Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

مسلم اورکافر کا اصلی فرق

-1مسلم اور کافر میں فرق کیوں؟
برادرانِ اسلام! ہر مسلمان اپنے نزدیک یہ سمجھتا ہے اور آپ بھی ضرور ایسا ہی سمجھتے ہوں گے کہ مسلمان کا درجہ کافر سے اونچا ہے۔ مسلمان کو خدا پسند کرتا ہے اورکافر کو ناپسند کرتا ہے۔ مسلمان خدا کے ہاں بخشا جائے گا اور کافر کی بخشش نہ ہو گی۔ مسلمان جنت میں جائے گا اور کافردوزخ میں جائے گا۔ آج میں چاہتا ہوں کہ آپ اس بات پر غور کریں کہ مسلمان اور کافرمیں اتنا بڑا فرق آخر کیوں ہوتا ہے؟ کافر بھی آدم کی اولاد ہے اور تم بھی۔ کافر بھی ایسا ہی انسان ہے جیسے تم ہو۔ وہ بھی تمھارے ہی جیسے ہاتھ، پائوں، آنکھ، کان رکھتا ہے۔ وہ بھی اسی ہوا میں سانس لیتا ہے۔ یہی پانی پیتا ہے۔ اسی زمین پر بستا ہے۔ یہی پیداوار کھاتا ہے۔ اسی طرح پیدا ہوتا ہے اور اسی طرح مرتا ہے۔ اسی خدا نے اس کو بھی پیدا کیا ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے۔ پھر آخر کیوں اس کا درجہ نیچا ہے اور تمھارا اونچا؟ تمھیں کیوں جنت ملے گی اور وہ کیوں دوزخ میں ڈالا جائے گا؟
2-کیا صرف نام کا فرق ہے؟
یہ بات ذرا سوچنے کی ہے۔ آدمی اور آدمی میں اتنا بڑا فرق صرف اتنی سی بات سے تو نہیں ہو سکتا کہ تم عبداللہ اور عبدالرحمٰن اور ایسے ہی دوسرے ناموں سے پکارے جاتے ہو،اور وہ دین دیال اورکرتار سنگھ اور رابرٹسن جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے، یا تم ختنہ کراتے ہو اور وہ نہیں کراتا، یا تم گوشت کھاتے ہو اور وہ نہیں کھاتا۔ اللہ تعالیٰ جس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے اور جو سب کا پروردگار ہے ایسا ظلم تو کبھی نہیں کر سکتا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی مخلوقات میں فرق کرے اور ایک بندے کو جنت میں بھیجے اور دوسرے کودوزخ میں پہنچا دے۔
*اصلی فرق___ اسلام اور کفر
جب یہ بات نہیں ہے تو پھر غور کرو کہ دونوں میں اصلی فرق کیا ہے؟ اس کا جواب صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ دونوں میں اصلی فرق اسلام اور کفر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسلام کے معنی خدا کی فرماں برداری کے ہیں، اور کفر کے معنی خدا کی نافرمانی کے۔ مسلمان اور کافر دونوں انسان ہیں، دونوں خدا کے بندے ہیں، مگر ایک انسان اس لیے افضل ہو جاتا ہے کہ یہ اپنے مالک کو پہچانتا ہے، اس کے حکم کی اطاعت کرتا ہے اور اس کی نافرمانی کے انجام سے ڈرتا ہے، اور دوسرا انسان اس لیے اونچے درجے سے گر جاتا ہے کہ وہ اپنے مالک کو نہیں پہچانتا اور اس کی فرماں برداری نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے مسلمان سے خدا خوش ہوتا ہے اور کافر سے ناراض۔ مسلمان کو جنت دینے کا وعدہ کرتا ہے اور کافر کو کہتا ہے کہ دوزخ میں ڈالوں گا۔
*فرق کی وجہ___ علم اور عمل
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو کافر سے جدا کرنے والی صرف دو چیزیں ہیں: ایک، علم اور دوسری عمل۔ یعنی پہلے تو اسے یہ جاننا چاہیے کہ اس کا مالک کون ہے؟ اس کے احکام کیا ہیں؟ اس کی مرضی پر چلنے کا طریقہ کیا ہے؟ کن کاموں سے وہ خوش ہوتا ہے اور کن کاموں سے ناراض ہوتا ہے؟ پھر جب یہ باتیں معلوم ہو جائیں تو دوسری بات یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مالک کا غلام بنا دے۔ جو مالک کی مرضی ہو اس پر چلے اور جو اپنی مرضی ہو اس کو چھوڑ دے۔ اگر اس کا دل ایک کام کو چاہے اور مالک کا حکم اس کے خلاف ہو تو اپنے دل کی بات نہ مانے اور مالک کی بات مان لے۔ اگر ایک کام اس کو اچھا معلوم ہوتا ہے اور مالک کہے کہ وہ برا ہے، تو اسے برا ہی سمجھے، اور اگر دوسرا کام اسے برا معلوم ہوتا ہے مگر مالک کہے کہ وہ اچھا ہے تو اسے اچھا ہی سمجھے۔ اگر ایک کام میں اسے نقصان نظر آتا ہو اور مالک کا حکم ہو کہ اسے کیا جائے، تو چاہے اس میں جان اور مال کا کتنا ہی نقصان ہو، وہ اس کو ضرور کرکے ہی چھوڑے۔ اگر دوسرے کام میں اس کو فائدہ نظر آتا ہو اور مالک کا حکم ہو کہ اسے نہ کیا جائے، تو خواہ دنیا بھر کی دولت ہی اس کام میں کیوں نہ ملتی ہو، وہ اس کام کو ہرگز نہ کرے۔
یہ علم اور یہ عمل ہے جس کی وجہ سے مسلمان خدا کا پیارا بندہ ہوتا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے اور خدا اس کو عزت عطا کرتا ہے۔ کافر یہ علم نہیں رکھتا اور علم نہ ہونے کی وجہ سے اس کا عمل بھی یہ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ خدا کا جاہل اور نافرمان بندہ ہوتا ہے اور خدا اس کو اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔
اب خود ہی انصاف سے کام لے کر سوچو کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو، مگر ویسا ہی جاہل ہو جیسا ایک کافر ہوتا ہے، اور ویسا ہی نافرمان ہو جیسا ایک کافر ہوتا ہے تو محض نام اور لباس اورکھانے پینے کے فرق کی وجہ سے وہ کافر کے مقابلے میں کس طرح افضل ہو سکتا ہے اور کس بنا پر دنیا اور آخرت میں خدا کی رحمت کا حق دار ہو سکتا ہے؟ اسلام کسی نسل یا خاندان یا برادری کا نام نہیں ہے کہ باپ سے بیٹے کو اور بیٹے سے پوتے کو آپ ہی آپ مل جائے۔ یہاں یہ بات نہیں ہے کہ برہمن کا لڑکا چاہے کیسا ہی جاہل ہو اور کیسے ہی برے کام کرے مگر وہ اونچا ہی ہو گا، کیوں کہ برہمن کے گھر پیدا ہوا ہے اور اونچی ذات کا ہے۔ اور چمار کا لڑکا چاہے علم اور عمل کے لحاظ سے ہر طرح اس سے بڑھ کر ہو، مگر وہ نیچا ہی رہے گا، کیوں کہ چمار کے گھر پیدا ہوا ہے اور کمین ہے۔ یہاں تو خدا نے اپنی کتاب میں صاف فرما دیا ہے کہ:
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات 49:13)
یعنی جو خدا کو زیادہ پہچانتا ہے اور اس کی زیادہ فرماں برداری کرتا ہے، وہی خدا کے نزدیک زیادہ عزت والا ہے۔
حضرت ابراہیم؈ ایک بت پرست کے گھر پیدا ہوئے، مگر انھوں نے خدا کو پہچانا اور اس کی فرماںبرداری کی، اس لیے خدا نے ان کو ساری دنیا کا امام بنا دیا۔ حضرت نوح؈ کا لڑکا ایک پیغمبر کے گھر پیدا ہوا، مگر اس نے خدا کو نہ پہچانا اور اس کی نافرمانی کی، اس لیے خدا نے اس کے خاندان کی کچھ پروا نہ کی اور اسے ایسا عذاب دیا جس پر دنیا عبرت کرتی ہے۔ پس خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ خدا کے نزدیک انسان اور انسان میں جو کچھ بھی فرق ہے وہ علم اور عمل کے لحاظ سے ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کی رحمت صرف انھی کے لیے ہے جو اس کو پہچانتے ہیں، اور اس کے بتائے ہوئے سیدھے راستے کو جانتے ہیں، اور اس کی فرماں برداری کرتے ہیں۔ جن لوگوں میں یہ صفت نہیں ہے ان کے نام خواہ عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہوں، یا دین دیال اور کرتار سنگھ، خدا کے نزدیک ان دونوںمیں کوئی فرق نہیں اور ان کو اس کی رحمت سے کوئی حق نہیں پہنچتا۔
3-آج مسلمان ذلیل کیوں؟
بھائیو! تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو، اور تمھارا ایمان ہے کہ مسلمان پر خدا کی رحمت ہوتی ہے، مگر ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو، کیا خدا کی رحمت تم پر نازل ہو رہی ہے؟ آخرت میں جو کچھ ہو گا وہ تو تم بعد میں دیکھو گے، مگر اس دنیا میں تمھارا جو حال ہے اس پر نظر ڈالو۔ اس ہندستان{ FR 1595 } میں تم نو (۹)کروڑ ہو۔ تمھاری اتنی بڑی تعداد ہے کہ اگر ایک ایک شخص ایک ایک کنکری پھینکے تو پہاڑ بن جائے۔ لیکن جہاں اتنے مسلمان موجود ہیں وہاں کفار حکومت کر رہے ہیں۔ تمھاری گردنیں ان کی مٹھی میں ہیں کہ جدھر چاہیں تمھیں موڑ دیں۔ تمھاراسر، جو خدا کے سوا کسی کے آگے نہ جھکتا تھا، اب انسانوں کے آگے جھک رہا ہے۔ تمھاری عزت جس پر ہاتھ ڈالنے کی کوئی ہمت نہ کر سکتا تھا، آج وہ خاک میں مل رہی ہے۔ تمھارا ہاتھ، جو ہمیشہ اونچا ہی رہتا تھا، اب وہ نیچا ہوتا ہے اور کافر کے آگے پھیلتا ہے۔ جہالت اور افلاس اور قرض داری نے ہر جگہ تم کو ذلیل وخوار کر رکھا ہے۔ کیا یہ خدا کی رحمت ہے؟ اگر یہ رحمت نہیں ہے، بلکہ کھلا ہوا غضب ہے، تو کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان اور اس پر خدا کا غضب نازل ہو! مسلمان اور ذلیل ہو! مسلمان اور غلام ہو! یہ تو ایسی ناممکن بات ہے جیسے کوئی چیز سفید بھی ہو اور سیاہ بھی۔ جب مسلمان خدا کا محبوب ہوتا ہے تو خدا کا محبوب دنیا میں ذلیل وخوار کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا نعوذ باللہ تمھارا خدا ظالم ہے کہ تم تو اس کا حق پہچانو اور اس کی فرماں برداری کرو، اور وہ نافرمانوں کو تم پر حاکم بنا دے، اور تم کو فرماں برداری کے معاوضے میں سزا دے؟ اگر تمھاراایمان ہے کہ خدا ظالم نہیں ہے، اور اگر تم یقین رکھتے ہو کہ خدا کی فرماں برداری کا بدلہ ذلّت سے نہیں مل سکتا، تو پھر تمھیں ماننا پڑے گا کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ جو تم کرتے ہو اسی میں کوئی غلطی ہے۔ تمھارا نام سرکاری کاغذات میں تو ضرور مسلمان لکھا جاتا ہے، مگر خدا کے ہاں انگریزی سرکار کے دفتر کی سند پر فیصلہ نہیں ہوتا۔ خدا اپنا دفتر الگ رکھتا ہے، وہاں تلاش کرو کہ تمھارا نام فرماں برداروں میں لکھا ہوا ہے یا نافرمانوں میں؟
خدا نے تمھارے پاس کتاب بھیجی، تاکہ تم اس کتاب کو پڑھ کر اپنے مالک کو پہچانو اور اس کی فرماں برداری کا طریقہ معلوم کرو۔ کیا تم نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہے؟ خدا نے اپنے نبیؐ کو تمھارے پاس بھیجا تاکہ وہ تمھیں مسلمان بننے کا طریقہ سکھائے۔ کیا تم نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کے نبی a نے کیا سکھایا ہے؟ خدا نے تم کو دنیااور آخرت میں عزت حاصل کرنے کا طریقہ بتایا۔ کیا تم اس طریقے پر چلتے ہو؟ خدا نے کھول کھول کر بتایا کہ کون سے کام ہیں جن سے انسان دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوتا ہے۔ کیا تم ایسے کاموں سے بچتے ہو؟ بتائو تمھارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ اگر تم مانتے ہو کہ نہ تو تم نے خدا کی کتاب اور اس کے نبیؐ کی زندگی سے علم حاصل کیا اور نہ اس کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی کی، تو تم مسلمان ہوئے کب کہ تمھیں اس کا اجر ملے؟ جیسے تم مسلمان ہو ویسا ہی اجر تمھیں مل رہا ہے اور ویسا ہی اجر آخرت میں بھی دیکھ لو گے۔
میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ مسلمان اور کافر میں علم اور عمل کے سوا کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کا علم اور عمل ویسا ہی ہے جیسا کافر کا ہے، اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، تو بالکل جھوٹ کہتا ہے۔ کافر، قرآن کو نہیں پڑھتا اور نہیں جانتا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ یہی حال اگر مسلمان کا بھی ہو تو وہ مسلمان کیوں کہلائے؟ کافر، نہیں جانتا کہ رسول اللہa کی کیا تعلیم ہے اور آپؐ نے خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ کیا بتایا ہے؟ اگر مسلمان بھی اسی کی طر ح ناواقف ہو تو وہ مسلمان کیسے ہوا؟ کافر،خدا کی مرضی پر چلنے کے بجائے اپنی مرضی پرچلتا ہے۔ مسلمان بھی اگراُسی کی طرح خودسر اور آزاد ہو، اسی کی طرح اپنے ذاتی خیالات اور اپنی رائے پر چلنے والا ہو، اسی کی طرح خدا سے بے پروا اور اپنی خواہش کا بندہ ہو تو اسے اپنے آپ کو ’’مسلمان‘‘ (خدا کا فرماں بردار) کہنے کا کیا حق ہے؟ کافر حلال اور حرام کی تمیز نہیں کرتا اور جس کام میں اپنے نزدیک فائدہ یا لذت دیکھتا ہے اس کو اختیار کر لیتا ہے، چاہے خداکے نزدیک وہ حلال ہو یا حرام۔ یہی رویہ اگر مسلمان کا ہو تو اس میں اور کافر میں کیا فرق ہوا؟ غرض یہ ہے کہ جب مسلمان بھی اسلام کے علم سے اتنا ہی کورا ہو جتنا کافر ہوتا ہے، اور جب مسلمان بھی وہ سب کچھ کرے جو کافر کرتا ہے تو اس کو کافر کے مقابلے میں کیوں فضیلت حاصل ہو، اور اس کا حشر بھی کافر جیسا کیوں نہ ہو؟ یہ ایسی بات ہے جس پر ہم سب کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔
*غور کا مقام
میرے عزیز بھائیو! کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ میں مسلمانوں کو کافر بنانے چلا ہوں۔ نہیں، میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے۔ میں خود بھی سوچتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ سوچے کہ ہم آخر خدا کی رحمت سے کیوں محروم ہو گئے ہیں؟ ہم پر ہر طرف سے کیوں مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں؟ جن کو ہم کافر، یعنی خدا کے نافرمان بندے کہتے ہیں وہ ہم پرہر جگہ غالب کیوں ہیں؟ اور ہم جو فرماں بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہر جگہ مغلوب کیوں ہو رہے ہیں؟
اس کی وجہ پر میں نے جتنا زیادہ غور کیا، اتنا ہی مجھے یقین ہوتا چلا گیا کہ ہم میں اور کفار میں بس نام کا فرق رہ گیا ہے، ورنہ ہم بھی خدا سے غفلت اور اس سے بے خوفی اور اس کی نافرمانی میں کچھ ان سے کم نہیں ہیں۔ تھوڑا سا فرق ہم میں اور ان میں ضرور ہے، مگر اس کی وجہ سے ہم کسی اجر کے مستحق نہیں ہیں، بلکہ سزا کے مستحق ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور پھر اس کے ساتھ وہ برتائو کرتے ہیں جو کافر کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ محمدa اللہ کے نبی ہیں، اور پھر ان کی پیروی سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے کافر بھاگتا ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ جھوٹے پر خدا نے لعنت کی ہے، رشوت کھانے اور کھلانے والے کو جہنم کا یقین دلایا ہے، سود کھانے اور کھلانے والے کو بدترین مجرم قراردیا ہے، غیبت کو اپنے بھائی کا گوشت کھانے کے برابر بتایا ہے، فحش اور بے حیائی اور بدکاری پر سخت عذاب کی دھمکی دی ہے، مگر یہ جاننے کے بعد بھی ہم کفار کی طرح یہ سب کام آزادی کے ساتھ کرتے ہیں، گویا ہمیں خدا کا کوئی خوف ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جو کفار کے مقابلے میں تھوڑے بہت مسلمان بنے ہوئے نظر آتے ہیں، اس پر ہمیں انعام نہیں ملتا بلکہ سزا دی جاتی ہے۔ کفار کا ہم پر حکمران ہونا، ہر جگہ ہمارا زِک اٹھانا اسی جرم کی سزا ہے کہ ہمیں اسلام کی نعمت دی گئی تھی اور پھر ہم نے اس کی قدر نہ کی۔
عزیزو! آج کے خطبے میں جو کچھ میں نے کہا ہے یہ اس لیے نہیں ہے کہ تم کو ملامت کروں۔ میں ملامت کرنے نہیں اٹھا ہوں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ کھویا گیا ہے اس کو پھر سے حاصل کرنے کی کچھ فکر کی جائے۔ کھوئے ہوئے کو پانے کی فکراُسی وقت ہوتی ہے جب انسان کو معلوم ہو کہ اس کے پاس سے کیا چیز کھوئی گئی ہے اور وہ کیسی قیمتی چیز ہے۔ اسی لیے میں تم کو چونکانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر تم کو ہوش آ جائے اورتم سمجھ لو کہ حقیقت میں بہت قیمتی چیز تمھارے پاس تھی، تو تم پھر سے اس کے حاصل کرنے کی فکر کرو گے۔
*حصولِ علم کی فکر
میں نے پچھلے خطبے میں تم سے کہا تھا کہ مسلمان کو مسلمان ہونے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسلام کا علم ہے۔ ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن کی تعلیم کیا ہے، رسولِ پاکؐ کا طریقہ کیا ہے، اسلام کس کو کہتے ہیں، اور کفر واسلام میں اصلی فرق کن باتوں کی وجہ سے ہے؟ اس علم کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا، مگر افسوس ہے کہ تم اسی علم کو حاصل کرنے کی فکر نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک تم کو احساس نہیں ہوا کہ تم کتنی بڑی نعمت سے محروم ہو۔
میرے بھائیو! ماں اپنے بچے کو دودھ بھی اُس وقت تک نہیں دیتی جب تک کہ وہ رو کرمانگتا نہیں۔ پیاسے کو جب پیاس لگتی ہے تو وہ خود پانی ڈھونڈتا ہے، اور خدا اس کے لیے پانی پیدا بھی کر دیتا ہے۔ جب تم کو خود ہی پیاس نہ ہو تو پانی سے بھرا ہوا کنواں بھی تمھارے پاس آ جائے تو بے کار ہے۔ پہلے تم کو خود سمجھنا چاہیے کہ دین سے ناواقف رہنے میں تمھارا کتنا بڑا نقصان ہے۔ خدا کی کتاب تمھارے پاس موجود ہے، مگر تم نہیں جانتے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ اس سے زیادہ نقصان کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ نماز تم پڑھتے ہو، مگر تمھیں نہیں معلوم کہ اس نماز میں تم اپنے خدا کے سامنے کیا عرض کرتے ہو؟ اس سے بڑھ کر اور کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ کلمہ، جس کے ذریعے سے تم اسلام میں داخل ہوتے ہو، اس کے معنی تک تم کو معلوم نہیں اور تم نہیں جانتے کہ اس کلمے کو پڑھنے کے ساتھ ہی تم پر کیا ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں؟ ایک مسلمان کے لیے کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی نقصان ہو سکتا ہے؟ کھیتی کے جل جانے کا نقصان تم کو معلوم ہے، روزگار نہ ملنے کا نقصان تم کو معلوم ہے، اپنے مال کے ضائع ہو جانے کا نقصان تم کو معلوم ہے، مگر اسلام سے ناواقف ہونے کا نقصان تمھیں معلوم نہیں۔ جب تم کو اس نقصان کا احساس ہو گا تو تم خود آ کر کہو گے کہ ہمیں اس نقصان سے بچائو، اور جب تم خود کہو گے تو ان شاء اللہ تمھیں اس نقصان سے بچانے کا بھی انتظام ہو جائے گا۔

٭…٭…٭

شیئر کریں