اسلامی نظامِ معیشت کا ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ وہ دولت کی مساوی (equal) تقسیم کے بجائے منصفانہ (equitable) تقسیم چاہتا ہے۔ اس کے پیش نظر ہرگز یہ نہیں ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان ذرائع زندگی کو برابر تقسیم کیا جائے۔ قرآن مجید کو جو شخص بھی پڑھے گا اس کو صاف معلوم ہو جائے گا کہ خدا کی اس کائنات میں کہیں بھی مساوی تقسیم نہیں پائی جاتی ۔ مساوی تقسیم ہے ہی غیر فطری چیز… کیا تمام انسانوں کو یکساں صحت دی گئی ہے؟ کیا تمام انسانوں کو یکساں ذہانت دی گئی ہے؟ کیا تمام انسانوں کا حافظہ یکساں ہیں؟ کیا تمام انسان حسن میں، طاقت میں، قابلیت میں برابر ہیں؟ کیا تمام انسان ایک ہی طرح کے حالاتِ پیدائش میں آنکھیں کھولتے ہیں اور دنیا میں کام کرنے کے لیے بھی سب کو ایک ہی طرح کے حالات ملتے ہیں؟ اگر ان ساری چیزوں میں مساوات نہیں ہے تو ذرائع پیداوار یا تقسیم دولت میں مساوات کے کیا معنی؟ یہ عملاً ممکن ہی نہیں ہے اور جہاں بھی مصنوعی طور پر اس کی کوشش کی جائے گی وہ لازماً ناکام بھی ہوگی اور غلط نتائج بھی پیدا کرے گی۔اسی لیے اسلام یہ نہیں کہتا کہ وسائلِ معیشت اور ثمراتِ معیشت کی مساوی تقسیم ہونی چاہیے بلکہ وہ کہتا ہے کہ منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے اور اس انصاف کے لیے وہ چند قاعدے مقرر کرتا ہے۔