ہمارے سامنے اس وقت جو مسئلہ درپیش ہے اس کی نوعیت کو پہلے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کا دستور اسلامی ہونا چاہیے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اسلامی دستور کہیں لکھا لکھایا موجود ہے اور مطالبہ صرف اسے نافذ کر دینے کا ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ جسے ہم کو حل کرنا ہے، یہ ہے کہ ہم ایک غیر تحریری دستور (Unwritten Constitution) کو ایک تحریری دستور (Written Constitution) میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ { یہاں تحریری دستور کی اصطلاح کواچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ دراصل اس سے مراد ایسی دستاویز ہے جس میں نظمِ مملکت کے قواعد درج کیے گئے ہوں اور جسے مملکت میں مسلم قانونی حیثیت حاصل ہوجس مملکت کا دستور اس کی طرح کی کسی دستاویز کی صورت میں لکھا نہ گیا ہو۔ اس کے دستوری قواعد چاہے مختلف مآخذ میں لکھے ہوئے ہی موجود ہوں بہرحال ان کے مجموعے کو غیر تحریری دستور ہی کہا جائے گا۔
} جس چیز کو ہم اسلامی دستور کہتے ہیں وہ دراصل ایک غیر تحریری دستور ہے اور اس کے چند مآخذ (Sources) ہیں جن سے استفادہ کرکے ہمیں اپنے ملک کے حالات کے مطابق ایک تحریری دستور مرتّب کرنا ہے۔ غیر تحریری دستور دنیا میں کوئی انوکھی اور نرالی چیز نہیں ہے۔ اٹھارویں صدی تک دنیا کی ساری حکومتوں کے نظام غیر تحریری دستوروں پر چلتے رہے ہیں اور آج بھی دنیا کی ایک بہت بڑی سلطنت (سلطنت برطانیہ) بغیر کسی تحریری دستور کے چل رہی ہے۔ اگر کبھی انگلستان کو ضرورت پیش آئے کہ وہ اپنے دستور کو تحریری شکل میں مدوّن کرے تو لامحالہ اسے اپنے غیر تحریری دستور کے مختلف مآخذ سے مواد اکٹھا کرکے اپنے دستور کی دفعات مرتب کرنی پڑیں گی۔ ایسی ہی کچھ ضرورت اس وقت ہمیں درپیش ہے۔