریافت نہیں کیے۔ تحقیق کے زیادہ سے زیادہ معتبر ذرائع جو انسان کے امکان میں ہیں وہ سب اس گروہ نے استعمال کیے ہیں اور ایسی سختی کے ساتھ استعمال کیے ہیں کہ کسی دورِ تاریخ میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ درحقیقت یہی چیز اس امر کا یقین دلاتی ہے کہ اس عظیم الشان خدمت میں اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق شامل حال رہی ہے، اور جس خدا نے اپنی آخری کتاب کی حفاظت کا غیر معمولی انتظام کیا ہے اسی نے اپنے آخری نبی کے نقوش قدم اور آثار ہدایت کی حفاظت کے لیے بھی وہ انتظام کیا ہے جو اپنی نظیر آپ ہی ہے۔
یہ تو اس گروہ کے متعلق تھا جو احادیث کی اصولی ظنیت کی بنا پر انھیں بالکلیہ رد کر دینا چاہتا ہے۔ اب دوسرے گروہ کو لیجیے جو دوسری انتہا کی طرف چلا گیا ہے۔ یہ لوگ محدثین کے اتباع میں جائز حد سے بہت زیادہ تشدد اختیار کرتے ہیں۔ ان کا قول یہ ہے کہ محدثین کرام نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرکے رکھ دیا ہے، ایک ایک حدیث کو چھانٹ کر وہ بتا چکے ہیں کہ کون کس حد تک قابل ِ اعتبار ہے اور کون کس حد تک ناقابل ِاعتبار۔ اب ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ان بزرگوں نے احادیث کے جو درجے مقرر کر دیئے ہیں انھی کے مطابق ہم ان کو اعتبار اور حجیت کا مرتبہ دیں۔ مثلاً جو قوی الاسناد ہے اس کے مقابلے میں ضعیف الاسناد کو چھوڑ دیں جسے وہ صحیح قرار دے گئے ہیں اسے صحیح تسلیم کریں اور جس کی صحت میں وہ قدح کر گئے ہیں اس سے بالکل استناد نہ کریں۔ ان کے معروف کو معروف اور ان کے منکر کو منکر مانیں۔ رواۃ کے عدل اور ضبط اورثقاہت کے متعلق جن جن آراء کا وہ اظہار کر گئے ہیں ان پر گویا ایمان لے آئیں۔ ان کی نگاہ میں احادیث کے معتبر یا غیر معتبر ہونے کا جو معیار ہے، ٹھیک اسی معیار کی ہم بھی پابندی کریں۔ مثلاً مشہور کو شاذ پر، مرفوع کو مرسل پر، مسلسل کو منقطع پر لازماً ترجیح دیں اور ان کی کھینچی ہوئی حد سے یک سرِ مو تجاوز نہ کریں۔ یہی وہ مسلک ہے جس کی شدت نے بہت سے کم علم لوگوں کو حدیث کی کلی مخالفت یعنی دوسری انتہا کی طرف دھکیل دیا ہے۔
محدثین رحمہم اللہ کی خدمات مسلّم۔ یہ بھی مسلم کہ نقد ِ حدیث کے لیے جو مواد انھوں نے فراہم کیا ہے وہ صدر اول کے اخبار و آثار کی تحقیق میں بہت کارآمد ہے۔ کلام اس میں نہیں بلکہ صرف اس امر میں ہے کہ کلیتاً ان پر اعتماد کرنا کہاں تک درست ہے۔ وہ بہرحال تھے تو انسان ہی۔ انسانی علم کے لیے جو حدیں فطرۃً اللہ نے مقرر کر رکھی ہیں ان سے آگے تو وہ نہیں جاسکتے تھے۔ انسانی کاموں میں جو نقص فطری طور پر رہ جاتا ہے اس سے تو ان کے کام محفوظ نہ تھے۔ پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جس کو وہ صحیح قرار دیتے ہیں وہ حقیقت میں بھی صحیح ہے؟ صحت کا کامل یقین تو خود ان کو بھی نہ تھا۔ وہ بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہتے تھے کہ اس حدیث کی صحت کا ظن غالب ہے۔ مزید برآں یہ ظن غالب ان کو جس بنا پر حاصل ہوتا تھا وہ بلحاظ روایت تھا نہ کہ بلحاظ درایت۔ ان کا نقطۂ نظر زیادہ تر اخباری ہوتا تھا۔ فقہ ان کا اصل موضوع نہ تھا، اس لیے فقیہانہ نقطۂ نظر سے احادیث کے متعلق رائے قائم کرنے میں وہ فقہائے مجتہدین کی بہ نسبت کمزور تھے۔ پس ان کے کمالات کا جائز اعتراف کرتے ہوئے یہ ماننا پڑے گا کہ احادیث کے متعلق جو کچھ بھی تحقیقات انھوں نے کی ہے اس میں دو طرح کی کمزوریاں موجود ہیں۔ ایک بلحاظ اسناد اور دوسرے بلحاظ تفقُّہ۔
اس مطلب کی توضیح کے لیے ہم ان دونوں حیثیتوں کے نقائص پر تھوڑا سا کلام کریں گے۔
کسی روایت کے جانچنے میں سب سے پہلے جس چیز کی تحقیق کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ روایت جن لوگوں کے واسطے سے آتی ہے وہ کیسے لوگ ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد حیثیات سے ایک ایک راوی کی جانچ کی جاتی ہے۔ وہ جھوٹا تو نہیں؟ روایتیں بیان کرنے میں غیر محتاط تو نہیں؟ فاسق اور بد عقیدہ تو نہیں؟ وہمی یا ضعیف الحفظ تو نہیں؟ مجہول الحال ہے یا معروف الحال؟ ان تمام حیثیات سے رواۃ کے احوال کی جانچ پڑتال کرکے محدثین کرام نے اسماء الرجال کا عظیم الشان ذخیرہ فراہم کیا جو بلاشبہ نہایت بیش قیمت ہے۔ مگر ان میں کون سی چیز ہے جس میں غلطی کا احتمال نہ ہو؟ اول تورواۃ کی سیرت اور ان کے حافظے اور ان کی دوسری باطنی خصوصیات کے متعلق بالکل صحیح علم حاصل ہونا مشکل، دوسرے خود وہ لوگ جو ان کے متعلق رائے قائم کرنے والے تھے، انسانی کمزوریوں سے مبرا نہ تھے۔ نفس ہر ایک کے ساتھ لگا ہوا تھا، اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ اشخاص کے متعلق اچھی یا بُری رائے قائم کرنے میں ان کے ذاتی رجحانات کا بھی کسی حد تک دخل ہو جائے۔ یہ امکان محض امکانِ عقلی نہیں ہے بلکہ اس امر کا ثبوت موجود ہے کہ بارہا یہ امکان فعل میں آگیا ہے۔ حماد جیسے بزرگ تمام علمائے حجاز کے متعلق رائے ظاہر کرتے ہیں کہ ’’ان کے پاس علم نہیں، تمھارے بچے بھی ان سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔‘‘ عطا اور طائوس اور مجاہد جیسے فضلاء کے حق میں ان کی یہی رائے ہے۔ یہ حماد کون ہیں؟ امام ابو حنیفہ کے استاد اور ابراہیم النحغی کے جانشین۔ امام زہری کو دیکھیے۔ اپنے زمانے کے اہل مکہ پر ریمارک کرتے ہیں مَا رَأیْتُ اَنْقَضَ لِعُرَی الْاِسْلَامِ مِنْ اَھْلِ مَکَّۃَ حالانکہ مکہ اس وقت جلیل القدر علما و صلحا سے خالی نہ تھا۔ شعبی اور ابراہیم النحغی دونوں بڑے درجے کے لوگ ہیں۔ مگر ایک دوسرے پر کس طرح چوٹ کرتے ہیں۔ شعبی کہتے ہیں کہ ’’ابراہیم النحغی رات کو ہم سے مسائل پوچھتا ہے اور صبح لوگوں کے سامنے اپنی طرف سے بیان کرتا ہے‘‘۔ ابراہیم النحغی کہتے ہیں کہ ’’وہ کذاب مسروق سے روایت کرتا ہے حالانکہ وہ مسروق سے ملا تک نہیں‘‘۔ ضحاک کو دیکھیے۔ ایک مرتبہ اپنی بات کی پچ میں آکر صحابہ کرام کے متعلق کہہ گئے کہ ’’ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں۔‘‘ سعید بن جبیر جیسے محتاط بزرگ ایک مسئلے میں شعبی پر جھوٹ کا الزام رکھتے ہیں اور عکرمہ کے حق میں اپنے غلام سے کہتے ہیں کہ لَا تَکْذِبْ عَلَیَّ کَمَا کَذَبَ عِکْرَمَۃُ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ۔ امام مالک کی جلالت شان دیکھیے اور محمد بن اسحاق جیسے شخص کے حق میں ان کا یہ فرمانا دیکھیے کہ ذَالِکَ دَجَّالُ الدَّ جَاجِلَۃِ۔ اس سے بڑھ کر عجیب یہ کہ تمام علمائے عراق پر سخت طعن کرتے ہیں اور ان کے حق میں فرماتے ہیں کہ اَنْزِلُوْھُمْ مَنْزِلَۃَ اَھْلِ الْکِتَابِ لَا تُصَدِّ قُوْھُمْ ولَا تُکَذِّبُوھُمْ۔ امام ابو حنیفہ کس قدر جلیل القدر اور محتاط فقیہ ہیں، اعمش کے حق میں فرماتے ہیں کہ اس نے کبھی نہ رمضان کا روزہ رکھا نہ غسل جنابت کیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اَعمش اَلْمَائُ مِنَ الْمَائِ کے قائل تھے اور حذیفہ کی حدیث کے مطابق سحری کیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن مبارک کس پائے کے ثقہ بزرگ ہیں، ایک مرتبہ ان پر بھی ضد نے غلبہ کیا اور امام مالک کے حق میں ان کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ ’’میں اس کو عالم نہیں سمجھتا۔‘‘ یحییٰ بن معین نے تو بڑے بڑے ثقات پر چوٹیں کی ہیں۔ زہری، اوزاعی، ابو عثمان النہدی، طائوس غرض اس عہد کے بڑے بڑے لوگوں پر وہ طعن کر گئے ہیں۔حتیٰ کہ امام شافعی تک کے حق میں انھوں نے کہا کہ لَیْسَ بِثِقَۃٍ۔ ان سب سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ بسا اوقات صحابہ رضی اللہ عنہم پر بھی بشری کمزوریوں کا غلبہ ہو جاتاتھا اور وہ ایک دوسرے پر چوٹیں کر جاتے تھے۔ ابن عمرؓ نے سنا کہ ابوہریرہؓ وتر کو ضروری نہیں سمجھتے۔ فرمانے لگے کہ ابوہریرہؓ جھوٹے ہیں۔ حضرت عائشہ نے ایک موقع پر انس اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما کے متعلق فرمایا کہ وہ حدیث رسول اللہ کو کیا جانیں، وہ تو اس زمانے میں بچے تھے۔ حضرت حسن بن علی سے ایک مرتبہ شَاھِدٍ وَّ مَشْھُوْدٍ کے معنی پوچھے گئے۔ انھوں نے اس کی تفسیر بیان کی۔ عرض کیا گیا کہ ابن عمرؓ اور ابن زبیرؓ تو ایسا اور ایسا کہتے ہیں۔ فرمایا دونوں جھوٹے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر مغیرہ بن شعبہ کو جھوٹا قرار دیا۔ عبادہ بن صامت نے ایک مسئلہ بیان کرتے ہوئے مسعود بن اوس انصاری پر جھوٹ کا الزام لگا دیا، حالانکہ وہ بدری صحابہ میں سے ہیں۔ ۱؎
اس قسم کی مثالیں پیش کرنے سے ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ اسماء الرجال کا سارا علم غلط ہے۔ بلکہ ہمارا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ جن حضرات نے رجال کی جرح و تعدیل کی ہے وہ بھی تو آخر انسان تھے۔ بشری کمزوریاں ان کے ساتھ بھی لگی ہوئی تھیں۔ کیا ضرور ہے کہ جس کو انھوں نے ثقہ قرار دیا ہو وہ بالیقین ثقہ اور تمام روایتوں میں ثقہ ہو، اور جس کو انھوں نے غیر ثقہ ٹھیرایا ہو وہ بالیقین غیر ثقہ ہو اور اس کی تمام روایتیں پایۂ اعتبار سے ساقط ہوں۔ پھر ایک ایک راوی کے حافظے اور اس کی نیک نیتی اور صحت ضبط وغیرہ کا حال بالکل صحیح معلوم کرنا تو اور بھی مشکل ہے، اور ان سب سے زیادہ مشکل یہ تحقیق کرنا ہے کہ ہر راوی نے ہر روایت کے بیان میں ان تمام جزئیات متعلقہ کو ملحوظ بھی رکھا ہے یا نہیں جو فقیہانہ نقطۂ نظر سے استنباطِ مسائل میں اہمیت رکھتی ہیں۔
یہ تو فنِ رجال کا معاملہ ہے۔ اس کے بعد دوسری اہم چیز سلسلۂ اسناد ہے۔ محدثین نے ایک ایک حدیث کے متعلق یہ تحقیق کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر راوی جس شخص سے روایت لیتا ہے آیا وہ اس کا ہم عصر تھا یا نہیں، ہم عصر تھا تو اس سے ملا بھی تھا یا نہیں، اور ملا تھا تو آیا اس نے یہ خاص حدیث خود اسی سے سنی یا کسی اور سے سن لی اور اس کا حوالہ نہیں دیا۔ ان سب چیزوں کی تحقیق انھوں نے اسی حد تک کی ہے جس حد تک انسان کرسکتے تھے، مگر لازم نہیں کہ ہر روایت کی تحقیق میں یہ سب امور ان کو ٹھیک ٹھیک ہی معلوم ہوگئے ہوں۔ بہت ممکن ہے کہ جس روایت کو وہ متصل السند قرار دے رہے ہیں وہ درحقیقت منقطع ہو اور انھیں یہ معلوم نہ ہوسکا ہو کہ بیچ میں کوئی ایسا مجہول الحال راوی چھوٹ گیا ہے جو ثقہ نہ تھا۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ جو روایتیں مرسل یا معضل یا منقطع ہیں، اور اس بنا پر پایۂ اعتبار سے گری ہوئی سمجھی جاتی ہیں، ان میں سے بعض ثقہ راویوں سے آئی ہوں اور بالکل صحیح ہوں۔
یہ اور ایسے ہی بہت سے امور ہیں جن کی بنا پر اسناد اور جرح و تعدیل کے علم کو کلیتاًصحیح نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ مواد اس حد تک قابل ِ اعتماد ضرور ہے کہ سنت ِ نبوی اور آثار صحابہ کی تحقیق میں اس سے مدد لی جائے اور اس کا مناسب لحاظ کیا جائے، مگر اس قابل نہیں ہے کہ بالکل اسی پر اعتماد کرلیا جائے۔
جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا، محدثین رحمہم اللہ کا خاص موضوع اخبار و آثار کی تحقیق بلحاظ روایت کرنا تھا۔ اس لیے ان پر اخباری نقطۂ نظر غالب ہو گیا تھا، اور وہ روایت کو معتبر یا غیر معتبر قرار دینے میں زیادہ تر صرف اسی چیز کا لحاظ فرماتے تھے کہ اسناد اور رجال کے لحاظ سے وہ کیسی ہیں، رہا فقیہانہ نقطۂ نظر (یعنی متن حدیث پر غور کرکے یہ رائے قائم کرنا کہ وہ قابل قبول ہے یا نہیں) تو وہ ان کے موضوع خاص سے ایک حد تک غیرمتعلق تھا اس لیے اکثر وہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا تھا اور وہ روایات پر اس حیثیت سے کم ہی نگاہ ڈالتے تھے۔ اسی وجہ سے اکثر ہوا ہے کہ ایک روایت کو انھوں نے صحیح قرار دیا ہے، حالانکہ معنی کے اعتبار سے وہ زیادہ اعتبار کے قابل نہیں ہے۔ اور ایک دوسری روایت کو وہ قلیل الاعتبار قرار دے گئے ہیں، حالانکہ معناً وہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ یہاں اس کا موقع نہیں کہ مثالیں دے کر تفصیل کے ساتھ اس پہلو کی توضیح کی جائے۔ مگر جو لوگ امور شریعت میں نظر رکھتے ہیں ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ محدثانہ نقطۂ نظر بکثرت مواقع پر فقیہانہ نقطۂ نظر سے ٹکرا گیا ہے اور محدثین کرام صحیح احادیث سے بھی احکام و مسائل کے استنباط میں وہ توازن و اعتدال ملحوظ نہیں رکھ سکے ہیں جو فقہائے مجتہدین نے رکھا ہے۔
اس بحث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ جس طرح حدیث کو بالکلیہ رد کر دینے والے غلطی پر ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی غلطی سے محفوظ نہیں ہیں جنھوں نے حدیث سے استفادہ کرنے میں صرف روایات ہی پر اعتماد کرلیا ہے۔ مسلک حق ان دونوں کے درمیان ہے اور یہ وہی مسلک ہے جو ائمہ مجتہدین نے اختیار کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ کی فقہ میں آپ بکثرت ایسے مسائل دیکھتے ہیں جو مرسل اور معضل اور منقطع احادیث پر مبنی ہیں، یا جن میں ایک قوی الاسناد حدیث کو چھوڑ کر ایک ضعیف الاسناد حدیث کو قبول کیا گیا ہے، یا جن میں احادیث کچھ کہتی ہیں اور امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کچھ کہتے ہیں۔ یہی حال امام مالک کا ہے۔ باوجودیکہ اخباری نقطۂ نظر ان پر زیادہ غالب ہے، مگر پھر بھی ان کے تفقُّہ نے بہت سے مسائل میں ان کو ایسی احادیث کے خلاف فتویٰ دینے پر مجبور کر دیا جنھیں محدثین صحیح قرار دیتے ہیں، چنانچہ لیث بن سعد نے ان کی فقہ سے تقریباً ۷۰ مسئلے اس نوعیت کے نکالے ہیں۔ امام شافعی کا حال بھی اس سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں۔ معاذ اللہ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ یہ لوگ کسی حدیث کو صحیح جان کر اس سے انحراف کرتے تھے۔ نہیں بلکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ ان کے نزدیک صحت حدیث کا مدار صرف اسناد پر نہ تھا، بلکہ اسناد کے علاوہ ایک اور کسوٹی بھی تھی جس پر وہ احادیث کو پرکھتے تھے، اور جس حدیث کے متعلق ان کو اطمینان ہو جاتا تھا کہ یہ حقیقت سے اقرب ہے اسی کو قبول کرلیتے تھے خواہ وہ خالص محدثانہ نقطۂ نظر سے مرجوح ہی کیوں نہ ہو۔
یہ دوسری کسوٹی کون سی ہے؟ ہم اس سے پہلے بھی اشارۃً اس کا ذکر کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ تفقُّہ کی نعمت سے سرفراز فرماتا ہے اس کے اندر قرآن اور سیرت رسول کے غائر مطالعے سے ایک خاص ذوق پیدا ہو جاتا ہے جس کی کیفیت بالکل ایسی ہے جیسے ایک پرانے جوہری کی بصیرت کہ وہ جواہر کی نازک سے نازک خصوصیات تک کو پرکھ لیتی ہے۔ اس کی نظر بہ حیثیت مجموعی شریعت حقہ کے پورے سسٹم پر ہوتی ہے اور وہ ا س سسٹم کی طبیعت کو پہچان جاتا ہے۔ اس کے بعد جب جزئیات اس کے سامنے آتے ہیں تو اس کا ذوق اسے بتا دیتا ہے کہ کون سی چیز اسلام کے مزاج اور اس کی طبیعت سے مناسبت رکھتی ہے اور کون سی نہیں رکھتی۔ روایت پر جب وہ نظر ڈالتا ہے تو ان میں بھی یہی کسوٹی رد و قبول کا معیار بن جاتی ہے۔ اسلام کا مزاج عین ذات نبوی کا مزاج ہے۔ جو شخص اسلام کے مزاج کو سمجھتا ہے اور جس نے کثرت کے ساتھ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کا گہرا مطالعہ کیا ہوتا ہے وہ نبی اکرم کاایسا مزاج شناس ہو جاتا ہے کہ روایات کو دیکھ کر خود بخود اس کی بصیرت اسے بتا دیتی ہے کہ ان میں سے کون سا فعل میرے سرکار کا ہوسکتا ہے‘ اور کون سی چیز سنت نبوی سے اقرب ہے۔ یہی نہیں بلکہ جن مسائل میں ان کو قرآن و سنت سے کوئی چیز نہیں ملتی ان میں بھی وہ کہہ سکتا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فلاں مسئلہ پیش آتا تو آپ اس کا فیصلہ یوں فرماتے۔ یہ اس لیے کہ اس کی روح روحِ محمدی میں گم اور اس کی نظر بصیرت نبوی کے ساتھ متحد ہو جاتی ہے۔ اس کا دماغ اسلام کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے اور وہ اسی طرح دیکھتا اور سوچتا ہے جس طرح اسلام چاہتا ہے کہ دیکھا اور سوچا جائے۔ اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد انسان اسناد کا بہت زیادہ محتاج نہیں رہتا۔ وہ اسناد سے مدد ضرور لیتا ہے، مگر اس کے فیصلے کا مداراِس پر نہیں ہوتا۔ وہ بسا اوقات ایک غریب، ضعیف، منقطع السند، مطعون فیہ حدیث کو بھی لے لیتا ہے اس لیے کہ اس کی نظر اس افتاد ہ پتھر کے اندر ہیرے کی جوت دیکھ لیتی ہے۔ اور بسا اوقات وہ ایک غیر معلل، غیر شاذ، متصل السند، مقبول حدیث سے بھی اعراض کر جاتا ہے، اس لیے کہ اس جامِ زرّیں میں جو بادۂ معنی بھری ہوئی ہے وہ اسے طبیعت اسلام اور مزاجِ نبوی کے مناسب نظر نہیں آتی۔
یہ چیز چونکہ سراسر ذوقی ہے اور کسی ضابطے کے تحت نہیں آتی، نہ آسکتی ہے، اس لیے اس میں اختلاف کی گنجائش پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔ چنانچہ اسی وجہ سے ائمہ مجتہدین کے درمیان جزئیات میں بکثرت اختلافات ہوئے ہیں۔ پھر یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ایک شخص کا ذوق لا محالہ دوسرے شخص کے ذوق سے کلیتاً مطابق ہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلک کے ائمہ نے بہت سے مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے اقوال میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ اس کی ایک روشن مثال ہیں۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر مجتہد کا ذوق ہر مسئلے میں صواب ہی کو پہنچ جائے۔ انسان بہرحال کمزوریوں کا مجموعہ ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کا مجتہد بھی غلطی کرسکتا ہے اور کر جاتا ہے۔ اسی بنا پر ائمہ مجتہدین ہمیشہ ڈرتے رہے ہیں، اور انھوں نے ہمیشہ اپنے متبعین کو ہدایت کی ہے کہ ہم پر بالکل اعتماد نہ کرلو۔ خود بھی تحقیق کرتے رہو اور جب کوئی سنت ہمارے قول کے خلاف ثابت ہو جائے تو ہمارے قول کو رد کرکے سنت کی پیروی کرو۔ امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ لَایَحِلُّ لِاَحَدٍ اَنْ یَّقُوْلَ مُقَالَتَنَا حَتّٰی یعَلَمَ مِنْ اَیْنَ قُلْنَا۔ ’’کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ ہمارے قول پر فتویٰ دے جب تک کہ وہ تحقیق نہ کرلے کہ ہمارے قول کا ماخذ کیا ہے۔‘‘ امام زفر کا قول ہے اِنَّمَا نَأخُذُ بِالرَّأیِ مَالَمْ نَجِدِ الْاَثْرَ فَاذِا جَائَ الْاَثْرُ تَرَکْنَا الرَّأیَ وَاَخْذُنَا بِالْاَثْرِ۔ ’’جب ہم کو کوئی حدیث نہیں ملتی تو ہم اپنی رائے سے فیصلہ کرتے ہیں جب حدیث مل جاتی ہے تورائے کو چھوڑ کر حدیث کو لے لیتے ہیں۔ ‘‘ امام مالک کا ارشاد ہے اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اُخْطِیْ وَ اُصِیْبُ فَانْظُرُوْا فِیْ رَأیٖ فَکُلَّمَا وَافَقَ الْکِتَابَ وَالسَّنَّۃَ فَخُذُوْہُ وَکُلَّمَا اَلَمْ یُوَافِقِ الْکِتَابَ وَالسَّنَّۃَ فَاتْرُکُوہُ۔’’میں ایک انسان ہوں۔ غلطی بھی کرتا ہوں اور صحیح رائے بھی قائم کرتا ہوں۔ لہٰذا میری رائے کو نظر تحقیق سے دیکھو۔جو کچھ کتاب و سنت کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو اس کے خلاف ہو اسے رد کر دو۔‘‘ امام شافعی کا بیان ہے کہ اِذَاصَحَّ الْحَدِیْثُ فَاضْرِبُوْا بِقَوْلْی الْحَائِطَ ’’جب حدیث صحیح تمہیں مل جائے تو میرے قول کو دیوار پر دے مارو۔ اور لَاقَوْلَ لِاَحَدٍمَعَ سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم۔ ’’سنت رسول کے مقابلے میں کسی کو کچھ کہنے کا حق نہیں۔‘‘ غرض یہ کہ تمام ائمہ بالا جماع کہتے ہیں کہ جس شخص پر کسی مسئلے میں سنت رسول روشن ہو جائے اس کے لیے پھر کسی دوسرے شخص کا قول لینا حرام ہے خواہ وہ کیسے ہی بڑے مرتبے کا شخص ہو۔
(ترجمان القرآن۔ صفر۱۳۵۶ھ۔مئی۱۹۳۷ئ)

شیئر کریں