Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
توحید ورسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت
سلامتی کا راستہ
اِسلام اور جاہلیت
دینِ حق
اِسلام کا اَخلاقی نقطۂ نظر
تحریکِ اِسلامی کی اَخلاقی بُنیادیں
بنائو اور بگاڑ
جہاد فی سبیل اللہ
شہادتِ حق
مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
اِسلام کا نظامِ حیات

اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل

(یہ وہ تقریر ہے جو ۱۱؍نومبر ۱۹۵۱ء کو جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام منعقدہ کراچی میں کی گئی تھی)
حمد وثنا کے بعد!
حاضرین وحضرات! میں اس سے پہلے اپنی تقریروں میں مسلمانوں کی اجتماعی حالت کا تفصیلی جائزہ لے کر یہ بتا چکا ہوں کہ اس وقت ہماری زندگی کے ایک ایک شعبے میں کیا خرابیاں پائی جاتی ہیں اور ان کے اسباب کیا ہیں۔ آج کی تقریر میں مجھے یہ بتانا ہے کہ ہمارے پاس وہ کیا پروگرام ہے جس سے ہم خود یہ توقع رکھتے ہیں اور آپ کو بھی یہ توقع دلا سکتے ہیں کہ وہ خرابیوں کی اصلاح کا مفید اور کارگر ذریعہ بن سکتا ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
لیکن اس پروگرام کو بیان کرنے سے پہلے میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا چاہتا ہوں جو اس سلسلے میں پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر میں موجود الوقت خرابیوں کو اور ان کے موجودہ اسباب کو بیان کرنے کے بعد اپنا پروگرام پیش کروں اور اس کے ذریعے سے آپ کو اصلاح کی امید دلائوں، تو اس سے آپ یہ گمان نہ کریں کہ یہ لوگ شاید کچھ اسی قسم کی وقتی خرابیوں کی اصلاح کے لیے جمع ہوئے ہوں گے اور پرانی عمارتوں میں ایسی ہی کچھ مرمتیں کرتے رہنا ان کا مقصد ہو گا ایسا گمان آپ کریں گے تو وہ حقیقت سے بعید ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنا ایک مستقل اور عالم گیر مقصد رکھتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ:
’’ہر اس نظام زندگی کو مٹایا جائے جس کی بنیاد خدا سے خود مختاری اور آخرت سے بے پروائی اور انبیا علیہم السلام کی ہدایت سے بے نیازی پر ہو۔ کیوں کہ وہ انسانیت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کی جگہ وہ نظامِ زندگی عملاً قائم کیا جائے جو خدا کی اطاعت، آخرت کے یقین اور انبیا کے اتباع پر مبنی ہو، کیوں کہ اسی میں انسانیت کی فلاح ہے۔‘‘
ہماری تمام مساعی کا اصل مقصود یہی ہے اور ہمارا ہر پروگرام خواہ وہ کسی محدود وقت اور مقام ہی کے لیے کیوں نہ ہو، اسی راہ کے کسی نہ کسی مرحلے کو طے کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم سب سے پہلے یہ انقلاب خود اپنے وطن پاکستان میں لانا چاہتے ہیں تاکہ پھر یہی ملک دنیا کی اصلاح کا ذریعہ بنے اور پاکستان کی موجودہ خرابیوں سے اگر ہم بحث کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ یہ اس مقصد کی راہ میں حائل ہیں۔ لہٰذا آپ یہ گمان نہ کریں کہ ہمارے لیے ان خرابیوں کی اصلاح بجائے خود کوئی مقصد ہے،یا یہ کہ ہم ایک بگڑے ہوئے نظام کی محض مرمت کر دینے پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں۔ نہیں، میں کہتا ہوں کہ اگر یہ خرابیاں موجود نہ ہوتیں، تب بھی ہم اپنے اسی مقصد کے لیے کام کرتے جس کو اوّل روز سے ہم نے اپنے سامنے رکھا ہے۔ ہمارا وہ مقصد ایک دائمی اور ابدی اور عالم گیر مقصد ہے اور ہر حالت میں ہمیں اس کے لیے کام کرنا ہے، خواہ کسی گوشۂ زمین میں وقتی طور پر ایک نوعیت کے مسائل درپیش ہوں یا دوسری نوعیت کے۔
پچھلی تاریخ کا جائزہ
اس توضیح کے بعد ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ جس طرح آپ نے وضاحت کے ساتھ اپنی قوم کی موجودہ خرابیوں کا جائزہ لیا ہے، اسی طرح آپ ذرا اپنی پچھلی تاریخ کا بھی جائزہ لے لیں تاکہ اچھی طرح تحقیق ہو جائے کہ آیا یہ خرابیاں اچانک ایک حادثۂ اتفاقی کے طور پر آپ کی سوسائٹی میں رونما ہو گئی ہیں، یا ان کی کوئی گہری جڑ ہے اور اُن کے پیچھے اسباب کا کوئی طویل سلسلہ ہے۔ اس پہلو سے جب تک آپ معاملے کی نوعیت اچھی طرح نہ سمجھ لیں، نہ تو موجودہ خرابیوں کی شدت ووسعت اور گہرائی آپ پر واضح ہو گی، نہ اصلاح کی ضرورت ہی کا احساس پوری طرح ہو سکے گا اور نہ یہی بات سمجھ میں آ سکے گی کہ ہم یہاں جُزوی اصلاح کی کوششوں کو لاحاصل کیوں سمجھتے ہیں اور کس بِنا پر ہماری یہ رائے ہے کہ ایک اَن تھک سعی اور ایک ہمہ گیر اصلاحی پروگرام اور ایک صالح ومنظم جماعت کے ذریعے سے جب تک یہاں نظامِ زندگی میں اساسی تبدیلیاں نہ کی جائیں گی، کوئی مفید نتیجہ چھوٹی موٹی تدبیروں سے برآمد نہ ہو سکے گا۔ہماری تاریخ کا ایک اہم اور نتیجہ خیز واقعہ ہے کہ ہمارے ملک پر انیسویں صدی میں… اسی پچھلی صدی میں جو موجودہ صدی سے پہلے گزر چکی ہے، ہزاروں میل دور سے آئی ہوئی ایک غیر مسلم قوم مسلط ہو گئی تھی اور ابھی تین چار ہی برس ہوئے ہیں کہ اس کی غلامی سے ہمارا پیچھا چھوٹا ہے۔ یہ واقعہ ہمارے لیے کئی لحاظ سے قابلِ غور ہے۔
پہلا سوال جس کی ہمیں تحقیق کرنی چاہیے، یہ ہے کہ آخر یہ واقعہ پیش کیسے آ گیا، کیا وہ کوئی اتفاقی سانحہ تھا جو یونہی بے سبب ہم پر ٹوٹ پڑا؟ کیا وہ قدرت کا کوئی ظلم تھا جو اس نے بے قصور ہم پر کر ڈالا؟ کیا ہم بالکل ٹھیک چل رہے تھے، کوئی کم زوری اور کوئی خرابی ہم میں نہ تھی؟ یا فی الواقع ہم اپنے اندر مدتوںسے کچھ کم زوریاں اور کچھ خرابیاں پال رہے تھے جس کی سزا آخر کار ہمیں ایک بیرونی قوم کی غلامی کی شکل میں ملی؟ اگر حقیقت یہی ہے کہ ہم میں کچھ خرابیاں اور کم زوریاں تھیں جو ہماری تباہی کی موجب ہوئیں تو وہ کیا تھیں؟ اور آیا اب وہ ہم میں سے نکل چکی ہیں یا ابھی تک ان کا سلسلہ برابر چلا آ رہا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ بلا جو باہر سے آکر ہم پر مسلط ہوئی، آیا یہ صرف ایک غلامی ہی کی بلا تھی یا وہ اپنے جلو میں اخلاق، افکار، تہذیب، مذہب، تمدن، معیشت اور سیاست کی دوسری بلائیں بھی ساتھ لائی تھی؟ اگر لائی تھی اور یقیناً لائی تھی، تودیکھنا چاہیے کہ وہ کس کس نوعیت کی بلائیں تھیں؟ کس کس حیثیت سے انھوں نے ہمیں کتنا متاثر کیا؟ اور آج اس کے جانے کے بعد بھی ان کے کیا کچھ اثرات ہمارے اندر موجود ہیں؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ ان بلائوں کے مقابلے میں ہمارا اپنا ردِّ عمل کیا تھا؟ آیا وہ ایک ہی ردِّعمل تھا یا مختلف گروہوں کے رد عمل مختلف تھے؟ اگر مختلف تھے تو ان میں سے ہر ایک کے اچھے اور برے کیا اثرات ہیں جو آج ہماری قومی زندگی میں پائے جاتے ہیں۔
میں ان تینوں سوالات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالوں گا تاکہ ہماری موجودہ خرابیوں میں سے ہرخرابی کا پورہ شجرہ نسب آپ کے سامنے آ جائے اور آپ دیکھ لیں کہ ہر خرابی کی اصل کیا ہے اور اس کی جڑیں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں اور کن اسباب سے اپنی غذا حاصل کر رہی ہیں۔ اس کے بعد ہی آپ اُس پوری اسکیم کو سمجھ سکیں گے جو علاج واصلاح کے لیے ہمارے پیشِ نظر ہے۔
ہماری غلامی کے اسباب
پچھلی صدی میں جو غلامی ہم پر مسلّط ہوئی تھی وہ درحقیقت ہمارے صدیوں کے مسلسل مذہبی، اخلاقی، ذہنی انحطاط کا نتیجہ تھی۔ مختلف حیثیتوں سے ہم روز بروز پستی کی طرف چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ گرتے گرتے ہم اس مقام پر پہنچ گئے تھے جہاں اپنے بل بوتے پرکھڑا رہنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔ اس حالت میں کسی نہ کسی بلا کو ہم پر مسلط ہونا ہی تھا، اور ٹھیک قانونِ قدرت کے مطابق وہ بلا ہم پر مسلّط ہوئی۔
دینی حالت
اس کی تحقیق کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی اُس وقت کی دینی حالت کا جائزہ لینا چاہیے کیوں کہ ہمارے لیے سب سے زیادہ اہمیت اپنے دین ہی کی ہے۔ وہی ہماری زندگی کا قوام ہے۔ اسی نے ہم کو ایک قوم اور ایک ملت بنایا ہے۔ اسی کے بل پر ہم دنیا میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔
ہماری پچھلی تاریخ اس امرکی شاہد ہے کہ اس ملک میں اسلام کسی منظم کوشش کے نتیجے میں نہیں پھیلا ہے۔ سندھ کی ابتدائی اسلامی فتح اور اس کے بعد کی ایک صدی کو مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔ اس کو چھوڑ کر بعد کے کسی دَور میں کوئی ایسی منظم طاقت نہیں رہی جو یہاں ایک طرف اسلام کو پھیلاتی اور جہاں جہاں وہ پھیلتا جاتا وہاں اس کو جمانے اور مضبوط ومستحکم کرنے کی کوشش بھی ساتھ ساتھ کرتی جاتی۔ بالکل ایک غیر منظم طریقے سے کہیں کوئی صاحبِ علم آ گیا جس کے اثر سے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے، کہیں کوئی تاجر پہنچ گیا جس کے ساتھ ربط ضبط رکھنے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے کلمہ پڑھ لیا اورکہیں کوئی نیک نفس اور خدا رسیدہ بزرگ تشریف لے آئے جن کے بلند اخلاق اور پاکیزہ زندگی کو دیکھ کر بہت سے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے مگر نہ تو ان متفرق افراد کے پاس ایسے ذرائع تھے کہ جن لوگوں کو وہ مسلمان کرتے جاتے ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام بھی ساتھ ساتھ کرتے چلے جاتے اور نہ وقت کی حکومتوں ہی کو اس کی کچھ فکر تھی کہ دوسرے اللّٰہ کے بندوں کی کوششوں سے جہاں جہاں اسلام پھیل رہا تھا، وہاں لوگوں کی اسلامی تعلیم وتربیت کا کوئی انتظام کر دیتیں۔
اس غفلت کی وجہ سے ہمارے عوام ابتدا سے جہالت اور جاہلیت میں مبتلا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے اگر فائدہ اٹھایا ہے، تو زیادہ تر متوسط طبقوں نے اٹھایا ہے یا پھراونچے طبقوں نے۔ عوام الناس اسلام کی تعلیمات سے بے خبر اور اس کے اصلاحی اثرات سے بڑی حد تک محروم ہی رہے۔ اسی کا نتیجہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ قبیلے کے قبیلے غیر مسلم قوموں سے نکل کر اسلام میں آئے مگر آج تک ان میں جاہلیت کی وہ بہت سی رسمیں موجود ہیں جو اسلام قبول کرنے سے پہلے ان میں پائی جاتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے خیالات تک پوری طرح نہ بدل سکے۔ ان کے اندر آج بھی وہ بہت سے مشرکانہ عقائد اور مشرکانہ اوہام موجود ہیں جو اپنے غیر مسلم آبائو اجداد کے مذہب سے انھیں وراثت میں ملے تھے۔ بڑے سے بڑا فرق جو مسلمان ہونے کے بعد ان کے اندر واقع ہوا، وہ بس یہ تھا کہ انھوں نے اپنے پچھلے معبودوں کی جگہ کچھ نئے معبود خود اسلام کی تاریخ میں سے ڈھونڈ نکالے اور پرانے اعمال کے نام بدل کر اسلامی اصطلاحات میں سے کچھ نئے نام اختیار کر لیے۔ عمل جوں کا توں رہا، صرف اس کا ظاہری روپ بدل گیا۔
اس کا ثبوت اگر آپ چاہیں تو کسی علاقے میں جا کر عوام کی مذہبی حالت کا جائزہ لیجئے اور پھر تاریخ میں تلاش کیجیے کہ اسلام کے آنے سے پہلے اس علاقے میں کون سا مذہب رائج تھا۔ آپ دیکھیں گے کہ آج بھی وہاں اس سابق مذہب سے ملتے جلتے عقائد واعمال ایک دوسری شکل میں رائج ہیں۔ مثلاً جہاں پہلے بدھ مذہب پایا جاتا تھا وہاں کسی زمانے میں بودھ کے آثار پوجے جاتے تھے۔ کہیں اس کا کوئی دانت رکھا ہوا تھا، کہیں اس کی کوئی ہڈی محفوظ تھی۔ کہیں اس کے دوسرے تبرکات کو مرکز توجہات بنا کر رکھا گیا تھا۔ آج آپ دیکھیں گے کہ اس علاقے میں وہی معاملہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مُوئے مبارک، یا آپؐ کے نقشِ قدم یا دوسرے بزرگانِ دین کے آثار متبرکہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اسی طرح آپ پرانے مسلم قبیلوں کے موجودہ رسم ورواج کا جائزہ لیں اور پھر تحقیق کریں کہ ان ہی قبیلوں کی غیر مسلم شاخوں میں کیا رسمیں رائج ہیں۔ دونوں میں آپ بہت کم فرق پائیں گے۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ پچھلی صدیوں میں جو لوگ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار رہے ہیں انھوں نے بالعموم اپنا فرض انجام دینے میں سخت کوتاہی کی ہے۔ انھوں نے اسلام پھیلانے والے بزرگوں کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔ کروڑوں آدمی اسلام کی کشش سے کھچ کھچ کر اس کے دائرے میں آئے مگر جو اسلام کے گھر کے منتظم اور متولی تھے، انھوں نے ان بندگانِ خدا کی تعلیم، تربیت، ذہنی اصلاح اور زندگی کے تزکیے کا کوئی انتظام نہ کیا۔ اس وجہ سے یہ قوم مسلمان ہو جانے کے باوجود اسلام کی برکات اور توحید کی نعمتوں سے پوری طرح بہرہ مند نہ ہو سکی اور ان نقصانات سے نہ بچ سکی، جو شرک وجاہلیت کے لازمی نتیجے ہیں۔
پھر دیکھیے کہ ان پچھلی صدیوں میں ہمارے علما کا کیا حال ہے۔ چند مقدس بزرگوں نے تو فی الواقع اس دین کی غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ جن کے اثرات پہلے بھی نافع ہوئے اور آج تک نفع بخش ثابت ہو رہے ہیں مگر عام طور پر علمائے دین جن مشاغل میں مشغول رہے وہ یہ تھے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر مناظرہ بازیاں کریں۔ چھوٹے مسائل کو بڑے مسائل بنایا اور بڑے مسائل کو مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ اختلافات کو مستقل فرقوں کی بنیاد بنایا اور فرقہ بندی کو جھگڑوں اور لڑائیوں کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا۔ معقولات کے پڑھنے پڑھانے میں عمریں گزار دیں اور قرآن وحدیث سے نہ خود ذوق رکھا نہ لوگوں میں پیدا کیا۔ فقہ میں اگر کوئی دل چسپی لی تو موشگافیوں اور جزئیات کی بحثوں کی حد تک لی۔ تفقّہ فی الدین پیدا کرنے کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ ان کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچے لوگوں کی نگاہیں خوردبین بن کر رہ گئیں۔ دور بین وجہاں بین نہ بن سکیں۔ آج یہ پوری میراث جھگڑوں اور مناظروں، اور فرقہ بندیوں اور روز افزوں فتنوں کی لہلہاتی ہوئی فصل کے ساتھ ہمارے حصے میں آئی ہے۔
صوفیا کا حال دیکھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ چند پاکیزہ ہستیوں کے سوا جنھو ںنے اسلام کے حقیقی تصوف پر خود عمل کیا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دی،باقی سب ایک ایسے تصوف کے معلم ومبلغ تھے جس میں اشراقی اور ویدانتی اور مانوی اور زردشتی فلسفوں کی آمیزش ہو چکی تھی اور جس کے طریقوں میں جوگیوں اور راہبوں اور اشراقیوں اور رواقیوں کے طریقے اس اس طرح مل جل گئے تھے کہ اسلام کے خالص عقائد واعمال سے ان کو مشکل ہی سے کوئی مناسبت رہ گئی تھی۔ خلقِ خدا ان کی طرف خدا کا راستہ پانے کے لیے رجوع کرتی تھی اور وہ ان کو دوسرے راستے بتاتے تھے۔ پھر جب اگلوں کے بعد پچھلے ان کے سجادوں پر بیٹھے تو انھوں نے میراث میں دوسری املاک کے ساتھ اپنے بزرگوں کے مرید بھی پائے اور ان سے تربیت وارشاد کے بجائے صرف نذرانوں کا تعلق باقی رکھا۔ ان حلقوں کی تمام تر کوشش پہلے بھی یہ رہی ہے اور آج بھی ہے کہ جہاں جہاں بھی ان کی پیری وپیرزادگی کا اثر پھیلا ہوا ہے وہاں دین کا صحیح علم کسی طرح نہ پہنچنے پائے۔ کیوں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ عوام الناس پر ان کی خداوندی کا طلسم اسی وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک وہ اپنے دین سے جاہل رہیں۔
اخلاقی حالت
یہ تھی ہماری مذہبی حالت جس نے انیسویں صدی میں ہم کو غلامی کی منزل تک پہنچانے میں بہت بڑا حصہ لیا تھا اور آج اس آزادی کی صبح آغاز کے میں بھی یہی حالت اپنی پوری قباحتوں کے ساتھ ہماری دامن گیر ہے۔
اب اخلاقی حیثیت سے دیکھیے توآپ کو معلوم ہو گا کہ عام طور پر اُس زمانے میں ہمارا طبقۂ متوسط، جوہر قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، مسلسل اخلاقی انحطاط کی بدولت بالکل بھاڑے کاٹٹو(Mercenary) بن کر رہ گیا تھا۔ اس کا اصول یہ تھا کہ جو بھی آ جائے، اجرت پر اس کی خدمات حاصل کر لے اور پھر جس مقصد کے لیے چاہے اس سے کام لے لے۔ ہزاروں لاکھوں آدمی ہمارے ہاں کرائے کے سپاہی بننے کے لیے تیار تھے جنھیں ہر ایک نوکر رکھ کر جس کے خلاف چاہتا لڑوا سکتا تھا اور ہزاروں، لاکھوں ایسے لوگ بھی موجود تھے جن کے ہاتھ اور دماغ کی طاقتوں کو کم یا زیادہ اجرت پر لے کر ہر فاتح اپنا نظم ونسق چلوا سکتا تھا؟ بلکہ اپنی سیاسی چالبازیوں تک میں استعمال کر سکتا تھا۔ ہماری اس اخلاقی کم زوری سے ہمارے ہر دشمن نے فائدہ اٹھایا ہے۔ خواہ وہ مرہٹے ہوں، فرانسیسی ہوں یا ولندیزی اور آخر کار انگریز نے آ کر خود ہمارے ہی سپاہیوں کی تلوار سے ہم کو فتح کیا اور ہمارے ہی ہاتھوں اور دماغوں کی مدد سے ہم پر حکومت کی، ہماری اخلاقی حس اس درجہ کند ہو چکی تھی کہ اس روش کی قباحت سمجھنا تو درکنار، ہمیں الٹا اس پر فخر تھا۔ چنانچہ ہمارا شاعر اسے اپنے خاندانی مفاخر میں شمار کرتا ہے کہ ؎
سو پُشت سے ہے پیشۂ آبائ سپاہ گری
حالانکہ کسی شخص کا پیشہ ور سپاہی ہونا حقیقت میں اس کے اور اس سے تعلق رکھنے والوں کے لیے باعثِ ننگ ہے نہ کہ باعثِ عزت، وہ آدمی ہی کیا ہوا جو نہ حق اور باطل کی تمیز رکھتا ہو نہ اپنے اور پرائے کا امتیاز۔ جو بھی اس کے پیٹ کو روٹی اور تن کو کپڑا دے دے وہ اس کے لیے شکار مارنے پر آمادہ ہو جائے اور کچھ نہ دیکھے کہ میں کس کے لیے کس پر جھپٹ رہا ہوں۔ یہ اخلاقی حالت جن لوگوں کی تھی ان میں کسی دیانت وامانت اور کسی مستقل وفاداری کا پایا جانا مستبعد تھا اور ہونا چاہیے۔ جب وہ اپنی قوم کے دشمنوں کے ہاتھ خود اپنے آپ کو بیچ سکتے تھے تو ان کے اندر کسی پاکیزہ اور طاقت ور ضمیر کے موجود ہونے کی آخر وجہ ہی کیا ہو سکتی تھی؟ کیوں وہ رشوت اور غبن کا نام ’’دستِ غیب‘‘ اور ’’خدا کا فضل‘‘ نہ رکھتے؟ کیوں وہ ابن الوقت اور چڑھتے سورج کے پرستار نہ ہوتے؟ اور کیوں ان میں یہ وصف پیدا نہ ہوتا کہ جس کے ہاتھ سے انھیں تنخواہ ملتی ہو اس کے لیے اپنے ایمان وضمیر کے خلاف سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوجائیں؟…اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملازمت پیشہ طبقے کی اکثریت آج جن اوصاف کا اظہار کر رہی ہے وہ کوئی اتفاقی کم زوری نہیں جو اچانک ان میں پیدا ہو گئی ہو، بلکہ اس کی جڑیں ہماری روایات میں گہری جمی ہوئی ہیں البتہ افسوس اگر ہے تو اس بات کا ہے کہ کل ان سے ہمارے دشمن ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے اور آج ان کو ہماری قوم کے وہ راہ نما استعمال کر رہے ہیں جنھیں درحقیقت قوم کے امراض کا معالج ہونا چاہیے تھا نہ کہ ان امراض سے فائدہ اٹھانے والا!
ہمارے طبقۂ متوسط کی ان کم زوریوں میں ہمارے علما بھی شریک تھے۔ اگرچہ ایک قلیل تعداد جس طرح طبقۂ متوسط میں بلند اخلاق اور مضبوط سیرت لوگوں کی موجود تھی، اسی طرح علما میں بھی کچھ ایسی مقدس شخصیتیں موجود رہیں، جنھوں نے اپنے فرض کو ٹھیک ٹھیک پہچانا اور اپنی جانیں لڑا کر اسے ادا کیا اور دنیا کی کوئی دولت ان کو نہ خرید سکی۔ مگر عام طور پر جو اخلاقی حالت طبقۂ متوسط کی تھی وہی علما کی بھی تھی۔ ان میں بیشتر وظیفہ خوار تھے۔ کسی نہ کسی بادشاہ یا امیر یا درباری سے وابستہ ہو جانا، اس کے وظیفے کھا کر اس کے منشا کے مطابق دین اور دینی قوانین کی تعبیریں کرنا، اپنے ذاتی مفاد کو دین کے تقاضوں پر مقدم رکھنا، اپنے مخدوموں کی خاطر علمائے حق کو دبانے کے لیے مذہب کے ہتھیاراستعمال کرنا، بس یہی کچھ ان کا شعار رہا۔ یہ مچھر کو چھانتے اور اونٹ نگلتے رہے ہیں۔ بے اثر اور بے دولت لوگوں کے معاملے میں تو ان کی دینی حس اتنی تیز رہی ہے کہ مستحبات اور مکروہات اور چھوٹے سے چھوٹے جزئیات تک میں یہ ان کو معاف کرنے پر کبھی تیار نہ ہوئے اور ان امور کی خاطر انھوں نے بڑے بڑے جھگڑے برپا کر دیے۔ مگر اہلِ دولت اور اربابِ اقتدار کے معاملے میں خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر، یہ ہمہ تن مصالحت بنے رہے اور جزئیات چھوڑ کر کلیات تک میں انھوں نے ان کے لیے رخصتیں نکالیں۔
رہے ہمارے امرا تو ان کے لیے دنیا میں صرف دو ہی چیزیں دل چسپی کا مرکز رہ گئی تھیں۔ ایک پیٹ، دوسرے شرمگاہ، ان کے سوا کسی دوسری چیز کی ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہ رہی تھی۔ ساری کوششیں اور ساری محنتیں بس ان ہی کی خدمت کے لیے وقف تھیں اور قوم کی دولت سے ان ہی پیشوں اور صنعتوں اور حرفتوں کو پروان چڑھایا جا رہا تھا، جوان دو چیزوں کی خدمت کریں۔ اس سے ہٹ کر اگر کسی امیر نے اپنی دولت وطاقت کو کسی بڑے مقصد کے لیے استعما ل کیا تو سارے امیروں نے مل کر اسے گرانے کی کوشش کی اور اپنی قوم کے دشمنوں سے اس کے خلاف ساز باز کرنے میں بھی تامل نہ کیا۔
ذہنی حالت
اس کے بعد جب ذہنی حیثیت سے ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی صدیوں سے ہمارے ہاں علمی تحقیقات کا کام قریب قریب بند تھا۔ ہمارا سارا پڑھنا پڑھانا بس علومِ اوائل تک محدود تھا۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں یہ تصور گہری جڑوں کے ساتھ جم گیا تھا کہ اسلاف جو کام کر گئے ہیں وہ علم وتحقیق کا حرفِ آخر ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ بڑی سے بڑی علمی خدمت بس یہی ہو سکتی تھی کہ اگلوں کی لکھی ہوئی کتابوں پر شرحوں اور حاشیوں کے ردّے چڑھائے جائیں۔ ان ہی چیزوں کے لکھنے میں ہمارے مصنفین، اور ان کے پڑھنے پڑھانے میں ہمارے مدرّسین مشغول رہے۔ کسی نئی فکر ، کسی نئی تحقیق، کسی نئی دریافت کا مشکل ہی سے قریب کی ان صدیوں میں ہمارے ہاں کہیں پتہ چلتا ہے؟ اس کی وجہ سے ایک مکمل جمود کی سی کیفیت ہماری ذہنی فضا پر طاری ہو چکی تھی۔
ظاہر ہے کہ جو قوم اس حالت میں مبتلا ہو چکی ہو وہ زیادہ دیر تک آزاد نہیں رہ سکتی تھی، اس کو لامحالہ کسی نہ کسی ایسی قوم سے مغلوب ہو ہی جانا تھا، جو حرکت کرنے والی اور آگے بڑھنے والی ہو، جس نے اپنے عام لوگوں میں بیداری پیدا کر لی ہو، جس کے افراد میں اپنے فرائض کا، جو کچھ بھی وہ اپنے فرائض سمجھتے ہوں احساس پایا جاتا ہو، جس کے کارکنوں اور کارفرمائوں میں کوئی مستقل اور مخلصانہ وفاداری موجود ہو، جس کے اہل علم تحقیقات کرنے والے اور نئی نئی طاقتیں دریافت کرنے والے ہوں، جس سے اہلِ تدبیران نئی دریافت شدہ طاقتوں کو زندگی کے کاموں میں استعمال کرنے والے ہوں اور جس کا قدم تمدن وتہذیب کے مختلف شعبوں میں ترقی کی طرف مسلسل بڑھا چلا جا رہا ہو، ایسی کسی قوم کی موجودگی میں ایک جامد اور ایک ضعیف الاخلاق اورایک جاہلیت زدہ قوم آخر کتنی دیر زمین پر قابض رہ سکتی تھی؟ پس یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ قانونِ فطرت کا تقاضا تھا کہ ہم مغرب کی ترقی یافتہ قوموں میں سے ایک کے غلام ہو کر رہے۔
مغربی تہذیب کی بنیادیں
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ قوم جو مغرب سے آ کر ہم پر مسلّط ہوئی، جس کی طاقت سے ہم مغلوب ہوئے اور جس کی غلامی کا جُوا ہماری گردن پر رکھا گیا، وہ اپنے ساتھ کیا کچھ لائی تھی، اس کے نظریات کیا تھے؟ اس کا مذہب اور اس کا فلسفہ کیا تھا؟ اس کے اخلاقی اصول کیا تھے؟ اس کے تمدنی وتہذیبی رنگ ڈھنگ کیا تھے؟ اس کی سیاست کن بنیادوں پر مبنی تھی؟ اور اس کی ان سب چیزوں نے ہمیں کس کس طرح کتنا کتنا متاثر کیا؟
مذہب
جن صدیوں میں ہم مسلسل انحطاط کی طرف جا رہے تھے، ٹھیک وہی صدیاں تھیں، جن میں یورپ نشاۃ جدیدہ کی ایک نئی تحریک کے سہارے ابھر رہا تھا۔ اس تحریک کا آغاز ہی میں دور متوسط کے عیسائی مذہب سے تصادم ہو گیا اور یہ تصادم ایک ایسے افسوسناک نتیجے پر ختم ہوا جو نہ صرف یورپ کے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے غارت گر ثابت ہوا۔ پرانے زمانے کے عیسائی متکلمین نے اپنے مذہبی عقائد کی اور بائیبل کے تصور کائنات وانسان کی پوری عمارت یونانی فلسفہ وسائنس کے نظریات، دلائل اور معلومات پر تعمیر کر رکھی تھی اور اُن کا گمان یہ تھا کہ ان بنیادوں میں سے کسی کو اگر ذرا سی ٹھیس بھی لگ گئی تو یہ پوری عمارت دھڑام سے زمین پرآ رہے گی اور اس کے ساتھ مذہب بھی ختم ہو جائے گا۔ اس لیے وہ نہ کسی ایسی تنقید وتحقیق کو گوارا کرنے کے لیے تیار تھے جو یونانی فلسفہ وسائنس کے مسلمان کو مشتبہ بناتی ہو، نہ کسی ایسے فلسفیانہ تفکر کو برداشت کر سکتے تھے، جو ان مسلمات سے ہٹ کر کوئی دوسری ایسی فکر پیش کرتی ہو، جس کی وجہ سے اہل کلیسا کو اپنے علمِ کلام پرنظر ثانی کرنی پڑ جائے اور نہ کسی ایسی علمی تحقیقات کی اجازت دے سکتے تھے جس سے کائنات وانسان کے بارے میں بائیبل کی دی ہوئی اور متکلمین کی مانی ہوئی تصویر کا کوئی جز غلط ثابت ہوجائے اس طرح کی ہر چیز کو وہ مذہب کے لیے اور مذہب پر بنے ہوئے پورے نظامِ تمدن وسیاست ومعیشت کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس جو لوگ نشاۃ جدیدہ کی تحریک اور اس کے محرکات کے زیر اثر تنقید، تحقیق اور دریافت کا کام کر رہے تھے، انھیں قدم قدم پر اس فلسفہ وسائنس کی کم زوریاں معلوم ہو رہی تھیں جن کے سہارے عقائد وکلام کا یہ پورا نظام کھڑا ہوا تھا۔ مگر وہ جوں جوں اس میدان میں آگے بڑھتے تھے، اہل کلیسا اپنے مذہبی اور سیاسی اقتدار کے بل بوتے پر روز بروز زیادہ سختی کے ساتھ ان کی راہ روکنے کی کوشش کرتے تھے۔ آنکھوں کو پچھلے زمانے کی مانی ہوئی حقیقتوں کے خلاف بہت سی چیزیں روز روشن میں نظر آ رہی تھیں۔ مگر اہلِ کلیسا کو اصرار تھا کہ ان مسلمات پر نظر ثانی کرنے کے بجائے دیکھنے والی آنکھیں پھوڑ دی جائیں۔ دماغوں کو بہت سے ان نظریات میں جھول محسوس ہو رہا تھا جن کو پہلے بعض عقائد کی اٹل دلیل سمجھا گیا تھا مگر اہلِ کلیسا کہتے تھے کہ ان دلائل پر غور مکرّر کرنے کے بجائے ان دماغوں کو پاش پاش کر دینا چاہیے جو ایسی باتیں سوچتے ہیں۔
اس کش مکش کا پہلا نتیجہ یہ ہوا کہ جدید علمی بیداری میں اول روز ہی سے مذھب اور اہلِ مذھب کے خلاف ایک ضد سی پیدا ہو گئی اور جُوں جُوں اہل مذھب کی سختیاں بڑھتی گئیں، یہ ضد بھی بڑھتی اور پھیلتی چلی گئی۔ یہ ضد صرف مسیحیت اور اس کے کلیسا ہی تک محدود نہ رہی بلکہ مذھب فی نفسہٖ اس کا ہدف بن گیا۔ علومِ جدیدہ اور تہذیب جدید کے علم برداروں نے یہ سمجھ لیا کہ مذھب بجائے خود ایک ڈھونگ ہے۔ وہ کسی عقلی امتحان کی ضرب نہیں سہہ سکتا، اس کے عقائد دلیل پرنہیں بلکہ اندھے اذہان پر مبنی ہیں۔ علم کی روشنی بڑھنے سے وہ ڈرتا ہے کہ کہیں اس کا پول نہ کھل جائے۔
پھر جب علم کے میدان سے آگے بڑھ کر سیاست اور معیشت اورنظام اجتماعی کے مختلف میدانویں میں یہ کش مکش پھیلی اوراہلِ کلیسا کی حتمی شکست کے بعد تہذیب جدید کے علم برداروں کی قیادت میں ایک نئے نظامِ زندگی کی عمارت اٹھی، تو اس سے دواور نتیجے برآمد ہوئے جنھوں نے آنے والے دَور کی پوری انسانی تاریخ پر گہرا اثرڈالا۔
ایک یہ کہ نئے نظامِ زندگی کے ہر شعبے سے’’مذہب‘‘کو عملاً بے دخل کردیا گیا اور اس کا دائرہ صرف شخصی عقیدہ وعمل تک محدود کرکے رکھ دیا گیا۔ یہ بات تہذیبِ جدید کے بنیادی اصولوں میں داخل ہو گئی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم وفن غرض اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں بھی دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ وہ محض افراد کا شخصی معاملہ ہے۔ کوئی شخص اپنی انفرادی زندگی میں خدا اور پیغمبروں کو ماننا چاہے تو مانے اوران کی دی ہوئی ہدایات کی پیروی کرنا چاہے توکرتا رہے۔ مگر اجتماعی زندگی کی ساری اسکیم اس سوال سے قطع نظر کرکے بننی اور چلنی چاہیے کہ مذھب اس کے بارے میں کیا ہدایت دیتا ہے اور کیا ہدایت نہیں دیتا۔
دوسرے یہ کہ تہذیب جدید کی رگ رگ میں خدا بیزاری اور لامذہبیت کی ذہنیت پیوست ہو گئی، علوم وفنون اور ادب کا جو کچھ بھی ارتقا ہوا، اس کی جڑ میں وہ ضد برابر موجود رہی جو علمی بیداری کے آغاز میں مذہب اور اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کے خلاف پیدا ہو چکی تھی۔ اس فکری غذا سے پرورش پائی ہوئی تہذیب جہاں جہاں پہنچی وہاں اندازِ فکر یہ ہو گیا کہ مذہب جو چیز بھی پیش کرتا ہے، خواہ وہ خدا، اور آخرت اور وحی اور رسالت کا عقیدہ ہو یا کوئی اخلاقی وتمدنی اصول، بہرحال وہ شک کا مستحق ہے۔ اس کی صحت کا کوئی ثبوت ملنا چاہیے اور نہ ملے تو اس سے انکار کیا جانا چاہیے۔ اس کے برعکس ہر وہ چیز جو دنیوی علوم وفنون کے اساتذہ کی طرف سے آئے وہ مان لینے کی مستحق ہے ا لّا یہ کہ اس کے غلط ہونے کا کوئی ثبوت مل جائے۔ یہ اندازِ خیال مغرب کے پورے نظامِ فکر پر اثر انداز ہوا ہے اور اس نے صرف علم و ادب ہی کو مذہبی نقطۂ نظر سے منحرف نہیں کر دیا ہے بلکہ تمام وہ اجتماعی فلسفے اور اجتماعی نظام جو اس نظامِ فکر کی بنیاد پر بنے ہیں عملاً خدا پرستی کے تخیل سے خالی اور آخرت کے تصور سے عاری ہیں۔
فلسفۂ حیات
یہ تو تھا مذہب کے بارے میں اس آنے والی فاتح تہذیب کا رویہ، اب دیکھیے کہ اس کا اپنا فلسفۂ حیات کیا تھا جسے مذہب کی نفی کرکے اس نے اختیار کیا تھا۔
یہ سراسر ایک مادہ پرستانہ فلسفہ تھا۔ مغرب کے فکری راہ نما محسوسات سے ماورا کسی غیبی حقیقت کو ماننے کے لیے نہ تو تیار ہی تھے اور نہ وحی والہام کے سوا… جس کے وہ منکر تھے… حقائقِ غیب کو جاننے اور ٹھیک ٹھیک سمجھنے کا اور کوئی ذریعہ ہی ہو سکتا تھا۔ پھر سائنٹفک اسپرٹ اس امر میں بھی مانع تھی کہ وہ مجرد قیاسات پر غیبی طاقتوں کے متعلق کسی تصور کی عمارت کھڑی کر دیں۔ اس کی کوشش اگر کی بھی گئی تو علمی تنقید کے معاملے میں وہ نہ ٹھیر سکی۔ اس لیے غیب کے بارے میں جب وہ شک اور لاادریّت کے مقام سے آگے نہ بڑھ سکے تو ان کے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ دُنیا اور اس کی زندگی کے متعلق وہ جو رائے بھی قائم کریں، صرف حواس کے اعتماد پر کریں۔اس چیز نے ان کے پورے فلسفۂ زندگی کو ظاہر پرست بنا کر رکھ دیا۔ انھوں نے سمجھا کہ انسان ایک قسم کا حیوان ہے جو اس زمین میں پایا جاتا ہے۔ وہ نہ کسی کا تابع ہے، نہ کسی کے آگے جواب دہ۔ اس کو کہیں اوپر سے ہدایت بھی نہیں ملتی۔ اپنی ہدایت اسے خود لینی ہے اور اس ہدایت کا ماخذ اگر کوئی ہے تو وہ قوانین طبیعی ہیں، یا حیوانی زندگی کی معلومات، یا پھر خود پچھلی انسانی تاریخ کے تجربات۔ انھوں نے سمجھا کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اس کی کام یابی اور خوش حالی عین مطلوب ہے اور اسی کے اچھے اور برے نتائج مدارِ فیصلہ ہیں۔ انھوں نے سمجھا کہ انسان کی زندگی کا کوئی مقصد اپنی طبیعت کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اپنے نفس کی خواہشوں کو حاصل کرنے سوا نہیں ہے۔ انھوں نے سمجھا کہ حقیقت جو کچھ بھی ہے، ان ہی چیزوں کی ہے جن کو ناپا یا تولا جا سکے، یا جن کا وزن وقدر کسی طرح کی پیمائش قبول کر سکے۔ جو چیزیں اس نوعیت کی نہیں ہیں وہ بے حقیقت اور بے قدر ہیں۔ ان کے پیچھے پڑنا وقت ضائع کرنا ہے۔
میں یہاں ان فلسفیانہ نظاموں کا ذکر نہیں کر رہا ہوں جو مغرب میں بنے، کتابوں میں لکھے گئے اور یونی ورسٹیوں میں پڑھے پڑھائے جاتے رہے۔ میں اس تصورِ کائنات وانسان اور اس تصور حیات ودنیا کا ذکر کر رہا ہوں جسے مغربی تہذیب وتمدن نے اپنے اندر جذب کیا اور جو ایک عام مغربی کے ذہن میں، اور اس سے اثر لینے والے ایک عام انسان کے ذہن میں پیوست ہوا۔ اس کا خلاصہ وہی کچھ ہے جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے۔
اس کے علاوہ تین بڑے فلسفیانہ نظرئیے ایسے ہیں جو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں… اسی زمانے میں جبکہ ہم مغرب کے غلام رہے تھے… اٹھے اور اپنی تفصیلات سے قطع نظر، اپنی روح کے اعتبار سے پوری تہذیب پر چھا گئے۔ میں یہاں خاص طور پر ان کا ذکر کروں گا کیوں کہ انسانی زندگی پر جتنا ہمہ گیر اثر ان کا پڑا ہے، شاید کسی اورچیز کا نہیں پڑا۔
ہیگل کا فلسفۂ تاریخ
ان میں سے پہلا نظریہ وہ ہے جو ہیگل نے تاریخ انسانی کی تعبیر کے سلسلے میں پیش کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تاریخ کے ایک دَورمیں انسانی تہذیب وتمدن کا جو نظام بھی ہوتا ہے وہ اپنے تمام شعبوں اور اپنی تمام شکلوں سمیت دراصل چند مخصوص تخیلات پر مبنی ہوتا ہے جو اسے ایک دورِ تہذیب بناتے ہیں۔ یہ دور تہذیب جب پختہ ہو چکتا ہے تو اس کی کم زوریاں واضح ہونی شروع ہوتی ہیں اور اس کے مقابلے میں کچھ دوسرے تخیلات ابھرنے شروع ہوتے ہیں جو اس سے جنگ شروع کر دیتے ہیں۔ اس نزاع وکش مکش سے ایک نیا دور تہذیب جنم پاتا ہے جس میں پچھلے دورِ تہذیب کے باقیاتِ صالحات بھی رہ جاتے ہیں اور کچھ نئی خوبیاں بھی ان تخیلات کے اثر سے پیدا ہو جاتی ہیں۔ جن کی یلغار سے مجبور ہو کر پچھلے دور کے غالب تخیلات بالآخر مصالحت پر مجبور ہوئے تھے۔ پھر یہ دورِ تہذیب بھی پختگی کو پہنچ کر اپنے ہی بطن سے اپنے چند مخالف تخیلات کو جنم دیتا ہے، اور پھر نزاع وکش مکش برپا ہوتی ہے اور پھر دونوں کی مصالحت سے ایک تیسرا دَور وجود میں آتا ہے، جو پچھلے دَور کی خوبیاں اپنے اندر باقی رکھتا ہے اور ان کے ساتھ نئے تخیلات کی لائی ہوئی خوبیاں بھی جذب کر لیتا ہے۔
اس طرح ہیگل نے انسانی تہذیب کے ارتقا کی جو تشریح کی اس سے عام طور پر ذہنوں نے یہ اثر قبول کر لیا کہ پچھلا ہر دَورِ تہذیب اپنے اپنے وقت پر اپنی خامیوں اور کم زوریوں کی وجہ سے ختم ہوا ہے اور اپنی خوبیاں ہر بعد کے دورِ تہذیب میں چھوڑ گیا ہے۔ بالفاظ دیگر اب جس دور تہذیب سے آپ گزر رہے ہیں، وہ گویا خلاصہ ہے ان تمام اجزائے صالحہ کا جو پہلے گزرے ہوئے ادوارِ تہذیب میں پائے جاتے تھے۔ آگے اگر کسی ترقی کا امکان ہے تو ان نئے تخیلات میں ہے جو اس دَورِ تہذیب کے بنیادی تخیلات سے جنگ کرنے کے لیے اٹھیں۔ پچھلے ادوار میں کوئی چیز ایسی موجود نہیں ہے جس سے ہدایت وراہ نمائی حاصل کرنے کے لیے اب پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہو۔ کیوں کہ ان کے جو اجزا بعد کے ادوارِ تہذیب میں جذب نہیں ہوئے ان کو آزما کر اور ناقص پا کر انسانی تاریخ پہلے ہی ٹھکرا چکی ہے۔ ہمارا تاریخی ذوق ان کی کسی چیز کی اگر کوئی قدر کر سکتا ہے تو اس حیثیت سے کر سکتا ہے کہ وہ اپنے وقت میں ایک قابلِ قدر چیز رہ چکی ہے اورانسانی تہذیب کے ارتقا میں اپنے حصے کا کام انجام دے چکی ہے، مگر وہ آج اس دَور کے لیے نہ قابلِ قدر ہے نہ کسی طرح مطمح نظر بننے کی مستحق۔ اس لیے کہ تاریخ اس کے بارے میں پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکی۔
آپ ذرا غور کریں کہ درحقیقت یہ کیسا خطرناک فلسفہ ہے۔ تہذیب انسانی کی تاریخ کا یہ تصور جس شخص کے ذہن میں اتر جائے، کیا آپ توقع کر سکتے ہیں، کہ اس کے دل میں پھر ان ادوارِ تہذیب کی کچھ بھی قدروقیمت باقی رہ سکتی ہے جن میں ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم گزرے ہیں؟ کیا وہ کبھی دَورِ نبوت اور خلافتِ راشدہ کی طرف بھی ہدایت وراہ نمائی کے لیے رجوع کر سکتا ہے؟ دراصل یہ ایک ایسا مدلل اور منظم فکری حملہ ہے جس کی ضرب اگر کسی ذہن پرکاری لگ جائے تو اس میں سے دینی تخیل کی جڑ ہی کٹ کر رہ جاتی ہے۔({ FR 6493 })
ڈارون کا نظریۂ ارتقا
دوسرا فلسفہ جو انیسویں صدی میں ابھرا اور انسانی ذہنوں پر چھایا وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کا پیدا کردہ تھا۔ مجھے یہاں ان کے حیاتیاتی (biological)پہلو سے بحث نہیں ہے۔ میں اس کے صرف ان فلسفیانہ اثرات سے بحث کر رہا ہوں جو ڈارون کے طرزِ استدلال اور اس کے اخذ کردہ نتائج سے نکل کر وسیع تر اجتماعی فکر میں جذب ہوئے۔ عام انسانی ذہن نے ڈارون کے بیان سے متاثر ہو کر کائنات کا جو تصور قائم کیا تھا وہ یہ تھا کہ یہ کائنات ایک رزم گاہ ہے جہاں ہر آن ہر طرف زندگی وبقا کے لیے ایک ابدی جنگ برپا ہے۔ نظامِ فطرت ہے ہی کچھ ایسا کہ جسے زندہ اور باقی رہنا ہو، اُسے نزاع اور کش مکش اور مزاحمت کرنی پڑتی ہے اور مزاجِ فطرت واقع ہی کچھ اس طرح ہوا ہے کہ اس کی نگاہ میں وہی بقا کا مستحق ہے جو قوتِ بقا کا ثبوت دے دے۔ اس بے رحم نظام میں جو فنا ہوتا ہے وہ اس لیے فنا ہوتا ہے کہ وہ کم زور ہے اور اسے فنا ہونا ہی چاہیے اور جو باقی رہتا ہے وہ اس لیے باقی رہتا ہے کہ وہ طاقت ور ہے اور اسے باقی ہی رہنا چاہیے۔ زمین اور اس کا ماحول اور اس کے وسائلِ زندگی غرض یہاں جو کچھ بھی ہے طاقتور کا حق ہے، جس نے زندہ رہنے کی قابلیت کا ثبوت دے دیا ہو، کم زور کا ان چیزوں پر کوئی حق نہیں ہے۔ اسے طاقت ور کے لیے جگہ خالی کرنی چاہیے، اور طاقت وَر سراسر برسرِ حق ہے اگر وہ اسے مٹا کر یا ہٹا کر اس کی جگہ لیتا ہے۔
غور کیجیے، یہ تصور ِکائنات جب دماغوں میں بیٹھ جائے اورنظامِ فطرت کواس نگاہ سے دیکھا جانے لگے توانسان انسان کے لیے کیا کچھ بن کر رہے گا؟ اس فلسفۂ زندگی میں ہم دردی، مَحبّت، رحم، ایثار اور اس طرح کے دوسرے شریفانہ انسانی جذبات کے لیے کیا جگہ ہو سکتی ہے؟ اس میں عدل وانصاف، امانت ودیانت اور صداقت وراست بازی کا کیا کام؟ اس میں حق کا وہ مفہوم کہاں باقی رہتا ہے جو کبھی کم زور کو بھی پہنچ سکتا ہو، اور ظلم کے وہ معنی کب ہو سکتے ہیں جن سے کبھی طاقتور بھی گناہ گار ٹھیرایا جا سکتا ہو؟ لڑنے جھگڑنے کا کام اگرچہ پہلے بھی انسان کرتا رہا ہے مگر اسے فساد سمجھا جاتا تھا اور اب وہ عین تقاضائے فطرت ہے۔ کیوں کہ کائنات تو ہے ہی ایک میدانِ جنگ، ظلم پہلے بھی دنیا میں ہوتا تھا، مگر پہلے وہ ظلم تھا اور اب اسے ایک ایسی منطق مل گئی جس سے وہ طاقتور کا حق بن گیا۔ اس فلسفے کے بعد یورپ والوں کو ان تمام مظالم کے لیے جو انھوں نے دوسری قوموں پر ڈھائے، ایک محکم دلیل ہاتھ آ گئی۔ انھوں نے اگر امریکہ اور آسٹریلیا اور افریقہ کی پرانی نسلوں کو مٹایا اور کم زور قوموں کو اپنا غلام بنایا تو یہ گویا ان کا حق تھا جو انھوں نے عین قانونِ فطرت کے مطابق حاصل کیا، مٹنے والے مٹنے ہی کے مستحق تھے اور ان کی جگہ لینے والوں کا حق یہی تھا کہ وہ ان کی جگہ لیں۔ اس بارے میں اگر اہل مغرب کے ضمیر میں پہلے کوئی خلش تھی بھی تو ڈارون کی منطق نے اسے دلائل وشواہد سے دور کر دیا۔ سائنس میں اس نظرئیے کی حیثیت جیسی کچھ بھی ہو({ FR 6494 }) معاشرت، تمدن اور سیاست میں آ کر تو اس نے انسان کو انسان کے لیے بھیڑیا بنا کر رکھ دیا۔
مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ
اسی کا ہم جنس ایک اور فلسفہ تھا جو ڈارون ہی کے زمانے میں مارکس کی مادی تعبیر تاریخ کے بطن سے نکلا۔ اس کی تفصیلات اور اس کے دلائل سے میں یہاں کوئی بحث نہیں کروں گا اور نہ اس کی علمی حیثیت پر کوئی تنقید ہی کروں ({ FR 6495 }) گا۔ میں یہاں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی ذہن کو اس نے بھی حیاتِ دنیا کا وہی تصور دیا جو پہلے ہیگل نے فکر کی دنیا کو رزم گاہ بنا کر پیش کیا تھا۔ ڈارون نے کائنات اور نظامِ فطرت کو میدانِ جنگ بنا کر دکھایا اور مارکس نے وہی تصویر انسانی معاشرے کی بنا کر دکھا دی۔ اس تصویر میں انسان ہم کو شروع سے لڑتا جھگڑتا نظر آتا ہے۔ اس کی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی اغراض اور اپنے مفاد کے لیے اپنے ہم جنسوں سے لڑے۔ وہ سراسر خود غرضی کی بنیاد پر ان طبقوں میں کش مکش اور نزاع برپا کر رہی ہے اور انسانی تاریخ کا سارا ارتقا اسی خود غرضانہ طبقاتی کش مکش کی بدولت ہوا ہے۔ قوموں اور قوموں کی لڑائی تو درکنار خود ایک ہی قوم کے مختلف طبقوں کی لڑائی بھی اس تصور میں ہم کو سراسر ایک تقاضائے فطرت نظر آتی ہے۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اور انسان کے درمیان اگر کوئی رشتہ ہے تو وہ صرف اغراض ومفاد کے اشتراک کا رشتہ ہے۔ ان رشتہ داروں سے ملنا اور متفق ہو کر ان سب لوگوں سے لڑنا جن سے آدمی کی معاشی اغراض متصادم ہوں… خواہ وہ اپنے ہی ہم قوم اور ہم مذہب کیوں نہ ہوں… سراسر حق ہے اور اس حرکت کا ارتکاب نہیں، بلکہ اس سے اجتناب خلافِ فطرت ہے۔
اَخلاق
یہ تھے وہ فلسفے اور وہ عقائد وافکار جو فاتح تہذیب کے ساتھ آئے اور ہم پر مسلط ہوئے۔ اب دیکھیے کہ اخلاق کے معاملے میں ان آنے والوں کے ساتھ کس قسم کے نظریات اور عملیات یہاں درآمد ہوئے۔
خدا اور آخرت کو نظر انداز کر دینے کے بعد ظاہر ہے کہ اخلاق کے لیے مادی قدروں کے سوا کوئی قدر، اورتجربی بنیادوں کے سوا کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی۔ اس معاملے میں اگر کوئی شخص چاہے کہ وہ قدریں جو مذہب نے دی تھیں، مذہب کے سوا کسی دوسری بنیاد پر قائم رہیں، تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے اہل مغرب میں سے جن لوگوں نے اس کی کوشش کی وہ ناکام ہوئے۔ بے دینی اور انکارِ آخرت کی فضا میں فی الواقع جس فلسفۂ اخلاق کو فروغ نصیب ہوا، اور عملاً اہل مغرب کی زندگی میں جس نے رواج پایا، وہ تھا خالص افادیت (utilitarianism) کا فلسفہ جس کے ساتھ لذتیت (epicureanism) کے ایک سادہ سے مادہ پرستانہ خلاصے کی آمیزش ہو گئی تھی۔ اسی پر مغرب کے پورے تمدن اور مغربی زندگی کے پورے طرزِ عمل کی بِنا رکھی گئی۔ کتابوں میں افادیّت اور لذتیت کی جو تشریحات لکھی گئی ہیں، وہ چاہے جو کچھ بھی ہوں، مگر مغربی تہذیب اور سیرت وکردار میں اس کا جو جوہر جذب ہو اور وہ یہ تھا کہ قابلِ قدر اگر کوئی چیز ہے تو صرف وہ جس کا کوئی فائدہ میری ذات کو پہنچتا ہو، یا ’’میری ذات‘‘ کے تصور میں کچھ وسعت پیدا ہو جائے تو میری قوم کو پہنچتا ہو اور فائدے سے مراد ہے دنیوی فائدہ… کوئی راحت، کوئی لذت یا کوئی مادی منفعت۔ جس چیز سے اس طرح کا کوئی فائدہ میری طرف آئے یا میری قوم کی طرف آئے وہ نیکی ہے، قابل قدر ہے، مطلوب ومقصود ہے، اور وہی اس لائق ہے کہ اس کے پیچھے ساری کوششیں صرف کی جائیں اور جو ایسی نہیں ہے جس کا کوئی محسوس یا قابلِ پیمائش فائدہ اس دنیا میں مجھے یا میری قوم کو حاصل نہیں ہوتا وہ کسی توجہ کے لائق نہیں ہے اور اس کے برعکس جو چیز دنیوی حیثیت سے نقصان دہ ہے وہ دنیوی فائدوں اور لذتوں سے محروم کرنے والی ہے، وہی بدی اور وہی گناہ ہے۔ اس سے اجتناب لازم ہے۔
اس اخلاق میں خیروشر کا کوئی مستقل معیار نہیں ہے۔ کردار کے حسن وقبح کے لیے کوئی مستقل اصول نہیں ہے۔ ہر چیز اضافی اورعارضی ہے۔ ذاتی یا قومی منفعت کے لیے ہر اصول بنایا اور توڑا جا سکتا ہے۔ فائدوں اور لذتوں کو ہر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آج جو کچھ خیر ہے وہ کل شر ہو سکتا ہے، اور آج جو خیر ہے وہ کل شر قرار پا سکتا ہے۔ ایک کے لیے حق وباطل کا معیار اور ہے اور دوسرے کے لیے اور۔ حلال اور حرام کی کوئی مستقل تمیز جس کا ہر حال میں لحاظ رکھا جائے اور حق وباطل کا کوئی ابدی فرق جو کسی حال میں نہ بدلے ایک دقیانوسی تصور ہے جسے ترقی کے قدم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔
سیاست
یہ تھے وہ اخلاقیات جو فاتحانہ رعب داب کے ساتھ آئے اور ہم پر حکم ران ہوئے۔ اب اس سیاسی نظام کو لیجئے جو یہاں قائم کیا گیا اور مغربی آقائوں کی راہ نمائی میں پروان چڑھا۔ اس کی بنیاد تین اصولوں پر قائم کی گئی تھی۔ ایک سیکولرزم یعنی لادینی۔ دوسرے نیشنلزم، یعنی قوم پرستی، تیسرے ڈیموکریسی، یعنی حاکمیتِ جمہور۔
پہلے اصول کا مطلب یہ تھا کہ مذہب اور اس کے خدا اور اس کی تعلیمات کا کوئی تعلق سیاسی واجتماعی معاملات سے نہیں ہے۔ اہلِ دنیا اپنی دنیا کے معاملات خود اپنی صواب دید کے مطابق چلانے کے مختار ہیں۔ جس طرح چاہیں چلائیں اور انھیں چلانے کے لیے جو اصول، قوانین، نظرئیے اور طریقے چاہیں بنائیں۔ خدا کو نہ ان معاملات میں بولنے کا کوئی حق، اور نہ ہمیں، اس سے یہ پوچھنے کی ضرورت کہ وہ کیا پسند کرتا ہے اورکیا پسند نہیں کرتا۔ البتہ اگر کوئی بڑی مصیبت کبھی ہم پر ٹوٹ پڑے تو یہ بات سیکولرزم کے خلاف نہیں ہے کہ ایسے وقت میں خد ا کو مدد کے لیے پکارا جائے اوراس صورت میں خدا پر فرض عاید ہو جاتا ہے کہ ہماری مدد کو آئے۔
دوسرے اصول کا مطلب یہ تھا کہ جس مقام سے خدا کو ہٹایا گیا ہے وہاں قوم کو لا بٹھایا جائے۔ قوم ہی معبود ہو، قوم ہی کا مفاد معیار خیر وشر ہو، قوم ہی کی ترقی اور اس کا وقار اور دوسروں پر اس کا غلبہ مطلوب ومقصود ہو اور افراد کی ہر قربانی قوم کے لیے جائز بھی ہو اور واجب بھی، اس کے ساتھ ’’قومیت‘‘ کا جو تصور ہمارے بیرونی آقائوں نے یہاں درآمد کیا وہ غیر مذہبی، وطنی قومیت کا تصور تھا جس کے ساتھ مل کر قوم پرستی کا مسلک کم از کم ہمارے لیے تو کریلا اور نیم چڑھا ہو گیا۔ کیوں کہ جس ملک کی آبادی کا ۴/۳ حصہ غیر مسلم ہو اس میں ’’وطنی قومیت‘‘ کی بنیاد پر مذہب ِ قوم پرستی کا رواج صریح طور پر یہ معنی رکھتا تھا کہ یا تو ہم سیدھی طرح ہی نہیں بلکہ پُرجوش طریقے سے نامسلمان بنیں، یا پھر مذہب قوم پرستی کی رُو سے کافر (یعنی غدار وطن) قرار پائیں۔
تیسرے اصول کا مطلب یہ تھا کہ قومی ریاست میں جس مقام سے مذہب کو بے دخل کیا گیا ہے وہاں جمہورِ قوم، یعنی اکثریت کی رائے کو اس کا جانشین بنایا جائے۔ اکثریت مذہب سے قطع نظر کرتے ہوئے جسے حق کہے وہ حق اور جسے باطل کہے وہ باطل۔ اکثریت ہی کے بنائے ہوئے اصول اور قوانین اور ضوابط قوم کا دین ہوں اور اکثریت ہی اس دین میں ردوبدل کی مختار ہو۔
فاتح تہذیب کے اثرات
یہ سیاست تھی، یہ اخلاقیات تھے، یہ فلسفے تھے اور مذہب کے بارے میں یہ خیالات تھے ان لوگوں کے جو ہماری تاریخ کے منحوس مرحلے میں باہر سے آ کر ہم پر غالب ہوئے۔ ہم اس وقت جن کم زوریوں میں مبتلا تھے وہ آپ پہلے سن چکے ہیں اور یہ لوگ جو تہذیب لائے تھے وہ یہ تھی جس کی تصویر ابھی آپ نے ملاحظہ فرما لی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تہذیب یہاں اس حیثیت سے نہیں آئی تھی کہ کچھ مسافر یا کچھ سیاح اسے لائے تھے۔ یہ ان لوگوں کی تہذیب تھی جو یہاں حکم ران بن کر آئے تھے۔ جن کو یہاں کی پوری زندگی پر وہ تسلط حاصل ہوا تھا جو اُن سے پہلے کبھی اس ملک کی کسی حکومت کو نصیب نہ ہوا تھا۔ جن کا وہ رعب… ذہنی اورمادی دونوں طرح کا رعب… یہاں کی آبادی پر پڑا تھا جو شاید پہلے کسی حکم ران گروہ کا نہ پڑا تھا۔ جن کے قبضے میں نشرواشاعت اور تعلیم کے وسیع ذرائع بھی تھے۔ قانون اور عدالت کے کارگر ہتھیار بھی تھے اور اس کے ساتھ معاش کے وسائل کو بھی ان کے اقتدار نے پوری طرح گرفت میں لے رکھا تھا۔ اس لیے ان کی تہذیب نے ہم پر ایسا ہمہ گیر اثر ڈالا جس کی گہرائی سے ہماری زندگی کا کوئی شعبہ نہ بچا۔
تعلیم کا اثر
انھوں نے اپنی تعلیم ہم پر مسلط کی، اور اس طرح مسلط کی کہ رزق کی کنجیاں ہی لے کر اپنی تعلیم گاہوں کے دروازوں پر لٹکا دیں، جس کے معنی یہ تھے کہ اب یہاں رزق وہی پائے گا جو یہ تعلیم حاصل کرے گا۔ اس دبائو میں آ کر ہماری ہر نسل کے بعد دوسری نسل پہلے سے بڑھ چڑھ کر ان تعلیم گاہوں کی طرف گئی اور وہاں وہ سارے ہی نظریات اور عملیات سیکھے، جن کی روح اور شکل بالکل ہماری تہذیب کی ضد تھی۔ اگرچہ کھلا کافر تو وہ ہم میں سے ایک فی لاکھ کو بھی نہ بنا سکے مگر فکر ونظر اور ذوق ووجدان اور سیرت وکردار میں ٹھیٹھ مسلمان انھوں نے شاید ۲ فیصدی کو بھی نہ رہنے دیا۔ یہ سب سے بڑا نقصان تھا جو انھوں نے ہم کو پہنچایا کیوں کہ اس نے ہمارے دلوں اور دماغوں میں ہماری تہذیب کی جڑوں ہی کو خشک کر دیا اور ایک دوسری مخالف تہذیب کی جڑیں ان میں پیوست کر دیں۔
معاشی نظام کا اثر
انھوں نے اپنا معاشی نظام اپنے معاشی فلسفے اورنظریات سمیت ہم پر مسلّط کیا اور اس طرح مسلّط کیا کہ رزق کے دروازے بس اسی شخص کے لیے کھل سکتے تھے جو اس معاشی نظام کے اصول اختیار کرے۔ اس چیز نے پہلے ہم کو حرام خور بنایا۔ پھر رفتہ رفتہ ہمارے ذہنوں سے حرام وحلال کی تمیز مٹائی اور پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم میں سے ایک کثیر تعداد کو اسلام کی ان تعلیمات پر اعتقاد نہ رہا جو اُن بہت سے طریقوں کو حرام قرار دیتی تھیں۔ جنھیں مغرب کے قائم کیے ہوئے معاشی نظام نے حلال ٹھیرا رکھا ہے۔
قانون کا اثر
انھوں نے اپنے قوانین ہم پر مسلّط کیے اور ان سے صرف عملاً ہی ہمارے نظام تمدن و معاشرت کی شکل وصورت کو تبدیل نہ کیا بلکہ ہمارے اجتماعی تصورات اور ہمارے قانونی نظریات کو بھی بہت کچھ بدل ڈالا۔ جو شخص قانون کے متعلق کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ اخلاق اور معاشرے سے اس کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ انسان جب کبھی کوئی قانون بناتا ہے اس کے پیچھے لازماً اخلاق اور معاشرت اور تمدن کا کوئی خاص نقشہ ہوتا ہے جس پر وہ انسانی زندگی کو ڈھالنا چاہتا ہے۔ اسی طرح جب وہ کسی قانون کو منسوخ کرتا ہے تو گویا اس اخلاقی نظرئیے اور اس تمدنی فلسفے کو منسوخ کرتا ہے، جس پر پچھلا قانون مبنی تھا اور زندگی کے اس نقشے کو بدلتا ہے جو اس قانون سے بنا تھا۔ پس جب ہمارے انگریز حکم رانوں نے یہاں آ کر ان تمام شرعی قوانین کو منسوخ کیا جو اس ملک میں رائج تھے اور ان کی جگہ اپنے قوانین نافذ کیے، تو اس کے معنی صرف اسی قدر نہ تھے کہ ایک قانون کی جگہ دوسرا قانون جاری ہوا بلکہ اس کے معنی یہ تھے کہ نظامِ اخلاق اور نظامِ تمدن پر خط نسخ پھیرا گیا اور اس کی جگہ دوسرے نظامِ اخلاق وتمدن کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس تغیّر وتبدّ ل کو مستحکم کرنے کے لیے انھوں نے یہاں کے لا کالجوں میں اپنی قانونی تعلیم رائج کی جس نے دماغوں میں یہ خیال بٹھا دیا کہ پچھلا قانون ایک دقیانوسی قانون تھا، جو زمانۂ جدید کی ایک سوسائٹی کے لیے کسی طرح موزوں نہیں، اور یہ نیا طرزِ قانون سازی اپنے اصول ونظریات سمیت، زیادہ صحیح اور زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے ہمارے اس بنیادی عقیدے تک کو متزلزل کر دیا کہ قانون سازی کے اختیارات اللّٰہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں۔ اس کے بجائے انھوں نے یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کی کہ اللّٰہ کو اس معاملے سے کچھ سروکار نہیں، یہ لیجسلیچر (پارلیمنٹ) کا کام ہے کہ جو کچھ چاہے، فرض، واجب یا حلال ٹھیرائے، اور جو کچھ چاہے، جرم یا حرام کر دے۔ پھر ان نئے قوانین نے جس طرح ہمارے اخلاق وتمدن پر اثر ڈالا، اس کا اندازہ کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ یہی قوانین تھے جنھوں نے زنا اور قمار اور شراب اور بہت سے بیوعِ فاسدہ کو حلال کیا، جن کی حمایت وحفاظت میں طرح طرح کے فواحش اور معاصی نے یہاں رواج پایا اور جن کی حمایت سے محروم ہو کر بہت سی وہ بھلائیاں بھی مٹتی چلی گئیں جو دورِ انحطاط تک میں ہمارے اندر بچی رہ گئی تھیں۔ مگر حالات نے ہماری دینی حس کو ایسا کُند کرکے رکھ دیا کہ ہمارے بڑے بڑے صلحا واتقیا تک کو اس قانونی نظام کے تحت کسی مسلمان کے وکیل اور جج بننے میں مضائقہ نظر نہ آیا بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جنھوں نے اس کے مقابلے میں الحکم للہ کے اصول کوتازہ کرنا چاہا وہ ہمارے ہاں خارجی قرار پائے۔
اخلاق ومعاشرت کا اثر
انھوں نے اپنے اخلاقی مفاسد اور معاشرتی طور طریقے ہم پر مسلط کیے اور اس طرح مسلّط کیے کہ ان کے ہاں تقرب کا مقام اور تقدم کا شرف ان لوگوں کے لیے مخصوص رہا جواخلاق میں ان سے قریب تر اور معاشرت میں ان کے ہم رنگ ہوں۔ یہی چیز اثر ورسوخ اور معاشی خوش حالی اور مادی ترقی کی ضامن تھی۔ اس لیے رفتہ رفتہ ہمارے اونچے طبقے، اور ان کے پیچھے متوسط طبقے اس رنگ میں رنگتے چلے گئے اور آخر میں تصاویر، سینما ، ریڈیو، اور سربرآوردہ لوگوں کی زندہ مثالوں نے یہ وبا عوام تک بھی پھیلانی شروع کر دی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک صدی کے اندر ہم پھسلتے پھسلتے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمارے ہاں مخلوط تعلیم کا رواج گوارا کیا جا رہا ہے۔ اچھے اچھے گھرانوں کی خواتین رقص اور مے نوشی میں مبتلا ہو رہی ہیں، شریف زادیاں ایکٹرسیں بن کر وہ بے حیائی دکھا رہی ہیں جس کے لیے کبھی ہمارے ہاں کی طوائف بھی تیار نہ تھی اور ہزاروں کے مجمعے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو پریڈیں کرتے دیکھتے ہیں اور ان کو دادِ تحسین دیتے ہیں۔ اب وہ منزل کچھ دور نہیں ہے جہاں پہنچ کر اہل مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی یہ سوال اٹھے گا کہ کنواری ماں اور حرامی بچے میں آخر عیب کیا ہے؟ کیوں نہ معاشرے میں انھیں بھی مادرِ منکوحہ اور بچۂ حلال کی طرح عزت کا مقام دیا جائے؟ مغرب بھی اس مقام پر ایک دن میں نہ پہنچا تھا۔ ان ہی منازل سے گزرتا ہوا پہنچا تھا جن سے اب ہم گزر رہے ہیں۔
سیاسی نظام کا اثر
پھر انھوں نے اپنے سیاسی نظرئیے اور سیاسی ادارے بھی ہم پر مسلّط کیے جو ہمارے دین اور ہماری دنیاکے لیے کسی دوسری چیز سے کم غارت گر ثابت نہ ہوئے۔ ان کے سیکولرزم نے ہمارے دینی تصورات کی جڑیں کھوکھلی کیں اور ان کے نیشنلزم اوران کی ڈیموکریسی نے ہم کو مسلسل ایک صدی تک اتنا پِیسا کہ آخر کار ہمیں اپنی آدھی قوم کو دے کر اور اپنی لاکھوں جانیں اور بے شمار عورتوں کی عصمتیں قربان کرکے صرف اپنی آدھی قوم کو اس چکی کے پاٹوں سے بچا لینے پرآمادہ ہونا پڑا۔ ان بے درد احمقوں نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ ہندوستان کے ہندو اور مسلمان اور سکھ اور اچھوت مل کر جدید سیاسی معنوں میں ایک قوم کیسے قرار پا سکتے ہیں جس میں ڈیموکریسی کا یہ اصول چل سکے کہ قوم کی اکثریت قانون ساز اور حکم ران ہو اور اقلیت رائے عامہ کو ہموار کرکے اکثریت بننے کی کوشش کرتی رہے؟ انھوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہ کی کہ یہاں اقلیتیں اور اکثریتیں، قومی اقلیتیں اور اکثریتیں ہیں، نہ کہ محض سیاسی۔ انھوں نے جن پر ۳۵ کروڑ انسانوں کے حال ومستقبل کی بھاری ذمہ داری تھی، اپنا ایک منٹ بھی اس معاملے کو سمجھنے پر صرف نہ کیا کہ اِن مختلف قوموں کے مجموعے کو ایک قوم فرض کرکے یہاں سیکولرڈیموکریسی قائم کرنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے کہ ان میں سے ایک کثیر التعداد قوم باقی سب قوموں کے مذہب، تہذیب اور قومی انفرادیت کو زبردستی مٹا کر رکھ دے۔ وہ اندھا دُھند اپنے گھرکے اصول اور نظریات اور عملی طریقے ایک بالکل مختلف ماحول پر ٹھونستے چلے گئے۔ ہندوستان کا چپہ چپہ برسوں منافرت کا زہر اور مظلوموں کا خون اور جاں گسل کش مکش کا دھواں اگل اگل کر خبر دیتا رہا کہ یہ بالکل ایک غلط نظام ہے جو اس آبادی کے مزاج کے خلاف اس پر مسلّط کیا جا رہا ہے۔ مگر انھوں نے اس کانوٹس تک نہ لیا۔ ایک دیوار بیچ کے ہمسائے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے مگر انھوں نے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ پھر جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تقسیم کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا تو وہ ایسے طریقے سے تقسیم کرکے رخصت ہوئے جس کی بدولت خون کے دریااور لاشوں کے پہاڑ ہندوستان وپاکستان کی سرحد بنے اور یہ تقسیم پچھلے جھگڑوں کے تصفیے کی ایک شکل بننے کے بجائے بہت سے نئے جھگڑوں کی بنیاد بن گئی جو نہ معلوم کتنی مدت تک اس برعظیم کے لوگوں کو آپس کی دشمنی اور کش مکش میں مبتلا رکھیں گے۔
میں مانتا ہوں کہ ان بیرونی حاکموں نے یہاں کچھ اچھے کام بھی کیے۔ ان کی بدولت جو مادی ترقیات یہاں ہوئیں اور علومِ جدیدہ کے مفید پہلوئوں سے جو فائدہ ہمیں پہنچا، ان کی قدر وقیمت سے مجھے انکار نہیں ہے۔ مگر کیا نسبت ہے ان فائدوں کو ان بے شمار اخلاقی، روحانی اور مادی نقصانات سے جو ہمیں بالادستی سے پہنچ گئے؟
ہمارا ردِّعمل
اس کے بعد ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا ہے کہ اس غالب تہذیب کے ہجوم کا ردِّ عمل ہمارے ہاں کس کس شکل میں ہوا اور آج اس کے کیا اچھے اور برے اثرات ہم اپنی قومی زندگی میں پاتے ہیں۔
مجموعی طور پر یہاں اس کے مقابلے میں دو بالکل مختلف قسم کے ردِّ عمل ہوئے ہیں جن میں سے ہرایک کے نہایت وسیع اور عمیق اثرات مترتب ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ میں پہلے ان دونوں کا الگ الگ حساب آپ کے سامنے پیش کروں گا، اور پھر ان کا حاصل ضرب بھی آپ کے سامنے رکھ دوں گا۔
انفعالی ردِّ عمل
ہم میں سے ایک گروہ کا ردِّعمل یہ تھا کہ یہ طاقت اور ترقی یافتہ قوم جو ہم پرحکم ران بن کر آئی ہے، اس سے وہ سب کچھ لے لو جو یہ دے رہی ہے اور اس کے وہ سارے اثرات قبول کرتے چلے جائو جو یہ ڈال رہی ہے۔ جو تعلیم یہ دیتی ہے اسے حاصل کرو۔ جو معاشی نظام یہ قائم کر رہی ہے اسے اپنا لو۔ جو قوانین یہ نافذ کر رہی ہے انھیں مان لو۔ جو معاشرت یہ لائی ہے اس کے رنگ میں رنگ جائو اور جو سیاسی نظام یہ قائم کر رہی ہے اسے بھی تسلیم کر لو۔
اس ردِّ عمل میں مرعوبیت اورشکست خوردگی کی رُوح تو ابتدا ہی سے تھی تاہم اوّل اوّل اس کا محرک یہ خیال تھا کہ مغلوب ومحکوم ہو جانے کے بعد اب مزاحمت ہمارے لیے ممکن نہیںہے۔ مزاحمت کریں گے تو ہر حیثیت سے نقصان میں رہیں گے۔ لہٰذا ہمارے لیے اس کے سوا اب کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ زندگی اور ترقی کے جو مواقع اس نئے نظام میں حاصل ہو سکتے ہیں ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ لیکن اس دلیل… اور اپنی جگہ اچھی خاصی باوزن دلیل … سے متاثر ہو کر ہمارے جو عناصر اس راہ پر گئے ان کی پہلی ہی نسل میں وہ نقصانات نمایاں ہونے شروع ہو گئے جو ایک مخالف تہذیب کے مقابلے میں قبولیت وانفعال کا رویہ اختیار کرنے سے کسی قوم کو پہنچ سکتے ہیں۔ اور پھر ہر نسل کے بعد دوسری نسل ان نقصانات میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ ایک قدر قلیل کے سوا ہمارا پورا طبقۂ متوسط اس وبا سے مائوف ہو گیا اور اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی عوام تک اس کا زہر پھیلتا چلا گیا۔
مذہب کے متعلق اہلِ مغرب کا جونقطۂ نظر تھا، ہمارے نئے تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی اکثریت نے اسے قریب قریب جوں کا توں قبول کیا اور یہ تک محسوس نہ کیا کہ مغرب نے مذہب کو جو کچھ سمجھا تھا، وہ مسیحیت اور کلیسا کو دیکھ کر سمجھا تھا نہ کہ اسلام کو۔ وہ اس پورے اندازِ فکر کو اخذ کر بیٹھے جو اہل کلیسا کی ضد میں مذہب اور اس سے تعلق رکھنے والے مسائل ومعاملات کے متعلق مغرب میں پیدا ہوا تھا۔ انھوں نے سمجھا کہ اسلام اور اس کی ہر چیز ہر شک کی مستحق ہے اور دلیل وثبوت کی ضرورت اگر ہے تو اس کی کسی بات کے لیے ہے نہ کہ ان نظریات کے لیے جو ’’علم‘‘ کے نام سے کوئی مغربی فلسفی یا سائنس دان یا ماہر علومِ عمران پیش کر دے۔انھوں نے اس خیال کو بھی بلا تنقید مان لیا کہ مذہب فی الواقع ایک پرائیویٹ معاملہ ہے اور اجتماعی زندگی سے اس کو سروکار نہ ہونا چاہیے۔ یہ خیال ان کے ذہن میں کچھ اس طرح اتر گیا کہ آج جو لوگ بے سوچے سمجھے اس چلتے ہوئے فقرے کو بار بار دہراتے ہیں کہ ’’اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے‘‘ وہ بھی ہر وقت اپنے ہر طرزِ عمل سے یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ اسلام صرف ایک ’’پرائیویٹ مذہب‘‘ہے جس سے پبلک معاملات میں کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان میں سے اکثر وبیشتر لوگوں کے لیے اسلام ایک پرائیویٹ مذہب بھی نہیں، کیوں کہ ان کی اپنی شخصی زندگی بجز اقرار اسلام اور ختنہ ونکاح کے اسلام کی پیروی کا کوئی اخلاقی یا عملی نشان اپنے اندر نہیں رکھتی۔ ان میں سے جن لوگوں میں مذہبیت کی طرف میلان باقی رہا یا بعد میں پیدا ہوا، ان کے اندر بھی زیادہ تر اس نے یہ شکل اختیار کی کہ مغرب اور اس کے فلسفوں اور نظریات اور عملیات کو معیارِ حق مان کر اس کے عقائد اور اس کے نظامِ زندگی اور اس کی تاریخ کی مرمت کر دی گئی، اور کوشش کی گئی کہ اسلام کی ہر چیز کو اس معیار پر ڈھال لیا جائے، اور جو نہ ڈھل سکے اس کو ریکارڈ سے محو کر دیا جائے، اور جو محو بھی نہ ہو سکے اس کے لیے دنیا کے سامنے معذرتیں پیش کی جائیں۔
ان کی عظیم اکثریت نے مغرب کے فلسفۂ زندگی اور مغربی تہذیب کی فلسفیانہ بنیادوں کو بھی بجنسہٖ اخذ کیا اور اس پر کسی تنقید کی ضرورت محسوس نہ کی۔ یہ لازمی نتیجہ تھا اس تعلیم کا جو انھیں ابتدائی مدارج سے لے کر آخری مراتب تک مدرسوں اور کالجوں میں دی گئی۔ تاریخ، فلسفہ، معاشیات، سیاسیات، قانون، اور دوسرے علوم کو جس طرز پر انھوں نے پڑھا اس سے وہی ذہنیت بن سکتی تھی جو خود ان کے مغربی استادوں کی تھی، اور دنیا اور اس کی زندگی کے متعلق ان کا نقطۂ نظر وہی کچھ ہو سکتا تھا جواہل مغرب کا تھا۔ خدا اورآخرت کا علانیہ انکار تو کم ہی لوگوں نے کیا مگر ہمارے ہاں اس تعلیم سے متاثر ہونے والوں میں ایسے لوگ بھی آخرکتنے پائے جاتے ہیں جو مادہ پرستانہ ذہنیت اور فکر آخرت سے بے نیاز نظریۂ حیات نہیں رکھتے؟ جو اَن دیکھی غیر محسوس حقیقتوں کی بھی کچھ حقیقت نہیں سمجھتے ہیں؟ جن کی نگاہ میں مادی قدروں سے بلند تر روحانی قدروں کی بھی کچھ وقعت ہے؟ جو دنیا کو اغراضِ نفسانی کی ایک بے دردانہ کش مکش کا میدانِ جنگ نہیں سمجھ رہے ہیں؟
اخلاق کے معاملے میں اس انفعالی ردِّ عمل کا نتیجہ اس سے بھی بدتر ہوا۔ اپنے دورِ انحطاط میں ہمارے اخلاق کی جڑیں بوسیدہ تو پہلے ہی ہو چکی تھیں۔ ہمارے امرا اور اہل دولت پہلے سے عیش کوش تھے۔ ہمارے متوسط طبقے کرائے کے سپاہی اور بھاڑے کے ٹٹو پہلے ہی سے بنے ہوئے تھے۔ ہمارے اندر کوئی مستقل اور مخلصانہ وفاداری پہلے ہی موجود نہ تھی۔ پھر جب اس کے ساتھ مغرب کے فلسفۂ اخلاق کا جوڑ لگا تو یہاں وہ سیرتیں پیدا ہونی شروع ہو گئیں جو مغربی سیرت کے تمام برے پہلوئوں کی جامع اوراس کے اکثر روشن پہلوئوں سے خالی ہیں۔ افادیت اورلذت پرستی اور بے اصولی میں تو ہمارے ہاں کی مغرب زندہ سیرت اسی سطح پر ہے جس پر خود اہل مغرب کی سیرت پہنچی ہوتی ہے۔ مگر وہاں کوئی مقصد زندگی ہے جس کے لیے سخت کوشی وجانفشانی کی جاتی ہے اور یہاں کسی مقصدزندگی کا پتہ نہیں۔ وہاں کوئی نہ کوئی ایسی وفاداری موجود ہے جس میں اخلاص پایا جاتا ہے، جسے بیچا اور خریدا نہیں جا سکتا، مگر یہاں سب کچھ قابل فروخت ہے اور ہر شے کا تبادلہ روپے یا ذاتی مفاد سے کیا جا سکتا ہے۔ وہاں کچھ بداخلاقیاں صرف غیر قوموں کے مقابلے میں برتنے کے لیے مخصوص ہیں جن کا ارتکاب اپنی قوم کے خلاف کرنا گناہِ عظیم سمجھا جاتا ہے، مگر یہاں جھوٹ، مکر، دھوکے، بدعہدی، خود غرضی، سازش اور تحریص وتخویف کے ہاتھ خود اپنی قوم کے خلاف استعمال کر ڈالنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ امریکہ یا انگلستان میں کوئی یہ اخلاق برتے تو اس کا جینا مشکل ہو جائے مگر یہاں بڑی بڑی جماعتیں ان اخلاقیات کے بل پر اٹھتی اور فروغ پاتی ہیں، اور جو لوگ ان اوصاف میں اپنی مہارت ثابت کر دیتے ہیں، ان کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ قیادتِ ملّی کے لیے یہی موزوں ترین اشخاص ہیں۔
معاشرت اور معیشت اور قانون کے بارے میں مغربی تسلط کے جن اثرات کا ابھی ابھی میں آپ سے ذکر کر چکا ہوں، ان سب کو قبول کرنے والے اورانھیں لے کر اپنی قوم میں پھیلانے والے بھی وہی لوگ تھے اور ہیں جنھوں نے اس انفعالی ردِّ عمل کی راہ اختیار کی۔ تاہم ان میں سے کوئی چیز بھی اس قدر حیرت انگیز نہیں ہے جس قدر انگریزوں کے قائم کیے ہوئے سیاسی نظام کے معاملے میں ان کا ردِّ عمل حیرت انگیز ہے۔ اس گروہ کو سب سے زیادہ ناز اپنی سیاسی سوجھ بوجھ پر ہے، مگر انھوں نے سب سے بڑھ کر اپنی نااہلی کا ثبوت اسی معاملے میں دیا ہے۔ جس سیکولرزم، نیشنلزم، اور ڈیموکریسی پر ہندوستان کے سیاسی نظام کی بنا رکھی گئی تھی اور جس پر انیسویں صدی کے نصف آخر سے مسلسل اس کا ارتقا ہو رہا تھا، اس کو اگر ہندوئوں نے تسلیم کیا تو یہ ایک امر طبیعی تھا، کیوں کہ اس کا ہر جُز ان کے لیے مفید تھا لیکن مسلمان، جن کے لیے اس کا ہر جز تباہ کن تھا، اس کا اس سیاسی نظام کے بنیادی اصولوں کو چیلنج نہ کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ان کے نئے تعلیم یافتہ لوگوں نے سیاست پڑھی چاہے کتنی ہی ہو، اسے سمجھا کبھی نہیں۔ وہ مغرب سے اتنے مرعوب تھے کہ جو کچھ وہاں سے آتا، اسے وحی آسمانی سمجھ کر قبول کر لیتے تھے اور کسی چیز کو تنقید کی کسوٹی پر کَس کر دیکھنے کی انھیں ہمت نہ ہوتی تھی۔ اسی شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ انھوں نے سیاست پڑھی اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے تمام نظریات کو بھی آنکھیں بند کرکے مانتے چلے گئے۔ ان کے اندر نہ اتنی عقل تھی کہ اس سیاسی نظام کی بنیادوں کو جانچ کر دیکھتے اور نہ اتنی جرأت تھی کہ علمی حیثیت سے ان بنیادوں کو چیلنج کر سکتے اوراپنے آقائوں سے یہ کہہ سکتے کہ تمہارے یہ اصول اس ملک میں نہیں چل سکیں گے۔ انھوں نے آدھی جنگ تو اسی روز ہار دی تھی جب سیکولرزم، نیشنلزم اور ڈیموکریسی کے ان اصولوں کو اصولِ برحق مان لیا۔ اس کے بعد نہ ان کی یہ پالیسی چل سکی کہ سیاسی ارتقا کی رفتار اور اہل ملک کی طرف اختیارات کے انتقال کو روکا جائے، اور نہ یہی پالیسی کام یاب ہوئی کہ سراسر غلط سیاسی نظام میں مسلمانوں کو ایسے تحفظات حاصل ہو جائیں جو اس کے تباہ کن اثرات سے انھیں بچا سکیں۔ آخر کار جب وہ سیاسی نظام پختہ ہو کر اپنے تکمیلی مرحلے میں پہنچ گیا تو ہمیں چاروناچار اس پر راضی ہونا پڑا کہ ہم میں سے آدھے قبر میں جائیں اور آدھے بچ نکلیں! اس پر بھی ہمارے سیاسی راہ نمائوں کی سمجھ میں اب تک یہ نہیں آیا ہے کہ جس سیاسی نظام نے ہم کو قبرتک پہنچا دیا اس کی بنیادوں میں کیا نقائص ہیں۔ چنانچہ وہ آج بھی اس نظام کو ان ہی بنیادوں کے ساتھ جُوں کا تُوں باقی رکھے ہوئے ہیں اور اس کو بدلنے کی ضرورت کا کوئی احساس ان کے اندر نہیں پایا جاتا۔ اب ایک کُند ذہن آدمی کے سوا کون یہ باور کر سکتا ہے کہ سیاست کے مطالعے اور تجربے نے کوئی سیاسی بصیرت اُن لوگوں میں پیدا کی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ یہ انفعالی ردِّ عمل سراسر نقصان ہی نہ تھا اس میں فائدے کے پہلو بھی کچھ تھے۔ اس سے ہمارا پچھلا جمود ٹوٹا۔ ہم موجودہ زمانے کی ترقیات سے آشنا ہوئے۔ ہمارے نقطۂ نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔ ہم اس شدید نقصان سے بچ گئے جو صرف غیر مسلموں کے جدید تعلیم پانے اور حکومت کے نظم ونسق میں دخیل ہو جانے سے پہنچ سکتے تھے۔ ہمارے بہت سے آدمیوں کو حکومت کے مختلف شعبوں کا تجربہ حاصل ہوا۔ ان فائدوں میں سے کسی کا بھی میں منکر نہیں ہوں مگر اس کے ساتھ یہ بھی تو واقعہ ہے کہ اس کی بدولت ہمارا تصورِ دین بدلا، تصورِ اخلاق بدلا، فلسفۂ زندگی بدلا، ہماری قدریں متغیر ہوئیں، ہماری انفرادی سیرت اور اجتماعی تہذیب کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں۔ ہم اسلاف کی اندھی تقلید سے نکل کر اغیار… اور گمراہ وبدکردار اغیار… کی اندھی تقلید میں مبتلا ہو کر رہ گئے جس نے ہمیں دینی حیثیت سے بھی تباہ کیا اور دنیوی حیثیت سے بھی۔
جمودی ردِّ عمل
ہمارے ہاں ایک دوسرے گروہ کا ردِّ عمل اس کے بالکل برعکس تھا۔ پہلا گروہ اگر آنے والے سیلاب میں بہہ نکلا تو یہ دوسراگروہ اس کے آگے جمود کی چٹان بن کر بیٹھ گیا۔ اس نے کوشش کی کہ علم اور مذہب اور اخلاق اور معاشرت اور روایات کی اس پوری میراث کو جو اٹھارویں صدی کے لوگوں نے چھوڑی اور انیسویں صدی کے لوگوں نے پائی تھی… اس کے تمام صحیح وغلط اجزا سمیت… جوں کا توں باقی رکھا جائے اور نئی فاتح تہذیب کا نہ کوئی اثر قبول کیا جائے، نہ اس کے سمجھنے ہی میں اپنا وقت ضائع کیا جائے۔ اس گروہ کے لوگوں نے آثارِ قدیمہ کے تحفظ کا جو رویہ مغربی تہذیب سے پہلا تصادم پیش آنے کی ساعت میں اختیار کیا تھا،اس پر وہ آج تک بلا کسی ترمیم ونظرثانی کے قائم ہیں۔ انھوں نے اپنا ایک لمحہ بھی سنجیدگی کے ساتھ اس کام میں صرف نہ کیا کہ اگلوں کی میراث کا تجزیہ کرکے دیکھیں کہ اس میں کیا باقی رکھنے اور کیا بدلنے کے لائق ہے۔ نہ انھوں نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ اسی سوال پر غور کیا کہ آنے والی تہذیب کیا کچھ لینے کے قابل لائی ہے اور انھوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوئی معقول کوشش نہ کی کہ ہمارے نظامِ فکر وعمل میں وہ کیا خامیاں تھیں جو ہماری شکست کی موجب ہوئیں اور ہزارہا میل کے فاصلے سے آئی ہوئی ایک قوم کے پاس علم وعمل کی وہ کیا طاقت ہے جو اس کے غلبے کا سبب بن گئی۔ ان اُمور کی طرف توجہ کرنے کے بجائے انھوں نے اپنا سارا زور حالتِ سابقہ کو برقرار رکھنے پر صرف کیا اورآج تک کیے جا رہے ہیں۔ ان کا نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم وہی ہے جو انیسویں صدی کے آغاز میں تھا۔ ان کے مشاغل وہی ہیں، ان کے مسائل وہی ہیں، ان کا اندازِ فکر وہی ہے، ان کا طریق کار وہی ہے اور ان کے ماحول کی خصوصیات وہی ہیں۔ جو کچھ اس میں اچھائیاں تھیں وہ بھی محفوظ ہیں، اور جو کچھ اس میں خامیاں تھیں وہ بھی محفوظ ہیں۔
میں مانتا ہوں کہ اس دوسرے ردِّ عمل کے اندر فائدے کا ایک قیمتی پہلو تھا اور ہے۔ وہ جتنا قابلِ قدر ہے، اس کی اتنی ہی قدر میرے دل میں ہے۔ ہمارے ہاں جو کچھ بھی قرآن وحدیث اور فقہ کا علم بچا رہ گیا ہے اسی کی بدولت بچا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے دین واخلاق کی جو میراث چھوڑی تھی بسا غنیمت ہے کہ کچھ لوگ اس کو سنبھال کر بیٹھ گئے اور آئندہ نسلوں کی طرف اس کو منتقل کرتے رہے۔ ہماری تہذیب کی جو اہم خصوصیات تھیں نہایت قیمتی خدمت ہے کہ کسی نے اُن کی حفاظت کی کوشش کی اور سخت مخالف ماحول میں ان کو تھوڑا یا بہت برقرار رکھا۔
میں یہ بھی مانتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس ردِّ عمل کی ابتدا کی وہ بڑی حد تک معذور تھے۔ جس وقت تہذیب مخالف کے سیلاب سے ان کو اچانک تصادم پیش آیا،اس وقت شاید وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکتے تھے کہ اپنے گھر کی جتنی چیزیں بھی بچا سکتے ہیں بچا لیں۔ اس معاملے میں اُن کی معذوری پہلے رد عمل کے بانیوں کی معذوری سے کچھ کم وزنی نہیں ہے۔ ہم پہلے گروہ کے ابتدائی لیڈروں کو بھی یہ الائونس دیتے ہیں کہ اجنبی اقتدار کے سیلاب سے پہلا تصادم پیش آنے پر وہ اس کے سوا کچھ نہ سوچ سکتے تھے کہ اپنی قوم کو کامل تباہی سے اور شُودروں میں تبدیل ہو جانے سے بچانے کے لیے وہ راہ اختیار کریں جو انھوں نے کی۔ ایسے ہی الائونس کے مستحق دوسرے گروہ کے ابتدائی لیڈر بھی ہیں جنھوں نے آغاز تصادم میں اپنے مذہب اور تہذیب کے باقیات کو مٹنے سے بچانے کی فکر کی۔ مگر قانون قدرت میں معذرتیں (apologise) اور رخصتیں (allowances) نہیں چلا کرتیں۔ کوئی کام خواہ کسی وجہ سے کیا گیا ہو، اس میں اگر نقصان کا کوئی سبب موجود ہو تو وہ نقصان پہنچ کر ہی رہتا ہے اور واقعہ میں جو نقصان پہنچا ہو اُسے نقصان ماننا ہی پڑتا ہے۔
اس کا پہلا نقصان یہ تھا کہ حالت سابقہ کے تحفظ کی کوششوں نے دین اور اس سے تعلق رکھنے والی قابل قدر چیزوں کے ساتھ ساتھ ا ن تمام کم زوریوں اور خرابیوں کا بھی پورا تحفظ کیا جو ہمارے دورِ انحطاط کے مذہبی تصورات اور مذہبی گروہوں میں موجود تھیں۔ یہ ملی جلی میراث جوں کی توں ہمارے حصے میں آئی ہے اور اب یہ ایک صحیح اسلامی انقلاب کے راستے میں ویسی ہی سخت رکاوٹ بن رہی ہے جیسی ہمارے مغربیت زدہ طبقوں کی ذہنیت بن رہی ہے۔
اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے دین اور اخلاق اور تہذیب کے اصلی جوہر کی حفاظت جیسی ہونی چاہیے تھی، اس کے ذریعے سے نہ ہو سکی بلکہ وہ روز افزوں زوال میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔ ظاہر ہے کہ سیلابوں کا مقابلہ سیلاب ہی کر سکتے ہیں، چٹانیں نہیں کر سکتیں۔ یہاں کوئی طاقت ایسی نہ تھی جو مغربی تہذیب کے سیلاب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کا کوئی سیلاب اٹھا سکتی۔ یہاں صرف ’’قدیم کی محافظت‘‘ پر اکتفا کیا گیا، اور اس ’’قدیم‘‘ میں اصل قابلِ حفاظت چیزوں کے ساتھ بہت سی ایسی چیزیں بھی شامل رکھی گئیں جو نہ زندگی کی طاقت رکھتی تھیں، نہ اس لائق تھیں کہ ان کی حفاظت کی جاتی اور نہ ان کے شمول سے یہ امید ہی کی جا سکتی تھی کہ ایک مخالف تہذیب کے مقابلے میں اس سے اسلام کی عزت قائم رہ سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ساٹھ ستر سال کی تاریخ پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو اس دوران میں ہم کو اسلام اور اس کی تہذیب آگے بڑھتی ہوئی نہیں بلکہ مسلسل پسپا ہوتی نظر آتی ہے۔ ہر سال اور ہر مہینے اور ہر دن کے حساب سے وہ دبتی اور سکڑتی رہی ہے، اور مغربی تہذیب بڑھتی اور پھیلتی گئی ہے۔ ہر دن جو ہم پر طلوع ہوا، اس طرح طلوع ہوا کہ مغرب کی ذہنی گمراہیوں اور اخلاقی گندگیوں اور عملی بدراہیوں نے ہماری زندگی کے کچھ مزید رقبے پر قبضہ کر لیا اور ہمارے دین اور اخلاق اور تہذیب نے کچھ مزید رقبہ کھو دیا۔ اس رفتار کو ہمارے مخافظین ِ طرزِ قدیم ایک لمحہ کے لیے بھی نہ روک سکے۔
اس کا تیسرا نقصان یہ ہوا کہ ہمارا مذہبی گروہ اسلام اور غیر اسلامی قدامت کے جس مرکب کی حفاظت کر رہا تھا اس کے اندر فکری اور عملی، دونوں حیثیتوں سے ہمارے اہلِ دولت اور اہلِ دماغ طبقوں کے لیے بہت کم کشش باقی رہ گئی ہے، بلکہ اس کی کشش روز بروز کم ہوتی چلی گئی۔ ایک طرف مخالف تہذیب دماغوں کو مسخر کرنے والے، دلوں کو موہ لینے والے اور نگاہوں کو خیرہ کر دینے والے ساز وسامان کے ساتھ بڑھی چلی آ رہی تھی۔ دوسری طرف اسلام کی نمائندگی ایسے مباحث، مسائل، مشاغل اور مظاہر کے ذریعے سے کی جا رہی تھی جو نہ دماغوں کو مطمئن کرتے تھے، نہ دلوں کواپیل کرتے تھے، نہ نگاہوں کو بھلے لگتے تھے۔ اس وجہ سے مادی وسائل اوردماغی صلاحیتیں رکھنے والے گروہ دین سے اپنی رہی سہی دل چسپی بھی کھوتے اور مغربی تہذیب میں جذب ہوتے چلے گئے اور مذہبیت کی میراث سنبھالنے کا کام بتدریج ہمارے اُن طبقوں کے لیے مخصوص ہوتا چلا گیا جو مادی، ذہنی اور معاشرتی حیثیت سے پست تر تھے۔ اس کا نقصان صرف اتنا ہی نہ ہوا کہ مذہبیت کا محاذ کم زور سے کم زور تر اورمغربیت کا محاذ قوی تر ہوتا رہا، بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر یہ نقصان ہوا کہ اسلام کی نمائندگی کا معیار علم وعقل اور زبان واخلاق، ہر اعتبار سے گرتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ دین داری کی آبرو بچنی مشکل ہو گئی۔
آخری اور سب سے بڑا نقصان اس پالیسی سے یہ ہوا کہ مسلمانوں کی قیادت وراہ نمائی سے اہلِ دین بے دخل ہو گئے اور تعلیم، تمدن، معیشت اور سیاست ہر معاملے میں مسلمانوں کو راستہ دکھانا اور اپنے پیچھے لے کرچلنا اِن لوگوں کا کام ہو گیا جو نہ دین کو جانتے ہی ہیں اور نہ کوئی قدم دین سے پوچھ کر اٹھانے کی ضرورت ہی محسوس کرتے ہیں۔ انھوں نے ساری تعلیم مغربی طرز پر پائی ہے۔ ان کی زندگیاں مغربی نظامِ معیشت سے بنی ہیں۔ ان کی معاشرت مغربی سانچوں میں ڈھلی ہے، ان کے اخلاق مغربی قدروں اور اصولوں پرتعمیر ہوئے ہیں۔ انھوں نے شریعت مغرب کے لا کالجوں سے لی ہے اور اسی کی پریکٹس کی ہے۔ انھوں نے سیاست کے سارے اصول، اور رنگ ڈھنگ اور جوڑ توڑ مغرب سے سیکھے ہیں۔ اس سرچشمۂ ضلالت سے جو راہ نمائی انھوں نے پائی اسی پر وہ چلے اور ساری قوم کو اس پر چلایا، اور قوم پورے اعتماد سے ان کے پیچھے چلی۔ اہلِ دین کا اس سارے کاروبار میں اگر کوئی کام رہا تو یہ کہ یا تو گوشہ نشین ہو کر درس وتدریس اور ذکر وتسبیح میں مشغول رہیں، یا قومی قیادت پر جو بھی فائز ہو، اس کے دعاگو بن کر رہیں یا پھر سیاست کے میدان میں آئیں توکسی نہ کسی آگے چلنے والے کے پیچھے بے اثر خیمہ بردار کی حیثیت سے چلیں۔ کانگریس ہو یا مسلم لیگ، جس کی طرف بھی وہ گئے پیرو بن کر گئے۔ کسی پالیسی کے بنانے میں ان کا کوئی حصہ نہ رہا۔ کسی بڑی سے بڑی گمراہی کو بھی وہ نہ روک سکے نہ اس پر ٹوک ہی سکے۔ ان کا کام اس کے سوا کچھ نہ رہا کہ جو پالیسی بھی دین سے بے نیاز یا دین کے مخالف لیڈر بنا دیں اس کو یہ برکت دیں اور مسلمانوں کو اطمینان دلائیں کہ یہی قرآن وحدیث میں بھی لکھا ہے یا کم ازکم یہ کہ اس میں ان کے دین کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ بیماری بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ سیکولرزم تک کو ہماری بہت سی مقدس مذہبی بارگاہوں سے برکت مل گئی۔ بے اثر لوگوں کے معاملے میں تو ان کی دینی حس اتنی تیز ہے کہ ان کی ساری دین داری پر ایک ڈاڑھی کے طول کی کمی پانی پھیر دیتی ہے، اور چند غیر منصوص فقہی جزئیات میں ان سے ذرا سا اختلاف بھی ہو جائے تو وہ ہادمِ دین قرار پاتے ہیں۔ مگر جن کے پیچھے ایک دفعہ ساری قوم مل کر زندہ باد کا نعرہ لگا دے، یا جن کو سیاسی طاقت نصیب ہو جائے ان کو یہ تمام رخصتوں کا مستحق سمجھتے ہیں چاہے ان کے ہاتھوں پورے دین کی عمارت ہی متزلزل ہو رہی ہو۔
ہم کیا چاہتے ہیں؟
حضرات! یہ ہے تفصیلی جائزہ ہماری پچھلی تاریخ کا اور ہماری موجودہ حالت کا۔ یہ جائزہ میں نے کسی کو مطعون کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے پیش کیا ہے کہ آپ موجودہ صورت حال اور اس کے تاریخی اسباب کی اچھی طرح تشخیص کر لیں اور اس لائحہ عمل کو ٹھیک ٹھیک جانچ سکیں جو ہم نے محض اللّٰہ کی توفیق وتائید کے اعتماد پر ان حالات میں پاکستان کی اصلاح کے لیے، اور اس کو بالآخر اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا علم بردار بنانے کے لیے اختیار کیا ہے۔
میری ان گزارشات سے آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ خرابی کا دائرہ کتنا وسیع ہے اور کس طرح ہماری قومی زندگی کے ہرشعبے میں پھیلا ہوا ہے اور اب میری اس تقریر سے آپ یہ بھی معلوم کر چکے ہیں کہ جو خرابیاں بھی آج پائی جاتی ہیں ان میں سے ہر ایک کن کن اسباب سے نشوونما پاتی ہوئی بتدریج اس حالت تک پہنچی ہے، اور اس کی جڑ ہماری تاریخ اور روایات اور نظامِ تعلیم وتمدن وسیاست میں کتنی گہری ہے اور مختلف شعبوں کی یہ ساری خرابیاں کس طرح مل جل کر ایک دوسرے کو سہارا دے رہی ہیں۔ اس کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ کسی صاحبِ بصیرت آدمی کو یہ تسلیم کرنے میں کچھ بھی تامل ہو گا کہ ان حالات میں جزوی اصلاح کی کوئی تدبیر نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ آپ دینی مدارس کھول کر یا کلمہ ونماز کی تبلیغ کرکے، یا فسق و فجور کے خلاف وعظ وتلقین کرکے، یا گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگا کرزیادہ سے زیادہ اگرچہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں تو بس یہ کہ دین جس رفتار سے مٹ رہا ہے اس میں کچھ سستی پیدا کر دیں اور دینی زندگی کو سانس لینے کے لیے کچھ دن زیادہ مل جائیں۔ لیکن یہ امید آپ ان تدبیروں سے نہیں کر سکتے کہ اللّٰہ کا کلمہ بلند ہو جائے اور اس کے مقابلے میں جاہلیت کے کلمے پست ہو کر رہ جائیں، اس لیے کہ جو اسباب اس وقت تک اللّٰہ کے کلمے کو پست اور جاہلیت کے کلموں کوبلند کرتے رہے ہیں وہ سب بدستور موجود رہیں گے۔ اسی طرح اگر آپ چاہیں کہ موجودہ نظام تو ان ہی بنیادوں پر قائم رہے مگر اخلاق، یا معاشرت، یا معیشت،یا نظم ونسق، یا سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ ان میں سے ہر چیز موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی آفریدہ اور پروردہ ہے اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں سے سہارا مل رہا ہے۔ ایسے حالات میں ایک جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے ایک جامع پروگرام ناگزیر ہے جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔
وہ پروگرام کیا ہو؟ اور ہمارے نزدیک وہ کیا ہے؟ اسی پراب میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں مگر اس پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے ایک سوال کا جواب ملنا ضروری ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟ یا زیادہ صحیح الفاظ میں آپ میں سے کون کیا چاہتا ہے؟
یَک سُوئی کی ضرورت
حقیقت یہ ہے کہ ہم اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں مسلسل تجربے نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اسلام اور جاہلیت کا یہ ملا جلا مرکب، جواَب تک ہمارا نظامِ حیات بنا رہا ہے، زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہو گا اور آخرت میں بھی، اس لیے کہ اس کی وجہ سے ہم اس حالت میں مبتلا ہیں کہ
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
نہ ہم امریکہ اور روس اور انگلستان کی طرح پوری یک سوئی کے ساتھ اپنی دنیا ہی بنا سکتے ہیں، کیوں کہ ایمان واسلام سے ہمارا جو تعلق قائم ہے وہ ہمیں اس راستے پر بے محابا نہیں چلنے دیتا اور نہ ہم ایک سچی مسلمان قوم کی طرح اپنی آخرت ہی بنا سکتے ہیں، کیوں کہ یہ کام ہمیں وہ جاہلیت نہیں کرنے دیتی جس کے بے شمار فتنے ہم نے اپنے اندر پال رکھے ہیں۔ اس دودلی کی وجہ سے ہم کسی چیز کا حق بھی پوری طرح ادا نہیں کرسکتے نہ دنیا پرستی کا، نہ خدا پرستی کا۔ اس کی وجہ سے ہمارا ہر کام، خواہ دینی ہو یا دنیوی، دو متضاد افکار اور رجحانات کی رزم گاہ بنا رہتا ہے، جن میں سے ہر ایک دوسرے کا توڑ کرتا ہے اور کسی فکر ورجحان کے مطالبے بھی کماحقہٗ پورے نہیں ہونے پاتے۔ یہ حالت بہت جلد ختم کر دینے کے لائق ہے اگر ہم اپنے دشمن نہیں ہیں تو ہمیں بہرحال یکسو ہوجانا چاہیے۔
اس یک سُوئی کی صرف دو ہی صورتیں ممکن ہیں اور ہم کو دیکھنا ہے کہ ہم میں سے کون کس صورت کو پسند کرتا ہے۔
اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے سابق حکم رانوں نے اور ان کی غالب تہذیب نے جس راستے پر اس ملک کو ڈالا تھا، اسی کو اختیار کر لیا جائے اورپھر خدا اورآخرت اور دین اور دینی تہذیب واخلاق کا خیال چھوڑ کر ایک خالص مادہ پرستانہ تہذیب کو نشوونما دیا جائے تاکہ یہ ملک بھی ایک دوسرا روس یا امریکہ بن سکے۔ مگر علاوہ اس کے کہ یہ راہ غلط ہے، خلافِ حق ہے اور تباہ کُن ہے، میں کہوں گا کہ پاکستان میں اس کا کام یاب ہونا ممکن بھی نہیں ہے اس لیے کہ یہاں کے نفسیات اور روایات میں اسلام کی مَحبّت اور عقیدت اتنی گہری جڑیں رکھتی ہے کہ انھیں اکھاڑ پھینکنا کسی انسانی طاقت کے بس کا کام نہیں ہے۔ تاہم جو لوگ اس راستے پرجانا چاہتے ہیں وہ میری اس گفتگو کے مخاطب نہیں ہیں۔ ان کے سامنے ہم اپنا پروگرام نہیں بلکہ جنگ کا الٹی میٹم پیش کرنا چاہتے ہیں۔
یَک سُوئی کی دوسری صورت یہ ہے کہ ہم انفرادی اور قومی زندگی کے لیے اس راہ کوانتخاب کر لیں جو قرآن اور سنتِ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہم کو دکھائی ہے۔ یہی ہم چاہتے ہیں، اور یہی ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی مسلم آبادی کے کم از کم ۹۹۹ فی ہزار باشندے چاہتے ہیں اور یہی ہراس شخص کو چاہنا چاہیے جو خدا اور رسولؐ کو مانتا ہو اور موت کے بعد کی زندگی کا قائل ہو، مگر جو لوگ بھی اس راہ کے پسند کرنے والے ہوں انھیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن حالات سے ہم گزرتے ہوئے آ رہے ہیں، اور جن میں اس وقت ہم گھرے ہوئے ہیں ان میں تنہا اسلام اور خالص اسلام کو پاکستان کا راہ نما فلسفۂ حیات اور غالب نظامِ زندگی بنانا کوئی آسان کام نہیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام اور غیر اسلامی قدامت کی اُس آمیزش کو جسے صدیوں کی روایات نے پختہ کر رکھا ہے، تحلیل کریں اورقدامت کے اجزا کو الگ کرکے خاص اسلام کے اس جوہر کو لے لیں جو قرآن اور سنت کے معیار پر جوہر اسلام ثابت ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ہمارے ان گروہوں کی مزاحمت اور سخت مزاحمت کے بغیر نہیں ہو سکتا جو قدامت کے کسی نہ کسی جز کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مغرب کی حقیقی تمدنی وعلمی ترقیات کو اس کے فلسفۂ حیات اور اندازِ فکر اور اخلاق ومعاشرت کی گمراہیوں سے الگ کریں اور پہلی چیز کو لے کر دوسری چیز کو بالکلیہ اپنے ہاں سے خارج کردیں۔ ظاہر ہے کہ اسے ہمارے وہ گروہ برداشت نہیں کر سکتے جنھوں نے خالص مغربیت کو، یا اسلام کے کسی نہ کسی مغربی ایڈیشن کو اپنا دین بنا رکھا ہے۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے لوگ فراہم ہوں اور منظم طریقے سے کام کریں جو اسلامی ذہنیت کے ساتھ تعمیری صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں اور پھر مضبوط سیرت اور صالح اخلاق اور مستحکم ارادے کے مالک بھی ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ جنس ہمارے ہاں ویسے ہی کمیاب ہے، پھر اس دل گردے کے لوگ آخر کہاں آسانی سے ملا کرتے ہیں جو سیاسی اور معاشی چوٹ بھی سہیں، فتووں کی مار بھی برداشت کریں، اور جھوٹے الزامات کی چوطرفہ بارش کا بھی مقابلہ پورے صبر وسکون کے ساتھ کرتے چلے جائیں۔
ان سب شرطوں کے بعد بھی یہ ضروری ہے کہ اسلام کو نظامِ غالب بنانے کی تحریک اسی طرح ایک ہمہ گیر سیلاب کے مانند اٹھے جس طرح مغربی تہذیب یہاں سیلاب کے مانند آئی اور زندگی کے ہر شعبے پر چھا گئی۔ اس ہمہ گیری اور سیلابیت کے بغیر نہ یہ ممکن ہے کہ مغربی تہذیب کو غلبہ و اقتدار سے بے دخل کیا جاسکے، اور نہ ہی یہی ممکن ہے کہ نظامِ تعلیم، نظامِ قانون، نظامِ معیشت اور نظامِ سیاست کو بدل کر ایک دوسرا تمدن خالص اسلامی بنیادوں پر تعمیر کیا جا سکے۔
یہی کچھ ہم چاہتے ہیں۔ ہمارے پیش نظر برِ عظیم ہندو پاکستان کے مسلمانوں کی پرانی تہذیب کا احیا نہیں بلکہ اسلام کا احیا ہے۔ ہم علومِ جدیدہ اور ان کی پیدا کی ہوئی ترقیات کے مخالف نہیں بلکہ اس نظامِ تہذیب وتمدن کے باغی ہیں جو مغربی فلسفۂ زندگی اور فلسفۂ اخلاق کا پیدا کردہ ہے۔ ہم دو دو اور چار چار آنے والے ممبر بھرتی کرکے کوئی سیاسی کھیل کھیلنا نہیں چاہتے بلکہ اپنی قوم میں سے چھانٹ چھانٹ کر ایسے لوگوں کو منظم کرنا چاہتے ہیں جو قرآن وسنت کے حقیقی اسلام کو یہاں کا غالب نظامِ زندگی بنانے کے لیے قدامت اور جدت دونوں سے لڑنے پر تیار ہوں، ہم زندگی کے کسی ایک جز یا بعض اجزا میں کچھ اسلامی رنگ پیدا کر دینے کے قائل نہیں بلکہ اس بات کے درپے ہیں کہ پورا اسلام پوری زندگی پر حکم ران ہو… انفرادی سیرتوں اور گھر کی معاشرت پر حکمران ہو۔ تعلیم کے اداروں پر حکمران ہو، قانون کی عدالتوں پر حکمران ہو، سیاست کے ایوانوں پر حکمران ہو نظم ونسق کے محکموں پر حکم ران ہو اور معاشی دولت کی پیداوار اور تقسیم پر حکمران ہوں۔ اسلام کے اس ہمہ گیر تسلط ہی سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان یک سُو ہو کر ان روحانی، اخلاقی اور مادّی فوائد سے پوری طرح متمتع ہو جو رب العالمین کی دی ہوئی ہدایت پر چلنے کا لازمی اور فطری نتیجہ ہیں اور پھر اسی سے یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ یہ ملک تمام مسلم ممالک کے لیے دعوت الی الخیر کا اور تمام دنیا کے لیے ہدایت کا مرکز بن جائے۔
ہمارا لائحۂ عمل
ہمارے اس مقصد کو سمجھ لینے کے بعد کسی کو ہمارے لائحۂ عمل کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آ سکتی۔ اس کے چار بڑے بڑے اجزا ہیں جنھیں میں الگ الگ بیان کروں گا۔
۱۔ اس کا پہلا جز تطہیر افکار وتعمیر افکار ہے۔ یہ تطہیر وتعمیر اس مقصد کو سامنے رکھ کر ہونی چاہیے کہ ایک طرف غیر اسلامی قدامت کے جنگل کو صاف کرکے اصلی اور حقیقی اسلام کی شاہراہِ مستقیم کو نمایاں کیا جائے، دوسری طرف مغربی علوم وفنون اور نظامِ تہذیب وتمدن پر تنقید کرکے بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابلِ اخذ، اور تیسری طرف وضاحت کے ساتھ یہ دکھایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانۂ حال کے مسائل ومعاملات پر منطبق کرکے ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہو سکتی ہے اور اس میں ایک ایک شعبۂ زندگی کا نقشہ کیا ہو گا۔ اس طریقے سے خیالات بدلیں گے اور ان کی تبدیلی سے زندگیوں کا رُخ پھرنا شروع ہو گا اور ذہنوں کو تعمیرِ نو کے لیے فکری غذا بہم پہنچے گی۔
۲۔ اس کا دوسرا جز صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت ہے۔ اس غرض کے لیے ضروری ہے کہ ان آبادیوں میں سے اُن مردوں اور عورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا جائے جو پُرانی اور نئی خرابیوں سے پاک ہوں یا اب پاک ہونے کے لیے تیار ہوں۔ جن کے اندر اصلاح کا جذبہ موجود ہو۔ جو حق کو حق مان کر اس کے لیے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں۔ خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے، خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے، خواہ وہ غریب ہوں یا امیر یا متوسط، ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہوں انھیں گوشۂ عافیت سے نکال کر میدانِ سعی وعمل میں لانا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے میں جو ایک صالح عنصر بچا کھچا موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے، یا جزوی اصلاح کی پراگندہ کوششیں کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، وہ ایک مرکز پر جمع ہو اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اصلاح وتعمیر کے لیے منظم کوشش کر سکے۔
پھر ضرورت ہے کہ اس طرح کا ایک گروہ بنانے پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ساتھ ساتھ ان لوگوں کی ذہنی واخلاقی تربیت بھی کی جائے تاکہ ان کی فکر زیادہ سے زیادہ سلجھی ہوئی ہو اور ان کی سیرت زیادہ سے زیادہ پاکیزہ، مضبوط اور قابلِ اعتماد ہو۔ ہمیں یہ حقیقت کبھی نہ بھولنی چاہیے کہ اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعوئوں کے بل پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر تعمیری صلاحیتیں اورصالح انفرادی سیرتیں موجود ہیں یا نہیں۔ کاغذی نقشوں کی خامی تو اللّٰہ کی توفیق سے علم اور تجربہ ہر وقت رفع کر سکتا ہے لیکن صلاحیت اورصالحیت کا فقدان سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو سہار نہیں سکتا۔
۳۔ اس کا تیسرا جز ہے اجتماعی اصلاح کی سعی۔ اس میں سوسائٹی کے ہر طبقے کی اس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح شامل ہے، اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہو سکتا ہے جتنے کام کرنے والوں کے ذرائع وسیع ہوں۔ اس غرض کے لیے کارکنوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرنا چاہیے اور ہر ایک کے سپرد وہ کام کرنا چاہیے جس کے لیے وہ اہل تر ہو۔ ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کرے اور کوئی دیہاتی عوام میں۔ کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہو اور کوئی مزدوروں کی طرف۔ کوئی متوسط طبقے کو خطاب کرے اور کوئی اونچے طبقے کو۔ کوئی ملازمین کی اصلاح کے لیے کوشاں ہو اور کوئی تجارت پیشہ اور صنعت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے۔ کسی کی توجہ پرانی درس گاہوں کی طرف ہو اور کسی کی نئے کالجوں کی طرف۔ کوئی جمود کے قلعوں کو توڑنے میں لگ جائے اور کوئی الحاد وفسق کے سیلاب کو روکنے میں، کوئی شعر وادب کے میدان میں کام کرے اورکوئی علم وتحقیق کے میدان میں۔ اگرچہ ان سب کے حلقہ ہائے کار الگ ہوں، مگر سب کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی اسکیم ہو جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کریں۔ ان کا متعین نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ اس ذہنی، اخلاقی اور عملی انارکی کو ختم کیا جائے جو پرانے جمودی اور نئے انفعالی رجحانات کی وجہ سے ساری قوم میں پھیلی ہوئی ہے، اور عوام سے لے کر خواص تک، سب میں صحیح اسلامی فکر، اسلامی سیرت، اور سچے مسلمانوں کی سی عملی زندگی پیدا کی جائے۔
یہ کام صرف وعظ وتلقین اور نشرواشاعت اور شخصی ربط ومکالمہ ہی سے نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مختلف سمتوں میں باقاعدہ تعمیری پروگرام بنا کر پیش قدمی کرنی چاہیے۔ مثلاً یہ عاملینِ اصلاح جہاں کہیں اپنی تبلیغ سے چند آدمیوں کو ہم خیال بنانے میں کام یاب ہوجائیں وہاں وہ انھیں ملا کر ایک مقامی تنظیم قائم کر دیں اور پھر ان کی مدد سے ایک پروگرام کو عمل میں لانے کی کوشش شروع کر دیں جس کے چند اجزا یہ ہیں:
بستی کی مسجدوں کی اصلاحِ حال، عام باشندوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرانا۔ تعلیمِ بالغاں کا انتظام۔ کم از کم ایک دارالمطالعہ کا قیام۔ لوگوں کو ظلم وستم سے بچانے کے لیے اجتماعی جدوجہد۔ باشندوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش۔ بستی کے یتیموں، بیوائوں، معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں مرتب کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کا انتظام کرنا۔ اور اگر ذرائع فراہم ہو جائیں تو کوئی پرائمری اسکول، یا ہائی اسکول یا مذہبی تعلیم کا ایسا مدرسہ قائم کرنا جس میں تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی انتظام ہو۔
اسی طرح مثلاً جو لوگ مزدوروں میں کام کریں وہ ان کو اشتراکیت کے زہر سے بچانے کے لیے صرف تبلیغ ہی پر اکتفا نہ کریں، بلکہ عملاً ان کے مسائل کو حل کرنے کی سعی بھی کریں۔ انھیں ایسی مزدور تنظیمات قائم کرنی چاہئیں جن کا مقصد انصاف کا قیام ہو نہ کہ ذرائعِ پیداوار کو قومی ملکیت بنانا۔ ان کا مسلک جائز اورمعقول حقوق کے حصول کی جدوجہد ہو نہ کہ طبقاتی کشمکش… ان کا طریقِ کار اخلاقی اور آئینی ہو نہ کہ توڑ پھوڑ اور تخریب۔ ان کے پیشِ نظر صرف اپنے حقوق ہی نہ ہوں بلکہ اپنے فرائض بھی ہوں۔ جو مزدود یا کارکن بھی ان میں شامل ہوں ان پر یہ شرط عائد ہونی چاہیے کہ وہ ایمانداری کے ساتھ اپنے حصے کا فرض ضرورادا کریں گے۔ پھر ان کا دائرۂ عمل صرف اپنے طبقے کے مفاد تک ہی محدود نہ ہونا چاہیے بلکہ یہ تنظیمات جس طبقے سے بھی تعلق رکھتی ہوں اس کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی حالت کو بھی درست کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔
اس عمومی اصلاح کے پورے لائحۂ عمل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس حلقے اور طبقے میں بھی کام کرے مسلسل اورمنظم طریقے سے کرے اور اپنی سعی کو ایک نتیجے تک پہنچائے بغیرنہ چھوڑے۔ ہمارا طریقہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ ہوا کے پرندوں اور آندھی کے جھکڑوں کی طرح بیج پھینکتے چلے جائیں۔ اس کے برعکس ہمیں کسان کی طرح کام کرنا چاہیے جو ایک متعین رقبے کو لیتا ہے، پھر زمین کی تیاری سے لے کر فصل کی کٹائی تک مسلسل کام کرکے اپنی محنتوں کو ایک نتیجے تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ پہلے طریقے سے جنگل پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے طریقے سے باقاعدہ کھیتیاں تیار ہوا کرتی ہیں۔
۴۔ اس لائحۂ عمل کا چوتھا جز نظامِ حکومت کی اصلاح ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے موجودہ بگاڑ کو دُور کرنے کی کوئی تدبیر بھی کام یاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ نظامِ حکومت کو درست کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے۔ اس لیے کہ تعلیم اور قانون اور نظم ونسق اور تقسیمِ رزق کی طاقتوں کے بل پر جو بگاڑ اپنے اپنے اثرات پھیلا رہا ہو اس کے مقابلے میں بنائو اور سنوار کی وہ تدبیریں جو صرف وعظ اور تلقین اور تبلیغ کے ذرائع پر منحصر ہوں، کبھی کارگر نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظامِ زندگی کو فسق وضلالت کی راہ سے ہٹا کر دینِ حق کی صراطِ مستقیم چلانا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ مسندِ اقتدار سے ہٹانے اور بنائو کو اس کی جگہ متمکن کرنے کی براہِ راست کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اگر اہلِ خیر وصلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو وہ تعلیم اور قانون اور نظم ونسق کی پالیسی کو تبدیل کرکے چند سال کے اندر وہ کچھ کر ڈالیں گے جو غیر سیاسی تدبیروں سے ایک صدی میں بھی نہیں ہو سکتا۔
یہ تبدیلی کس طرح ہو سکتی ہے؟ ایک جمہوری نظام میں اس کا راستہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے انتخابات کا راستہ۔ رائے عام کی تربیت کی جائے، عوام کے معیار انتخابات کو بدلا جائے، انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے، اور پھر ایسے صالح لوگوں کو اقتدار کے مقام پر پہنچایا جائے جو ملک کے نظام کو خالص اسلام کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی۔
ہماری تشخیص یہ ہے کہ اس ملک کے سیاسی نظام کی خرابیوں کا بنیادی سبب یہاں کے طریقِ انتخاب کی خرابی ہے۔ جب انتخاب کا موسم آتا ہے تو منصب وجاہ کے خواہشمند لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دوڑ دھوپ کرکے یا تو کسی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرتے ہیں یا آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے اپنے لیے کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ اس کوشش میں وہ کسی اخلاق اور کسی ضابطے کے پابند نہیں ہوتے۔ کسی جھوٹ، کسی فریب، کسی چال، کسی دبائو اور کسی ناجائز سے ناجائز ہتھکنڈے کے استعمال میں بھی ان کو دریغ نہیں ہوتا۔ جسے لالچ دیا جا سکتا ہو اس کا ووٹ لالچ سے خریدتے ہیں جسے دھمکی سے مرعوب کیا جا سکتا ہے اسے مرعوب کرکے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ جسے دھوکا دیا جا سکتا ہے اس کا ووٹ دھوکے سے لیتے ہیں اور جس کو کسی تعصب کی بنا پر اپیل کیا جا سکتا ہے اس کا ووٹ تعصب کے نام پرمانگتے ہیں۔ اس گندے کھیل کے میدان میں قوم کے شریف عناصر اوّل تو اترتے ہی نہیں، اور بھولے بھٹکے اگر وہ کبھی اتر آتے ہیں تو پہلے ہی قدم پر انھیں میدان چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ مقابلہ صرف ان لوگوں کے درمیان رہ جاتا ہے جنھیں نہ خدا کا خوف ہو نہ خلق کی شرم، اور نہ کوئی بازی کھیل جانے میں کسی طرح کا باک۔ پھر ان میں سے کام یاب ہو کر وہ نکلتا ہے جو سب جھوٹوں کو جھوٹ میں اور سب چال بازوں کو چال بازی میں شکست دے دے۔ رائے دینے والی پبلک جس کے ووٹوں سے یہ لوگ کام یاب ہوتے ہیں، نہ اصولوں کو جانچتی ہے، نہ پروگراموں کو پرکھتی ہے، نہ سیرتوں اورصلاحیتوں کودیکھتی ہے۔ اس سے جو بھی زیادہ ووٹ جھپٹ لے جائے وہ بازی جیت لیتا ہے۔ بلکہ اب تو اس کے حقیقی ووٹوں کی اکثریت بھی کوئی چیز نہیں رہی ہے۔ کرائے پر ووٹ دینے والے جعلی ووٹر، اور بد دیانت پولنگ افسر اپنے ہاتھوں کے کرتب سے بارہا ان لوگوں کو شکست دے دیتے ہیں جن کو اصلی رائے دہندوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ بسا اوقات انتخاب کی نوبت بھی نہیں آنے پاتی۔ ایک بے ضمیر مجسٹریٹ کسی ذاتی دل چسپی کی بِنا پر یا کسی کا اشارہ پا کر تمام امیدواروں کو بیک جنبشِ قلم میدان سے ہٹا دیتا ہے اور منظورِ نظر آدمی بلا مقابلہ پورے حلقۂ انتخاب کا نمائندہ بن جاتا ہے خواہ وہ واقعی نمائندہ ہو یا نہ ہو۔
ہر شخص جو کچھ بھی عقل رکھتا ہے، ان حالات کو دیکھ کر خود یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ جب تک یہ طریقِ انتخاب جاری ہے، کبھی قوم کے شریف اور نیک اور ایمان دار آدمیوں کے ابھرنے کا امکان ہی نہیں ہے۔ اس طریقے کا تو مزاج ہی ایسا ہے کہ قوم کے بدتر سے بدتر عناصر چھٹ کر سطح پر آئیں اورجس بداخلاقی وبدکرداری سے وہ انتخاب جیتتے ہیں اسی کی بنیاد پر وہ ملک کا انتظام چلائیں۔
یہ طریقے یکسر بدل دینے کے لائق ہیں۔ ان کے بجائے دوسرے کیا طریقے ہو سکتے ہیں جن کے ذریعے سے بہتر آدمی اوپر آ سکیں؟ ان کی ایک مختصر سی تشریح میں آپ کے سامنے کرتا ہوں۔ آپ خود دیکھ لیں کہ آیا ان طریقوں سے نظامِ حکومت کی اصلاح کی توقع کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
اوّل یہ کہ انتخابات اصولوں کی بنیاد پر ہوں نہ کہ شخصی یا علاقائی یا قبائلی مفادات کی بنیاد پر۔
دوم یہ کہ لوگوں کو ایسی تربیت دی جائے جس سے وہ یہ سمجھنے کے قابل ہو سکیں کہ ایک اصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے کے لیے کس قسم کے آدمی موزوں ہو سکتے ہیں اور ان میں کیا اخلاقی صفات اور ذہنی صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔
سوم یہ کہ لوگوں کے خود امیدوار بن کرکھڑے ہونے اور خود روپیہ صرف کرکے ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ بند ہونا چاہیے کیوں کہ اس طرح بالعموم صرف خود غرض لوگ ہی منتخب ہو کر آئیں گے۔ اس کے بجائے کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہیے جس سے ہر حلقۂ انتخاب کے شریف ومعقول لوگ سرجوڑ کر بیٹھیں۔ کسی موزوں آدمی کو تلاش کرکے اس سے درخواست کریں کہ وہ ان کی نمائندگی کے لیے تیارہو اور پھر خود دوڑ دھوپ کرکے اور اپنا مال صرف کرکے اسے کام یاب کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح جو لوگ منتخب ہوں گے وہی بے غرض ہو کر اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ ملک کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔
چہارم یہ کہ جس شخص کو اس طرح کی کوئی پنچایت اپنے علاقے کی نمائندگی کے لیے تجویز کرے اس سے برسرِ عام یہ عہد لیا جائے کہ وہ پنچایت کے منظور کیے ہوئے منشور کا پابند رہے گا، پارلیمنٹ میں پہنچ کر ان لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا، جو اسی منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسی طریقے پر کام یاب ہو کر دوسرے علاقوں سے وہاں پہنچیں اور جب کبھی پنچایت اس پراظہارِ بے اعتمادی کرے، وہ مستعفی ہو کر واپس آ جائے گا۔
پنجم یہ کہ پنچایت کے جو کارکن اس شخص کو کام یاب کرانے کی جدوجہد کریں ان سے قسم لی جائے کہ وہ اخلاق کے حدود اور انتخابی ضوابط کی پوری پابندی کریں گے۔ کسی تعصب کے نام پر اپیل نہ کریں گے۔ کسی کے جواب میں بھی جھوٹ اور بہتان تراشی اور چال بازیوں سے کام نہ لیں گے۔ کوئی جعلی ووٹ نہ بھگتائیں گے۔ خواہ جیتیں یا ہاریں، بہرحال شروع سے آخر تک پوری انتخابی جنگ صداقت اور دیانت کے ساتھ بالکل بااصول طریقے سے لڑیں گے۔
میرا خیال یہ ہے کہ اگر اس ملک کے انتخابات میں ان پانچ طریقوں کو آزمایا جائے تو جمہوریت کو قریب قریب بالکل پاک کیا جا سکتا ہے اور بدکردار لوگوں کے لیے برسرِ اقتدار آنے کے دروازے بند کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے بہتر نتائج پہلے ہی قدم پر ظاہر ہو جائیں لیکن اگر اس رُخ پرایک دفعہ انتخابات کو ڈال دیا جائے تو جمہوریت کا مزاج یکسر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان طریقوں سے نظامِ حکومت کی واقعی تبدیلی میں پچیس تیس سال صرف ہو جائیں، یا اس سے بھی زیادہ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلی کا صحیح راستہ یہی ہے اور جو تبدیلی اس طریقے سے ہو گی وہ ان شاء اللّٰہ پائیدار ومستحکم ہو گی۔
حضرات! میں نے ا س تقریر میں مرض اور اسبابِ مرض کی پوری تشخیص وتشریح آپ کے سامنے رکھ دی ہے، طریقِ علاج بھی بیان کر دیا ہے، اوروہ مقصد بھی پیش کر دیا ہے جس کے لیے ہم علاج کی یہ کوششیں کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ رائے قائم کرنا آپ کا اپنا کام ہے کہ میری باتیں کہاں تک قابلِ قبول ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں