حضرات! یہ جو کچھ مَیں نے عرض کیا ہے اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں کرنا کیا چاہیے تھااور ہم کر کیا رہے ہیں؟ اور یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کا خمیازہ کیا بھگت رہے ہیں۔ اس پہلو سے اگر آپ حقیقتِ معاملہ پر نگاہ ڈالیں گے تو یہ بات خود ہی آپ پر کھل جائے گی کہ مسلمانوں نے اس ملک میں اور دنیا کے دُوسرے ملکوں میں، جن مسائل کو اپنی قومی زندگی کے اصل مسائل سمجھ رکھا ہے اور جنھیں حل کرنے کے لیے، وہ کچھ اپنے ذہن سے گھڑی ہوئی اور زیادہ تر دُوسروں سے سیکھی ہوئی تدبیروں پر، اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، فی الواقع اُن میں سے کوئی بھی اُن کا اصل مسئلہ نہیں ہے اور اُس کے حل کی تدبیر میں وقت، قوت اور مال کا یہ سارا صَرفہ محض ایک زیاں کاری ہے۔
یہ سوالات کہ کوئی اقلیت، ایک غالب اکثریت کے درمیان رہتے ہوئے، اپنے وجود، مفاد اور حقوق کو کیسے محفوظ رکھے؟ اور کوئی اکثریت اپنے حدود میں وہ اقتدار کیسے حاصل کرے، جو اکثریت میں ہونے کی بناپر اسے ملنا چاہیے، اور ایک محکوم قوم کسی غالب قوم کے تسلط سے کس طرح آزاد ہو، اور ایک کم زور قوم کسی طاقت ور قوم کی دست بُردسے، اپنے آپ کو کس طرح بچائے، اور ایک پس ماندہ قوم وہ ترقی و خوش حالی اور طاقت کیسے حاصل کرے جو دنیا کی زور آورقوموں کو حاصل ہے۔ یہ اور ایسے ہی دُوسرے مسائل غیر مسلموں کے لیے، تو ضرور اہم ترین اور مقدم ترین مسائل ہو سکتے ہیں اور اُن کی تمام توجہات اور کوششوں کے مرکز و محور بھی قرار پا سکتے ہیں، مگر ہم مسلمانوں کے لیے، یہ بجائے خود مستقل مسائل نہیں ہیں، بلکہ محض اُس غفلت کے شاخسانے ہیں جو ہم اپنے اصل کام سے برتتے رہے ہیں اور آج تک برتے جارہے ہیں۔ اگر ہم نے وہ کام کیا ہوتا تو آج اتنے بہت سے پیچیدہ اور پریشان کن مسائل کا یہ جنگل ہمارے لیے پیدا ہی نہ ہوتا ، اور اگر اب بھی اس جنگل کو کاٹنے میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجائے، ہم اس کام پر اپنی ساری توجہ اور سعی مبذول کر دیں تو دیکھتے دیکھتے نہ صرف ہمارے لیے، بلکہ ساری دنیا کے لیے، پریشان کن مسائل کا یہ جنگل، خود بخود صاف ہو جائے، کیوں کہ دنیا کی صفائی و اصلاح کے ذِمّہ دار ہم تھے۔ ہم نے اپنا فرضِ منصبی ادا کرنا چھوڑا، تو دُنیا خاردار جنگلوں سے بھر گئی اور ان کا سب سے زیادہ پُرخار حصہ ہمارے نصیب میں لکھا گیا۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور سیاسی راہ نما، اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور ہر جگہ انھیں یہی باور کرائے جا رہے ہیں کہ تمھارے اصل مسائل وہی اقلیت و اکثریت اور آزادیٔ وطن اور تحفظِ قوم اور مادی ترقی کے مسائل ہیں۔ نیز، یہ حضرات ان مسائل کے حل کی تدبیریں بھی، مسلمانوں کو وہی کچھ بتا رہے ہیں جو انھوں نے غیر مسلموں سے سیکھی ہیں۔ لیکن مَیں جتنا خدا کی ہستی پر یقین رکھتا ہوں، اتنا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ یہ آپ کی بالکل غلط راہ نُمائی کی جا رہی ہے اور ان راہوں پر چل کر آپ کبھی اپنی فلاح کی منزل کو نہ پہنچ سکیں گے۔