لیکن جب انسان غور و فکر کر کے ظواہر اشیا کی تہ میں پوشیدہ حقائق کا پتہ چلانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر منکشف ہوتا ہے کہ ظاہر میں وہ اپنے آپ کو جتنا قادر و مختار سمجھتا ہے اتنا نہیں ہے اور سطحی نظر سے وہ اپنی مجبوری اور اپنے اضطرار کے لیے جو حدود مقرر کرتا ہے حقیقت میں وہ بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہیں۔ یہی نقطہ ہے جہاں سے مسئلہ جبر و قدر کا آغاز ہوتا ہے۔ اس مسئلے کی بنیاد جن سوالات پر ہے وہ یہ ہیں:
-1 کیا انسان اپنے اعمال میں بالکل مجبور ہے یا کسی حد تک اس کو آزادی بھی حاصل ہے۔
-2 انسان کو مجبور کرنے والی یا اس کی آزادی کو پابند کرنے والی طاقت کون سی ہے اور اس کے اثرات انسان کی زندگی میں کس حد تک ہیں؟
-3 اگر انسان پابند یا مجبور ہے تو اعمال کی ذمہ داری و جواب دہی اور ان پر مدح و ذم یا جزا و سزا کے استحقاق کا قاعدہ جس پر ہمارے اخلاقی تصورات مبنی ہیں اور جو ہمارے نظام اجتماعی کی صلاح و فلاح کا ضامن ہے، کس اساس پر قائم ہو گا؟
دنیا کے اربابِ فکر نے ان سوالات پر مختلف نقطہ ہائے نظر سے نگاہ ڈالی ہے۔ ان کے حل کے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں اور مختلف دلائل و شواہد کی بنا پر مختلف نظریے قائم کر لیے ہیں۔ اس باب میں اہل علم و تحقیق کے مقالات اور ان کے اختلافات اتنے کثیر ہیں کہ ان سب کا احاطہ مشکل ہے لیکن اصولی حیثیت سے ہم ان سب کو چار قسموں پر تقسیم کرتے ہیں۔
(۱)وہ جنھوں نے مابعد الطبیعی نقطۂ نظر سے اس مسئلے پر بحث کی ہے۔
(۲)وہ جنھوں نے طبیعی نقطۂ نظر اختیار کیا ہے۔
(۳)وہ جنھوں نے اخلاقی نقطۂ نظر سے اس کو دیکھا ہے۔
(۴)وہ جنھوں نے دینی نقطۂ نظر سے اس پر نگاہ ڈالی ہے۔
آیئے اب ہم دیکھیں کہ ان مختلف پہلوئوں سے مختلف گروہوں نے کس طرح اس مسئلے پر غور کیا ہے، بحث و استدلال کی کون سی راہیں اختیار کی ہیں اور آخر میں کن نتائج پر پہنچے ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭