اس وقت کے مسلمانوں کا جائزہ لیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی اقسام بے شمار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ سانپوں کی قسمیں گن سکتے ہیں‘ لیکن مسلمانوں کی اقسام شمار نہیں کی جاسکتیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمان کی اتنی قسمیں نہیں ہوسکتی ہیں۔ مسلمان صرف ایک ہی قسم کا ہوسکتا ہے‘ اللہ اور اس کی شریعت کا پابند! رسول اور اس کی تعلیمات کا فرمانبردار! ان مسلمات کا اعتراف اور پھر ان سے بغاوت دو متضاد باتیں ہیں جن کا افسوس ہے اس زمانہ میں کم لوگوں کو شعور ہے۔
دنیا کی کوئی قوم بھی اتنے سچے اور پکے اصولوں کو نہیں مانتی جتنے کہ آپ مانتے ہیں۔ پھر بھی آپ اتنی میٹھی نیند سو رہے ہیں کہ آپ کے دشمنوں کو بھی حیرت ہے‘ جس نے بھی کوئی اصول اپنایا‘ اسے قربانیاں لازمی طور پر کرنی پڑیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ موجودہ حالات پر نظر ڈالیے جس نے کہا جمہوریت ہمارا مسلک ہے۔ دیکھئے اس کو یہ سودا کتنا مہنگا پڑا۔ بعض نے کہا کہ ہم ڈکٹیٹر شپ کے قائل ہیں اور ساتھ ہی انہیں جان و مال کی بازی لگا دینی پڑی۔ روس نے نہ جانے کس عالم میں کہہ دیا تھا کہ فلاح عالم اشتراکیت میں ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ پورے کا پورا ملک تہس نہس ہوگیا۔ نازی ازم اتنی جاں نثاری کا مطالبہ کرے۔ اشتراکیت کے سربکف جاں فروشوں کی تعداد اس قدر عظیم الشان ہو‘ جمہوریت کی حمایت کے لیے اتنے سرفروش تن من دھن کی بازی لگا رہے ہوں۔ مگر آپ خدا اور اس کے دین کو مان کر کتب قدیمہ کی زبان میں پہاڑی کا چراغ اور زمین کا نمک ہو کر اور قرآن سے خیر الامم کا خطاب پا کر آپ کے بستر میں ایک کانٹے کی خلش بھی نہ ہو اور پھر بھی سب حقوق ادا ہوتے رہیں۔ جس راہ پر چاہیں‘ چلیں اور پھر بھی کوئی اصول نہ ٹوٹے۔ کس قدر اچنبھے کی بات ہے۔ موجودہ پڑھے لکھے انسان جو دائرہ اسلام سے باہر ہیں‘ اور خود کسی اصول کو مانتے ہیں‘ حیرت میں ہیں کہ آپ لوگ کیسے سکھ کی نیند سو رہے ہیں‘ جس کی حفاظت میں اتنا بڑا خزانہ ہو‘ اس کی یہ بے فکری تعجب انگیز ہے۔
یہ اگر مسلم مقاصد ہیں اور آپ نے ان کو مانا ہے تو ان کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے پہلے خود انہیں اختیار کیجئے‘ پھر اللہ کے بندوں میں ان کو پھیلائیے۔ ان کے لیے گھر سے لے کر باہر تک اور شہر سے لے کر ملک تک آپ کو ہر جگہ جان جوکھم کاکام کرنا ہوگا۔ موجودہ زمانے میں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ایسے انسان موجود ہیں جنہوں نے اپنے باطل اصولوں کی خاطر گھر چھوڑا‘ وطن چھوڑا‘ اعزہ‘ خاندان اور قوم سب کو قربان کیا‘ ایسے انسان ہزار ہا موجود ہیں جو عین دشمن کے ملک میں ہزاروں فٹ کی بلندی سے جست لگاتے ہیں۔ دنیا باطل کے لیے اس جوش و ولولہ کا اظہار کرے مگر صرف حق ہی ایک ایسا مظلوم ہے جس کے لیے چوٹ کھانے والے سینے نہیں ہیں‘ جن کے لیے رگوں کا خون خشک ہوگیا ہے جس کے لیے جیبوں میں مال موجود نہیں ہے۔ اللہ اکبر‘ کیسا عجیب ماجرا ہے؟ کیا حق کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتا اور کیا وہ کسی چیز کا بھی مستحق نہیں ہے؟ آج وہ مسلمان جو خدا اور رسول کے اصولوں کو اپنا اصول تسلیم کیے ہوئے ہیں‘ کہاں سوئے ہوئے ہیں؟ یا تو یہ کہئے کہ یہ مقصد گھٹیا ہے اور اگر گھٹیا نہیں ہے بلکہ تمام مقصدوں میں سب سے ارفع یہی ہے تو بتائیے کہ قیامت کے دن آپ کا کیا جواب ہوگا جب کہ اس آسمان کے نیچے کوئی جماعت آج ایسی نہیں ہے جو اس حق کو اپنا مقصد حیات بنائے ہوئے ہو‘ صرف کسی جزئی حق کو نہیں بلکہ پورے کے پورے حق کو‘ کیوں کہ ویسے تو دنیا میں کوئی جماعت ایسی نہیں ہوسکتی جس کے مقاصد میں کچھ نہ کچھ حق کے اجزاء شامل نہ ہوں‘ اس کے بغیر تو کوئی جماعت وجود ہی میں نہیں آسکتی‘ دنیا میں مجرد باطل کا وجود ناممکن ہے‘ ایسا ہونا اس کائنات کے مزاج کے خلاف ہے۔ ہمارا سوال ایسی جماعت کے لئے ہے جو حق کو بہ حیثیت مجموعی لے کر اٹھے‘ اس طرح جس طرح صحابہؓ لے کر اٹھے تھے۔