Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
ایک منکر حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب
مسئلہ اجتہاد کے بارے میں چند شبہات
اجتہاد اور اُس کے تقاضے
مسئلہ اجتہاد میں الفاظ اور رُوح کی حیثیت
قانون سازی، شوریٰ اور اجماع
نظامِ اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
سنت ِرسول بحیثیت ِماخذ قانون
اسلام میں ضرورت و مصلحت کا لحاظ اور اس کے اصول و قواعد
دین میں حکمت ِ عملی کا مقام
غیبت کی حقیقت اور اس کے احکام
غیبت کے مسئلے میں ایک دو ٹوک بات
غیبت کے مسئلے میں بحث کا ایک اور رُخ
دو اہم مبحث:
اسلام اور عدل اجتماعی
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
عائلی قوانین کے کمیشن کا سوالنامہ اور اُس کا جواب
اہلِ کتاب کے ذبیحہ کی حِلّت و حُرمت
انسان کے بنیادی حقوق
مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک حاکمیت
شہادتِ حسین ؑ کا حقیقی مقصد ۱؎
اقوامِ مغرب کا عبرت ناک انجام
دنیائے اِسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار

تفہیمات (حصہ سوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مسئلہ اجتہاد کے بارے میں چند شبہات

(جنوری ۱۹۵۸ئ کو بین الاقوامی مجلس مذاکرہ کے اجلاس لاہور میں دنیا کے مختلف حصّوں کے اہلِ علم حضرات شریک ہوئے تھے۔ ان میں مسلم و غیر مسلم، دونوں شامل تھے۔ مجلس مذاکرہ کے انعقاد کے دوران اور اس کے بعد یہ حضرات پاکستان کے اصحابِ فکر سے برابر ملتے رہے اور ایک دوسرے کے نقطہ نگاہ اور طریق کار کو سمجھنے سمجھانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ اسی سلسلے میں بہت سے غیرملکی مفکرین مصنف سے بھی ملنے کے لیے وقتاً فوقتاً دفتر میں تشریف لاتے رہے۔ ان حضرات میں ایک نامور شخصیت ولفرڈ کینٹ ول سمتھ (Wilfered Cantwell Smith) کی تھی۔ ان کے نام اور کام سے ہمارے ملک کا انگریزی دان طبقہ بخوبی واقف ہے۔ یہ صاحب پہلے علی گڑھ کالج میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر تھے۔ اس کے بعد ایف سی کالج، لاہور سے وابستہ ہوئے۔ اب یہ کینا ڈا کی مشہور یونیورسٹی میکگل (Mcgill) میں شعبۂ اسلامیات کے صدر ہیں۔ ذیل کا خط سمتھ صاحب کی مصنف سے ایک اہم ملاقات کی یادگار ہے۔ اصل خط انگریزی میں تھا یہاں اس کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے)
سمتھ صاحب کا خط
مخدومی!
تسلیم و آداب۔ یہ محض آپ کی ذرّہ نوازی تھی کہ آپ نے مجھے پچھلے ہفتے شرف باریابی بخشا۔ آپ کی اس کرم نوازی کا میں تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں نے اس بالمشافہ گفتگو سے بھرپور استفادہ کیا۔ سب سے زیادہ مجھے اس بات کی مسرت ہوئی کہ مجھے آپ سے بہ نفس نفیس ملنے کی سعادت نصیب ہوئی اور اس طرح میں آپ کے طرزِ فکر اور طرزِ استدلال کا زیادہ قریب سے مطالعہ کر سکا۔ یہ فوائد آپ کی کتب پڑھنے سے ممکن ہے اس حد تک حاصل نہ ہوتے۔
دوران گفتگو میں چونکہ آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ آپ مجھے اسلام اور اس کے بارے میں اپنی پیش کردہ تصریحات کے سمجھنے میں رہنمائی فرمائیں گے۔ اس لیے مجھے جرأت ہوئی کہ آپ سے چند عنایات کا مطالبہ کروں۔ آپ کو تکلیف نہ ہو تو آپ براہِ کرم مجھے اپنے اس مقالے کے اردو اور عربی تراجم بھیج دیں جو آپ نے مجلس مذاکرہ میں مسئلہ اجتہاد پر پیش کیا تھا۔ میں اس کے انگریزی ترجمے کا بنظر غائر مطالعہ کر چکا ہوں۔ جس طریق سے آپ نے قانونِ الٰہی کے معنی و مفہوم کا تعیّن کیا ہے اور اسلام کو اسی قانون کے سامنے سرنگوں ہونے کی حیثیت سے پیش کیا ہے وہ میرے نزدیک بڑا دلآویز اور دلکش ہے اور اس سے میں خاص طور پر متاثر ہوا ہوں۔ یہ نکتہ اتنا اہم ہے کہ میرے دل میں اب قدرتی طور پر یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ میں ان عربی اصطلاحات کو پورے غور سے دیکھوں جن میں اس نکتے کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہی حال مقالے کے دوسرے اہم مقامات کا بھی ہے۔ اگر آپ کے پاس اس مقالے کے اردو اور عربی تراجم کی زائد کاپیاں موجود ہوں تو ارسال فرمائیں تاکہ میں انھیں مطالعہ کر سکوں۔
اس سلسلے میں ایک دوسرا سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ انگریزی ترجمے میں آپ نے قانونِ الٰہی کے ماننے اور اس کے مقابلے میں اپنی خود مختاری سے دست بردار ہو جانے کا نام اسلام رکھا ہے۔ اس سے پیشتر میں اسلام سے مراد صرف خدا کے حضور میں سر نیاز خم کر دینے کو لیتا تھا۔ مگر آپ کے نزدیک یہ دونوں ایک ہی ہیں اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔ کلو کیم میں میں نے جو مقالہ پڑھا تھا۔ اس میں میں نے انھیں دو الگ الگ چیزوں کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ چونکہ میرے مقالے کے اردو اور عربی کے مترجمین میرے نقطۂ نظر کو اچھی طرح سمجھ نہ سکے۔ اس لیے میں نے جو کچھ عرض کیا ہے وہ صرف انگریزی مقالے کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ ممکن ہے یہ صراحت میری اس الجھن کو صاف کر دے جس کا اظہار میں نے آپ سے ملاقات کے وقت کیا تھا۔ اور اس ضمن میں گزارش کی تھی کہ میری رائے میں جماعت اسلامی انسان کےخدا سے تعلق پر توجہ دینے کی بجائے صرف مذہب کے خارجی مظاہر پر زور دیتی ہے۔ اس کا جو جواب آپ نے دیا اس نے مجھے سوچنے کے لیے مواد دیا ہے اور غوروخوض پر ابھارا ہے۔ تاہم آپ نے مطبوعہ مقالے میں جو موقف اختیار کیا ہے اس سے پھر یہی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ کیا مسلمانوں کے دین کی اصل روح خدا کے ساتھ تعلق (جھکنا: اسلام) سے زیادہ شریعت کے ساتھ وابستگی میں ہے؟
اسی سے پھر ایک اور مسئلہ بھی سامنے آتا ہے۔ یعنی مسلم قوم کے دوسری مذہب پرست اقوام کے ساتھ تعلق کی صحیح نوعیت، میرے غوروفکر میں آپ کا یہ فقرہ سن کر ایک طرح کا تموّج پیدا ہوا کہ ایک مسیحی کے نزدیک خنزیر کا گوشت کھانا ایک معمولی بات ہے جس کی کوئی اہمیّت نہیں۔ میں اس کا مفہوم اچھی طرح سمجھنے سے قاصر ہوں۔ میں بحیثیت ایک عیسائی یہ اعتقاد رکھتا ہوں کہ اگر میں خنزیر کا گوشت کھانا چاہوں تو اس بارے میں مختار ہوں اور کوئی چیز اس راہ میں حائل نہیں ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر میں ایسا کروں تو آپ کو بطور مسلمان میری اس حرکت سے تکلیف ہو گی۔ کیونکہ آپ کے نقطۂ نظر کے مطابق شریعت، خدائی، ہمہ گیر اور آفاقی قانون ہے۔ کیا اللہ کے قانون کی پیروی سب پر واجب نہیں؟ اگرچہ صرف مسلمان ہی اسے پورے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اگر میں جھوٹ بولوں تو آپ کو میرا یہ فعل ناگوار گزرے گا۔ کیا کوئی اخلاقی ضابطہ ایسا بھی ہے جو سارے انسانوں پر نافذ ہوتا ہے؟ اور اس کے علاوہ کچھ اصول و ضوابط ایسے ہیں جن کی پیروی صرف مسلمانوں پر لازم ہے؟
میں سگریٹ اور شراب پینے کا عادی نہیں۔ میرے اس طرزِ عمل سے میرے مسلمان دوست بڑے مسرور ہوتے ہیں کہ میں ان کے مذہب کے ان دو اصولوں پر کاربند ہوں۔ اگرچہ میں یہ کام خود اپنے ذاتی اعتقادات کے مطابق کرتا ہوں۔ میں نے زندگی بھر نہ تو کبھی سگریٹ کو چھوا ہے اور نہ کبھی شراب پی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ بہتر ہے (اور اس بنا پر خدا کو زیادہ پسندیدہ ہے) کہ آدمی شراب نہ پئے اور یہ بات ایک مسلمان کے لیے اسی قدر صحیح ہے جتنی کہ ایک عیسائی، ہندو یا دہریے کے لیے۔ مگر مسلمان کے معاملے میں ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ ایک شرابی مسلمان نہ صرف اس فعل سے اپنی صحت کو تباہ کرتا ہے بلکہ وہ اپنے اندر ایک مجرم ضمیر کو بھی پالتا ہے۔ کیونکہ وہ شراب پی کر ایک ایسی حرکت کا مرتکب ہوتا ہے جس کو وہ اپنے عقیدے کی بنا پر حرام تسلیم کرتا ہے۔
اب حل طلب مسئلہ یہ ہے، کیا آ پ حضرات بحیثیت مسلمان اس بات سے زیادہ خوش نہ ہوں گے اگر میں یا میری طرح کے دوسرے غیر مسلم شریعت کے قانون کی پابندی کریں؟ اگرچہ مجھے یہ اعتراف ہے کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے ہم اتباع شریعت کی ساری ذمہ داریوں سے کماحقہ، عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ ممکن ہے آپ کا اس بارے میں جواب یہ ہو کہ میں بحیثیت عیسائی عیسائیت کے پیش کردہ قوانین و ضوابط کی پیروی کروں۔ لیکن آخر ایک ہندو اور ایک ملحد اس معاملے میں کون سا طرزِ عمل اختیار کرے؟ کیا ایک منکر خدا جو ایمان دار ہے۔ اُس خدا پر ایمان لانے والے فرد سے بہتر (اور اس وجہ سے خدا کی نظر میں زیادہ پسندیدہ) نہیں، جو بددیانت ہے؟
مجھے بڑا افسوس ہے کہ میں نے آپ کو بے جا تکلیف دی۔ اور شاید میں نے آپ کی مروّت سے اپنے حق سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ مگر میں یہ جسارت صرف اسی لیے کر رہا ہوں کہ میں نے اپنی ساری زندگی ان مسائل کے سمجھنے میں صرف کی ہے۔ خصوصاً وہ مسائل جن کے حل ہو جانے سے قوموں کے درمیان صلح و آشتی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
آپ کا مخلص
ولفرڈ کینٹ ول سمتھ
مصنف کا جواب
محترمی! مسٹر اسمتھ‘
آپ کی یاد فرمائی کا میں بہت شکر گزار ہوں۔ آپ کے حسب طلب اپنے مقالے کی عربی اور اُردو کاپی ارسال کر رہا ہوں۔ اصل مقالہ اردو میں لکھا گیا تھا، عربی اور انگریزی، (versions) دونوں اس کے ترجمے ہیں۔ آپ چونکہ اردو سمجھتے ہیں اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ آپ اردو مقالے ہی پر اعتماد کریں۔ اس کے ساتھ میں وہ نوٹ بھی بھیج رہا ہوں جو اپنے مقالے پر تنقیدوں کے جواب میں میں نے کلو کیم میں پیش کیا تھا۔
اسلام اور شریعت کا باہمی تعلق
آپ کے ذہن میں میرے مقالے کو دیکھ کر ’’اسلام‘‘ کے معنی کے متعلق جو سوال پیدا ہوا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کے معنی تو بے شک خدا کی اطاعت ہی کے ہیں لیکن اس اطاعت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ خدا کے قانون کی اطاعت کی جائے کیونکہ خدا کو ماننا اور اس کے قانون کو نہ ماننا دونوں باہم متناقض (Incompatible) ہیں۔ میں نے جس ترتیب سے اس مسئلے کو واضح کیا ہے آپ اسی ترتیب سے اس پر غور کریں تو صحیح پوزیشن آپ کے سامنے واضح ہو سکے گی۔ ترتیب یہ ہے-
(۱) قرآن خدا کو صرف معبود ہی نہیں قرار دیتا بلکہ قانونی حاکم (Sovereign) بھی قرار دیتا ہے۔
(۲) خدا کی خداوندی کے یہ دونوں لوازم تصوّرِ توحید کے لحاظ سے ایسے غیر منفک ہیں کہ ان میں سے جس کا بھی انکار کیا جائے وہ لازماً خدا کا انکار ہے۔
(۳) اس عقیدے کی رو سے خدا کے جس قانون کی اطاعت لازم آتی ہے اس سے مراد قوانین طبعی نہیں ہیں بلکہ وہ قانون ہے جو خدا اپنے رسولوں کے ذریعے سے دیتا ہے اور جس کا مقصد ہماری فکر و نظر اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہمارے رویئے کو درست کرنا ہے۔
(۴) قرآن کی دعوت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ انسان اس ہدایت اور اس قانون کے آگے سر تسلیم خم کریں جو خدا نے انبیا کے ذریعے سے عطا فرمائی ہے اور اس کے مقابلے میں اپنی خودمختاری سے دستبردار ہو جائیں۔ اسی چیز کا نام قرآن کی زبان میں ’’اسلام‘‘ ہے۔ (بالفاظ دیگر اگر کوئی شخص کہے کہ میں خدا کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہوں، لیکن وہ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی دی ہوئی ہدایت اور ان کے پہنچائے ہوئے احکام کے آگے (submit) نہ کرے۔ نہ ان کے مقابلے میں اپنی خودمختاری کے دعوے سے دستبردار ہو‘ تو قرآن اس کو ’’مسلم‘‘ قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہے)
اس ترتیب سے آپ معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ یہ سوال جو آپ نے اٹھایا ہے کہ
(Does the heart of a Muslim’s faith not lie in his relation (Submission, Islam) to God rather than to his relation to the Shariah؎۱)
یہ سوال درحقیقت پیدا نہیں ہوتا، اس لیے کہ مسلمان کا خدا سے اسلام (Submission) کا تعلق آپ سے آپ خدا کے قانون (یعنی شریعت) سے ’’اسلام‘‘ کے تعلق کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اور یہ اس کا ایسا فطری تقاضا ہے کہ اگر خدا کے قانون سے اسلام کا تعلق باقی نہ رہے تو پھر خدا سے اسلام (Submission) کا تعلق باقی رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
روحِ اسلام کے تحفظ کے لیے شکل اِسلام کے تحفظ کی اہمیّت
عیسائیوں کے لحم خنزیر استعمال کرنے کے متعلق میں نے جو بات کہی تھی۔ وہ دراصل ایک دوسرے ہی سیاق و سباق میں تھی۔ میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ مسلمانوں کے لیے روحِ اسلام کے ساتھ شکلِ اسلام (form) کی اہمیّت کیا ہے، اور کیوں اس شکل سے بے پروائی یا انحراف کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان پھر روحِ اسلام سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اس بات کو میں نے بہت سی مثالوں سے آپ کے سامنے واضح کیا تھا۔ مثلاً یہ کہ ایک مسلمان اگر نماز چھوڑ دے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ ان تمام فرائض سے منہ موڑتا چلا جائے گا جو خدا اور بندوں کے حق میں اس پر عائد ہوتے ہیں۔ چونکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اوّلین فرض جو اس پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہے، اس لیے اس کو فرض جانتے اور مانتے ہوئے جو شخص اسے چھوڑ دے اس سے پھر کسی حق شناسی و فرض شناسی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح جن چیزوں کو اسلام میں حرام اور سخت گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ان کو حرام اور گناہ جاننے کے باوجود جو مسلمان ان کا ارتکاب کرے اس سے پھر آپ یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ کسی اخلاقی حد کو توڑنے اور کسی برائی کا ارتکاب کرنے سے باز رہ جائے گا۔ اس سلسلے میں میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ لوگ نماز چھوڑنے یا لحم خنزیر کھانے والے مسلمانوں کو اپنے اوپر قیاس کرتے ہیں اور اس بات کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ یہ مسلمان آ پ سے قریب تر ہو گئے۔ لیکن آپ یہ اندازہ نہیں کرتے کہ جن حدوں کو پھاند کر اور جن احترامات (sanctities) کو توڑ کر وہ آپ کے قریب پہنچا ہے۔ ان سے تجاوز کرنے کے باعث وہ آپ کی اخلاقی سطح سے بدرجہا زیادہ پست سطح پر گر چکا ہے۔ آپ لوگوں کے نزدیک نماز سرے سے فرض ہی نہیں ہے اور لحم خنزیر کھانا آپ کے ہاں ایک معمولی بات ہے۔ اس لیے آپ ترک نماز اور اکل خنزیر کے باوجود ان اخلاقی حدود پر قائم رہ سکتے ہیں اور ان اقدار (values) کا احترام کر سکتے ہیں جو آپ کے ہاں معتبر ہیں لیکن جو مسلمان یہ کام کرتا ہے وہ اتنی حدوں کو توڑ کر اور اتنی قیمتی اقدار کو پامال کرکے آپ کے مقام تک پہنچتا ہے کہ اس کے لیے پھر دنیا میں مشکل ہی سے کوئی چیز ایسی مقدس باقی رہ جاتی ہے جسے اپنی خواہش نفس ، یا اپنے ذاتی مفاد کی خاطر پائوں تلے روند دینے میں اسے کوئی تامل نہ ہو۔ اس لیے میں نے آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ لوگ اسلام کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنا چھوڑ دیں کیونکہ یہ مسلم سوسائٹی میں سخت اخلاقی زوال کا مظہر ہے اور کسی انسانی معاشرے کا اخلاقی زوال درحقیقت اسی معاشرے کا نقصان نہیں بلکہ پوری انسانیت کا نقصان ہے۔
اسلامی حکومت غیر مسلموں کو کن چیزوں کا پابند کر سکتی ہے؟
آپ کی یہ بات بجائے خود درست ہے کہ ہمارے نزدیک چونکہ ہر گناہ بجائے خود ایک برائی ہے۔ اس لیے جس چیز کو بھی شریعت الٰہی نے گناہ ٹھہرایا ہے۔ اس کو ہمیں کسی انسان کی زندگی میں بھی پسند نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری پوزیشن بالکل یہی ہے۔ ہم خدا کے تمام احکام کو تمام انسانوں کے لیے برحق مانتے ہیں اور جو انسان بھی ان کی خلاف ورزی کرتا ہے ہمیں اس پر رنج و افسوس ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک چاہے وہ گناہ ایک معمولی بات ہو، مگر ہمارے نزدیک وہ ایک معمولی بات نہیں ہے البتہ اگر ایک اسلامی حکومت میں کوئی غیر مسلم رہتا ہو تو ہم بعض احکام اسلامی کا اسے بالجبر پابند بنانے کی کوشش کریں گے اور بعض کے معاملے میں اسے آزاد رہنے دیں گے۔ مثلاً شرک ہمارے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے لیکن اگر اس کے عقیدے میں شرک ہی صحیح ہے تو ہم اسے نہیں روکیں گے۔ اسی طرح لحم خنزیر کا استعمال ہمارے نزدیک قطعی حرام ہے لیکن اگر وہ اسے حلال سمجھتا ہو تو ہم اسے اس چیز کے کھانے سے منع نہیں کریں گے۔ بخلاف اس کے ہم چوری سے، جھوٹی شہادت سے، غبن اور خیانت سے ضرور روکیں گے کیونکہ یہ تمام انسانیت کے نزدیک متفق علیہ برائیاں ہیں اور ان سے فساد فی الارض رونما ہوتاہے۔
مجھے آپ کی اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ جو شخص جس حد تک بھی اخلاقی محاسن اور پسندیدہ اوصاف میں ہم سے قریب تر ہو اس پر ہمیں خوشی ہونی چاہیے۔ ایک آدمی کے غلط عقیدے کی برائی اپنی جگہ سہی، لیکن بدکار اور بددیانت آدمی کی بہ نسبت اچھے اخلاق کا راست باز آدمی بہرحال بہتر ہے اور اس سے ہم زیادہ اچھی طرح یہ توقع کر سکتے ہیں کہ کسی وقت وہ غلط عقیدے کی برائی بھی محسوس کرکے صحیح عقیدہ اختیار کرنے پر آمادہ ہو سکے گا۔
خاکسار
ابو الاعلیٰ مودودی
جمادی الاولیٰ ۱۳۷۷ہجری مطابق فروری ۱۹۵۸ئ
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں