ایک اور صاحب اسی سلسلے میں لکھتے ہیں۔
’’کیا ’اجتہاد‘ جو کیا جائے گا وہ قرآن و حدیث اور سابقہ اجتہادی احکام و قوانین جو خلفائے راشدین کے عہد میں نافذ کیے گئے تھے۔ ان کے محض الفاظ کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا یا آیت و حدیث کی صحیح اسپرٹ کو مدنظر رکھ کر کہ کن اور کب اور کون سے حالات و ماحول اور رجحان کے تحت وہ احکام و قوانین جاری ہوں؟ آج موجودہ قانونی دفعات میں بھی الفاظ (Wording of the Section) کی بندش جتنی اہمیّت رکھتی ہے اس سے زیادہ دیباچہ قانون (Preamble) اہمیّت رکھتا ہے۔ جس کی روشنی میں آئین و قانون کی دفعات تک کالعدم قرار دے دی جاتی ہیں۔ فرض کیجیے جیسا کہ مسلمان روزہ طلوع آفتاب سے غروبِ آفتاب تک رکھتے ہیں لیکن نماز و روزہ کے لیے اوقات کا تعیّن قطبین (Pollars) پر رہنے والے مسلمانوں کے لیے کیا ہو گا جہاں مہینوں لمبی راتیں اور دن ہوتے ہیں؟ اور فرض کیجیے کہ کسی خطے میں قربانی کے لیے گائے، بیل، اونٹ، بھیڑ، بکری، دنبہ وغیرہ دستیاب نہ ہوتے ہوں اور مثلاً وہاں صرف سؤر، خرگوش، مچھلی، گینڈے، ہاتھی اور کتے وغیرہ موجود ہوں یا کچھ نہ ہو، تو وہاں قربانی کی کیا صورت ہو گی؟ کیا قربانی کی صحیح اسپرٹ اور اصل جذبے کے تحت جانور جتنی مالیت، رقم کی صورت میں ، حکومت وقت کے بیت المال میں اگر جمع کر دی جائے یا قوم کی فلاح وبہبود پر خرچ کر دی جائے تو کیا شریعت اس پر اکتفا کرے گی؟
اجتہاد کے لیے الفاظ اور سپرٹ دونوں ہی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے لیکن اسپرٹ کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہے اگر اسپرٹ سے مراد وہ چیز ہے جو بحیثیت مجموعی قرآن کی تعلیمات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل، خلفائے راشدین کے عمل اور بحیثیت مجموعی فقہائے امت کے فہم سے ظا ہر ہوتی ہے، تو بلاشبہ یہ اسپرٹ ملحوظ رکھنے کے قابل ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر الفاظ قرآن اور سنّت سے لیے جائیں اور اسپرٹ کہیں اور سے لائی جائے تو یہ سخت قابلِ اعتراض چیز ہے اور ایسی اسپرٹ کو ملحوظ رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم خدا اور رسول کا نام لے کر ان سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔
قطبین کے متعلق روزے اور نماز کے معاملے میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گاکہ قرآن اور حدیث کی رو سے اصل مقصود خدا کی عبادت ہے یا ان دونوں عبادتوں کو ان خاص اوقات کے اندر ادا کرنا جن کی علامات قرآن اور سنّت میں بتائی گئی ہیں؟ تمام دنیا کا یہ مسلّم قاعدہ ہے کہ کسی حکم سے جو اصل مقصود ہو وہ زیادہ اہمیّت رکھتا ہے اور اگر اس حکم کے متعلقات میں سے کوئی چیز ایسی آ جائے جس کی پابندی کرنے کے ساتھ حکم کے مقصد کو پورا نہ کیا جا سکتا ہو تو مقصد میں ترمیم کرنے کے بجائے ان متعلقات میں ترمیم کی جائے گی۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ قرآن مجید اور سنّت کی رو سے نماز ادا کرنا اور روزہ رکھنا اصل مقصد ہے اور جو اوقات ان عبادتوں کے لیے مقرر کیے گئے ہیں وہ زمین کی بہت بڑی آبادی کی سہولت کو ملحوظ رکھ کر مقرر کیے گئے ہیں۔ زمین کی آبادی کا بہت بڑا حصّہ ان علاقوں میں آباد ہے جہاں رات دن کا اُلٹ پھیر چوبیس گھنٹوں میں ہو جاتا ہے۔ اور ان علاقوں میں چونکہ اکثریت کے پاس ہر وقت گھڑی نہیں رہ سکتی۔ اس لیے ان کی سہولت کو مدنظر رکھ کر اوقاتِ عبادت کے لیے وہ علامات بیان کی گئی ہیں جو اُفق پر یا آسمان پر ظاہر ہونے والی ہیں تاکہ ہر انسان اپنی عبادت کے اوقات بآسانی معلوم کر لے۔ قطبین پر انسانی آبادی کا بہت چھوٹا حصّہ آباد ہے۔ اس آبادی کو نماز اور روزے کے احکام پر عمل کرنے کے لیے اپنے حالات کے لحاظ سے اوقاتِ مقررہ میں مناسب ترمیمیں کرنی ہوں گی کیونکہ ان اوقات کی پابندی اور عبادت کی ادائیگی دونوں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔ ظاہر ہے کہ عبادت کے حکم کو اوقات کے حکم پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ قربانی کے حکم پر عمل کرنے کے لیے صرف دو اصول مدنظر رکھنے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ جانور وہ ہو جو اسلام میں حرام نہیں کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ جانور وہ ہو جو کسی آبادی میں مویشی (cattle) کی حیثیت سے استعمال ہوتا ہو۔ اس طرح قربانی کے حکم پر دنیا کی ہر آبادی میں عمل کیا جا سکتا ہے۔ قربانی بہرحال جانور ہی کی ہونی چاہیے، اس کے بدلے میں کوئی مالی انفاق کی شکل اختیار نہیں کی جا سکتی۔ میں اس موضوع پر تفصیلی بحث اپنے رسالے ’’مسئلہ قربانی‘‘ میں کر چکا ہوں۔ (ترجمان القرآن۔ دسمبر ۱۹۶۱ئ)
٭…٭…٭…٭…٭