(۱۹) ۵ مارچ کی سہ پہر گورنر پنجاب مسٹر چندریگر نے گورنمنٹ ہائوس میں ایک کانفرنس بلائی جس میں مجھے بھی مدعو کیاگیا تھا۔ اس کانفرنس میں تقریباً پچاس اصحاب و خواتین کااجتماع تھا۔ گورنر صاحب نے اپنی تقریر میں حاضرین سے اپیل کی کہ وہ امن قائم کرنے میں حکومت کی مدد کریں ۔ میں نے اس کے جواب میں جوکچھ کہا اس کاخلاصہ یہ ہے:
’’بدامنی کی یہ حالت حکومت کی اس غلطی کی وجہ سے پیداہوئی ہے کہ اس نے عوام کے مطالبات کو بغیر کوئی وجہ بتائے ٹھکرا دیاہے۔ ایک جمہوری نظام میں عوام اس طریقے کو برداشت نہیںکرسکتے ۔ اگر حکومت ان مطالبات کو نہ ماننے کے کچھ معقول وجوہ پیش کرتی تو اس ملک کے عوام کچھ ایسے سرپھرے نہ تھے کہ وہ خواہ مخواہ دنگے فساد پر اُتر آتے ۔ لیکن اس نے سمجھنے اور سمجھانے کی کوئی کوشش نہ کی اور بس یونہی عوام کے منہ پر ان کے مطالبات مار دئیے۔ اس کے بعد لوگوں میں غصہ پیداہوناایک قدرتی با ت ہے اور اب اس غصے کو فرو کرنے کے لیے آپ کی بارڈر پولیس لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برسار ہی ہے۔ ان حالات میں آخر امن کی اپیل کیسے کارگر ہوسکتی ہے ؟ امن تو اب دو ہی طریقوں سے قائم ہو سکتاہے ۔ یا تو طاقت سے اپنی قوم کو زبردستی دبا دیجیے جس کے لیے آپ کو ہماری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے پاس کافی فوج اور پولیس موجود ہے یا اپنی قوم کو راضی کرکے امن قائم کیجیے۔ جس کی واحد صورت یہ ہے کہ آپ آج رات کو ریڈیو پر اعلان کیجیے کہ وزیراعظم صاحب عوام کے مطالبات پر گفتگو کرنے کے لیے تیار ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ ۲۴ گھنٹے کے اندر امن قائم ہوجائے گا۔ ‘‘
میری اس تجویز کو گورنر صاحب نے پسند فرمایا۔ اسی وقت ایک اعلان کامسودہ تیار کیاگیا اور یہ طے ہواکہ رات کو وہ ریڈیو پر نشر کیاجائے گا ۔ اب یہ مسٹر چندریگر ہی بتاسکتے ہیںکہ یہ تجویز کس بنا پر رہ گئی اور آخر کیوں عوام کو راضی کرنے کی بجائے طاقت ہی سے دبا کر امن قائم کرنے کو ترجیح دی گئی ۔