Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے قرآن
(۱) ترجمان القرآن کی تنقید
(۲) مصنّف کا جواب
(۳) ’’ترجمان القرآن‘‘ کا جواب الجواب
(۴) ایک دوسرے اہلِ قلم کی طرف سے مصنّف کے نظریہ کی تائید
(۵) ترجمان القرآن کا آخری جواب{ FR 5521 }
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے حدیث
مزارعت کا مسئلہ
اِصلاح کے حدود اور طریقے

مسئلہ ملکیتِ زمین

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مزارعت کا مسئلہ

اب ہمیں اُن احادیث کی تحقیق کرنی چاہیے جن سے یہ گمان ہوتا ہے کہ شریعت زمین کی شخصی ملکیت کو صرف خود کاشتی کی حد تک محدود کر دینا چاہتی ہے اور اسی غرض کے لیے اس نے بٹائی اور نقد لگان کی ممانعت ہے۔ اس مسئلے کی پوری تحقیق کے لیے پہلے ہم ان احادیث کو بہ تمام و کمال نقل کریں گے جن پر اس گمان کی بِنا قائم ہے ، پھر ان پر تنقید کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس معاملہ میں اصل احکامِ شریعت کیا ہیں۔
احادیث کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن روایات میں مزارعت یا کرایہ زمین کی ممانعت وارد ہوئی ہے، یا جن میں یہ حکم آیا ہے کہ آدمی کے پاس خود کاشت سے زائد جتنی زمین ہو اسے دوسروں کو مفت دے دے یا روک رکھے، وہ چھے صحابیوں سے مروی ہیں:
رافعؓ بن خدیج، جابرؓ بن عبداللہ، ابوہریرہؓ، ابوسعیدخدریؓ، زیدؓ بن ثابت اور ثابتؓ بن ضحاک۔ سہولت ِ بیان کی خاطر ہم ان میں سے ہر ایک کی روایات کو الگ الگ نقل کرتے ہیں۔
رافعؓ بن خدیج کی روایات
اس مسئلے نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جس صحابی کے ذریعے سے شہرت پائی ہے وہ حضرت رافعؓ بن خدیج ہی ہیں، اس لیے پہلے انھی کی روایات کو لیجیے۔
۱- رافعؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہV کے زمانہ میں زراعت کے لیے زمینیں لیتے تھے اور تہائی، چوتھائی اور ایک خاص مقدار غلّہ کرایہ کے طور پر مقرر کرتے تھے۔ ایک دن میرے چچائوں میں سے ایک آئے اور انھوں نے کہا کہ رسول اللہV نے ہمیں ایک ایسے کام سے روک دیا ہے جوہمارے لیے نافع تھا، مگر ہمارے لیے اللہ اور رسولؐ کی فرماں برداری زیادہ نافع ہے۔
نھانا ان نحاقل بالارض فتکریھا علی الثلث والربع والطعام المسمّٰی وامر رب الارض ان یزرعھا او یُزرعھا وکرہ کرائھا وما سویٰ ذٰلک
’’آپؐ نے ہمیں اس بات سے منع کر دیا کہ ہم زمینوں میں مزارعت کا معاملہ کریں اور تہائی اور چوتھائی اور مقرر مقدر غلّہ کے عوض انھیں کرایہ پر دیں اور آپ نے یہ حکم دیا ہے کہ مالک زمین یا تو خود کاشت کرے یا دوسرے کو کاشت کرنے کے لیے دے دے اور آپ نے زمین کے کرایہ کو اور اس کے سوا دوسری صورتوں کو ناپسند فرمایا ہے‘‘۔(مسلم)
۲- ایک اور روایت میں حضرت رافعؓ اپنے چچا کا نام ظہیر بن رافع بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے نبی اکرمa نے پوچھا: تم لوگ اپنی کھیتی باڑی کا معاملہ کس طرح کرتے ہو؟ انھوں نے مزارعت کی تفصیل بتائی۔ اس پر آپ نے فرمایا:
فلا تفعلوا ، از رعوھا او ازرعوھا او امسکوھا
’’ایسا نہ کیا کرو، یا خود زراعت کرو، یا دوسروں کو زراعت کے لیے دے دو، یا اپنی زمینوں کو روک رکھو‘‘۔ (مسلم، بخاری، ابن ماجہ)
۳- ایک اور روایت میں حضرت رافعؓ خود اپنا قصہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی کھیتی کو پانی دے رہے تھے۔ وہاں سے رسول اللہA کا گزر ہوا۔ آپؐ نے پوچھا: یہ کس کی کھیتی ہے اور کس کی زمین ہے؟ انھوں نے عرض کیا:
زرعی ببذری وعملی، لی الشطر ولبنی فلان الشطر
’’میری کھیتی ہے اس میں تخم اور عمل میرا ہے۔ آدھی پیداوار میری ہوگی اور آدھی بنی فلاں کی‘‘۔
اس پر نبی اکرمa نے فرمایا:
اربیتما ، فرد الارض علٰی اھلھا وخذ نفقتک (ابوداؤد)
’’تم نے سودی معاملہ کیا، زمین اس کے مالکوں کو واپس کردو اور اپنا خرچ ان سے وصول کرلو‘‘۔{ FR 5637 }
۴- مجاہد کی روایت ہے کہ رافع بن خدیج نے کہا:
نھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن امرٍ کان لنا نافعًا اذا کانت لاحدنا ارض ان یعطیھا ببعض خراجھا وبدراھم وقال اذا کانت لاحدکم ارض فلیمنحھا اَخاہ او لیزرعھا ،
’’رسول اللہ a نے ہمیں ایک ایسے کام سے روک دیا جو ہمارے لیے نافع تھا، یعنی اس بات سے کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس کوئی زمین ہو تو وہ اسے اس کی پیداوار اور نقدی عوض زراعت کے لیے کسی دوسرے شخص کو دے، اور آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی زمین ہو تو یا وہ اپنے کسی بھائی کو یوں ہی دے دے یا خود کاشت کرے‘‘۔(ترمذی)
۵- سعید بن مسیّب نے رافعؓ بن خدیج سے یہ روایت نقل کی ہے:
نھٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المحاقلۃ والمزابنۃ وقال انما یزرع ثلٰثۃ ، رجل لَہٗ ارض فیزرعھا ، ورجل منح ارضا فَھُو یزرع ما منح، ورجل استکریٰ ارضًا بذھب او فضۃ
’’رسول اللہ a نے محاقلہ (بٹائی پر کاشت کرانے) اور مزابنہ (درختوں پر کھجور کی بیع) سے منع فرمایا اور فرمایا کہ زراعت تین ہی آدمی کرسکتے ہیں۔ ایک وہ جس کی اپنی زمین ہو اور وہ اس میں خود کاشت کرے۔ دوسرا وہ جسے کوئی زمین یوں ہی دے دی جائے اور وہ اس میں کھیتی باڑی کرے۔ تیسرا وہ جو سونے اور چاندی کے عوض زمین کرائے پر لے‘‘۔ (ابودائود، ابن ماجہ، نسائی)
مگر نسائی نے ایک دوسری روایت کے ذریعہ سے یہ بتایا ہے کہ دراصل اس حدیث کا صرف پہلا ٹکڑا، یعنی نھٰی عن المحاقلۃ والمزابنہ ہی نبیa کا فرمایا ہوا ہے۔ باقی کلام سعید بن مسیّب کا اپنا تشریحی کلام ہے جو بعد میں اصل حدیث کے ساتھ خلط ملط ہوگیا۔
۶- سلیمان بن یسار نے رافع بن خدیج سے جو روایت نقل کی ہے اس میں وہ اپنے کسی چچا کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے آکر کہا کہ رسول اللہa نے فرمایا ہے:
من کانت لہ ارض فلا یکریھا بطعام مسمّٰی
’’جس کے پاس کوئی زمین ہو وہ غلّے کی ایک مقدار ٹھہرا کر اسے کرائے پر نہ دے‘‘۔
اور دوسری روایت کی رُو سے اُن کے چچا نے بیان کیا کہ رسول اللہ a نے فرمایا ہے:
من کانت لَہٗ ارض فلیزرعھا اورلیزرعھا اخاہ ولا یکاریھا بثُلث ولا بربع ولا بطعام مسمّٰی (ابن ماجہ، ابوداؤد، نسائی)
’’جس کے پاس کوئی زمین ہو اسے چاہیے کہ یا خود زراعت کرے یا اپنے کسی بھائی کو زراعت کے لیے دے دے ، مگر کرائے پہ نہ دے، نہ تہائی پیداوار پر، نہ چوتھائی پر، اور نہ ایک مقرر مقدار غلّہ پر‘‘۔
۷- رافعؓ بن خدیج کے صاحب زادے اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابورافع نے رسول اللہa کے پاس سے آکرہم لوگوں کو بتایا کہ:
نھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن امر کان یرفق بنا ، وطاعۃ اللہ وطاعۃ رسولہٖ ارفق ، نھانا ان یزرع احدنا الا ارضًا یملک رقبتھا او منیحۃ یمنحھا رجل
’’رسول اللہa نے ہمیں ایک ایسے کام سے روک دیا ہے جو ہمارے لیے فائدہ مند تھا، مگر اللہ کی اطاعت اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہمارے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ آپ نے ہمیں اس بات سے منع فرما دیا کہ کوئی شخص کسی زمین میں زراعت کرے، الا یہ کہ یا تو وہ خود اس زمین کا مالک ہو، یا کوئی دوسرا شخص اسے بلامعاوضہ زراعت کے لیے دے دے‘‘۔ (ابوداؤد)
۸- ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ ہم اپنی زمین کرائے پر دیا کرتے تھے، پھر جب ہم نے رافعؓ بن خدیج کی حدیث سنی تو یہ کام چھوڑ دیا۔ دوسری روایت میں ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم مخابرہ (یعنی بٹائی پر کاشت کا معاملہ) کرتے تھے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ پھر رافع نے دعویٰ کیا کہ اللہ کے نبیؐ نے اس سے منع کیا تھا۔ لہٰذا ان کے قول کی وجہ سے ہم نے اسے چھوڑ دیا۔ (مسلم، ابودائود، ابن ماجہ)
جابر بن عبداللہ کی روایات
رافعؓ بن خدیج کے بعد اس مضمون کے احکام کا دوسر ا بڑا ماخذ جابرؓ بن عبداللہ کی روایات ہیں۔ ان میں حسب ذیل احادیث وارد ہوئی ہیں:
۱- نھٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کراء الارض
’’رسول اللہa نے زمین کے کرائے سے منع فرما دیا‘‘۔ (مسلم)
۲- نھٰی عن المخابرۃ
’’آں حضرتؐ نے مخابرہ (بٹائی پر کاشت کرانے) سے منع فرما دیا‘‘۔ (مسلم)
۳- نھٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان توخذ الارض اجرًا وحطًا
’’رسول اللہ a نے اس بات سے منع فرمایا کہ زمین اُجرت پر یا پیداوار کے حصے پر کاشت کے لیے لی جائے‘‘۔ (مسلم)
۴- من کانت لہ ارض فلیزرعھا فان لم یزرعھا فلیزرعھا اخاہ
’’جس کے پاس کوئی زمین ہو اُسے چاہیے کہ خود کاشت کرے، اور اگر خود نہ کرتا ہو تو اپنے کسی بھائی کو کاشت کے لیے دے دے‘‘۔
یہ حدیث مختلف روایتوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے، ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
من کانت لَہٗ فضل ارض لیزرعھا او لیمنحھا اخاہ فان ابٰی فلیمسک ارضہٗ
’’جس کے پاس فاضل زمین ہو اسے چاہیے کہ یا خود کاشت کرے یا اپنے کسی بھائی کو دے دے، لیکن اگر وہ نہ دینا چاہے تو پھر اپنی زمین کو روک رکھے‘‘۔
دوسری روایت میں ہے:
فلیھبھا او لیعرھا
’’اسے چاہیے کہ ہبہ کردے یا عاریتاً دے دے‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے:
ولا یواجرھا ایاہ
’’اسے اُجرت پر نہ دے‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے:
ولا یکریھا
’’اسے کرایہ پر نہ دے‘‘۔ (مسلم، بخاری، ابن ماجہ)
۵- نھٰی عن بیع ارض البیضاء سنتین او ثلاثًا
’’آں حضرت a نے خالی زمین کو دو تین سال کے لیے بیچنے سے منع فرمایا‘‘۔
دوسری روایت میں ہے:
عن بیع السنین
’’چند سال کے لیے بیع کرنے سے‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے:
عن بیع ثمر سنین
’’چند سال کے ثمرہ کی بیع سے‘‘۔ (مسلم)
۶- سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینھٰی عن المزابنۃ والحقول
’’جابرؓ نے رسول اللہa کو مزابنہ اور حقوں سے منع کرتے ہوئے سنا‘‘۔
پھر حضرت جابرؓ نے خود ہی ’’مزابنہ‘‘ کی تشریح یہ کہ اس سے مراد ’’کھجوروں کے بدلے ثمرہ بیچنا ہے‘‘۔ اور ’’حقول‘‘ کی تشریح میں کہا کہ اس سے مراد ’’زمین کو کرایہ پر دینا ہے‘‘۔ (مسلم)
۷- سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من لم یذر المخابرۃ فلیؤذن بحرب من اللہ ورسولہٖ
’’میں نے رسول اللہa کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص مخابرہ نہ چھوڑے اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے‘‘۔ (ابودائود)
مزید تائیدی روایات
باقی چار صحابیوں کی روایات جو مذکورہ بالا احادیث کی مزید تصدیق و تائید کرتی ہیں، حسب ذیل ہیں:
حضرت ابوہریرہؓ سے:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کانت لَہٗ ارض فلیزرعھا او لیمنحھا اخاہ فان ابٰی فلیمسک ارضہ (بخاری، مسلم، ابن ماجہ)
’’رسول اللہa نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو وہ یا تو خود کاشت کرے، یا اپنے بھائی کو بلامعاوضہ دے دے، لیکن اگر وہ نہ دینا چاہے تو اپنی زمین کو روک رکھے‘‘۔
نھٰی عن المحاقلۃ والمزابنۃ (مسلم، ترمذی)
’’آں حضرتa نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا‘‘۔
حضرت ابوسعیدؓ خدری سے:
نھٰی عن المزابنۃ والمحاقلۃ ، والمزابنۃ اشتراء الثمر فی روس النخل والمحاقلۃ کراء الارض (مسلم، ابن ماجہ)
’’حضورa نے مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا۔ مزابنہ سے مراد درختوں پر کھجور کے ثمرہ کی خریداری ہے اور محاقلہ سے مراد زمین کا کرایہ ہے‘‘۔
ثابتؓ بن ضحاک سے:
نھٰی عن المزارعۃ (مسلم)
’’حضورa نے مزارعت سے منع فرما دیا‘‘۔
زیدؓ بن ثابت سے:
نھٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المخابرۃ ، قلت وما المخابرۃ؟ قال ان تاخذ الارض بنصف او ثلث او ربع (ابوداؤد)
’’رسول اللہ a نے مخابرہ سے منع فرمایا۔ ثابت بن حجاج نے حضرت زیدؓ بن ثابت سے پوچھا کہ مخابرہ کے کیا معنی ہیں؟ حضرت زیدؓ نے جواب دیا: اس کا مطلب یہ ہے کہ تم آدھی یا تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض زمین لو‘‘۔
تنقید بلحاظ نقل روایت
اُوپر ہم نے وہ تمام روایات لفظ بہ لفظ نقل کردی ہیں جن پر اس مسئلے کا مدار ہے کہ اسلام میں بٹائی اور نقد لگان کی ممانعت کی گئی ہے اور خود کاشت کرنے یا مفت زمین عطا کردینے کا حکم دیا گیا ہے۔ غالباً اس سلسلہ کی کوئی قابلِ ذکر اور لائقِ اعتنا ء روایت ہم سے چھوٹ نہیں گئی ہے۔ آیئے اب ہم ذرا ان پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آیا فی الحقیقت اس معاملہ میں اسلام کا مسلک وہی ہے جو ان کثیر التعداد روایات سے ظاہر ہوتا ہے؟
ہرشخص جانتا ہے کہ رسول اللہ a محض ایک مفتی اور معلّم ہی نہ تھے بلکہ ملک کے حاکم بھی تھے اور عملاً پورا نظم و نسق آپ کے ہاتھ میں تھا۔
ہرشخص یہ بھی جانتا ہے کہ زمین کا معاملہ دوچار یا پانچ دس افراد کی نجی اور شخصی زندگی کا کوئی اِتفاقی و ہنگامی معاملہ نہیں ہے کہ اس کا حکم بس چند آدمیوں کے کان میں چپکے سے کہہ دیا جاتا۔ یہ تو ایک پوری سلطنت کے نظم و نسق سے تعلق رکھنے والی چیز ہے جس سے لاکھوں آدمیوں کی معیشت مستقل طور پر متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا اس معاملہ میں جو پالیسی بھی آں حضرتa نے اختیار کی تھی وہ آپؐ کے زمانہ میں اور آپؐ کے خلفا کے زمانے میں ایک نہایت مشہور و معروف بات ہونی چاہیے تھی۔
پھر کوئی ایسا شخص جو نبی اکرمa کی سیرت و شخصیت اور آپ کے خلفائے راشدینؓ کی زندگی اور آپؐ کے صحابہ کرام کے حالات سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہو یہ گمان بھی نہیں کرسکتا کہ نبیa معاذاللہ ان لوگوں میں سے تھے جو زبان سے ایک چیز کو غلط کہیں اور اسے رائج رہنے دیں اور زبان سے ایک دوسرے طریقہ کو برحق کہیں اور عملاً اسے جاری نہ کریں۔ یا یہ کہ حضور ایک طریقہ کو روکنا اور دوسرے طریقے کو رائج کرنا چاہتے ہوں اور صحابہ کرامؓ مان کر نہ دیں۔ یا یہ کہ خلفائے راشدینؓ کو یہ معلوم ہوچکا ہو کہ حضورa کسی رواج کا انسداد کر کے ایک دوسرا اصلاحی طریقہ جاری کرنا چاہتے تھے اور پھر وہ اپنے تمام زمانۂ خلافت میں آپ کے منشا کو عملی جامہ پہنانے سے باز رہ جائیں۔
یہ تین حقیقتیں ایسی ظاہرو باہر ہیں جن سے کسی صاحب ِ عقل و فکر اور صاحب ِ علم و نظر آدمی کے لیے مجالِ انکار نہیں ہے۔ اب اگر آپ یہ سنیں کہ نبی a کے زمانے سے لے کر حضرت امیرمعاویہؓ کی خلافت کے وسط تک، یعنی تقریباً ۵۰سال تک مذکورہ بالا پانچ چھے اصحاب کے سوا کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ آں حضرتa نے بٹائی اور لگان پر زمین کاشت کے لیے دینے کو منع فرمایا ہے، اور یہ کہ نبیa خود اور تمام اکابر صحابہؓ اور آپؐ سے قریب ترین تعلق رکھنے والے تمام بڑے بڑے گھرانے بٹائی پر زمینیں دیتے رہے، اور یہ کہ خلافت ِ راشدہ کے پورے عہد میں یہی طریقہ رائج رہا، تو کیا آپ حیرت سے ہک دَک نہ رہ جائیں گے؟ حقیقت میں یہ ہے نہایت حیرت نگیز بات، مگر واقعہ یہی ہے۔ ہم ان روایات کو یہاں نمبروار نقل کرتے ہیں جن سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
۱- نافعؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی زمینیں رسول اللہa کے زمانہ میں اور آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں برابر کرائے پر دیتے رہے۔ امیرمعاویہؓ کی خلافت کا آخری زمانہ آیا (یعنی تقریباً ۵۰ھ یا اس کے بعد کا زمانہ) تو انھیں یہ خبر پہنچی کہ رافعؓ بن خدیج نبی اکرمa سے اس فعل کی ممانعت کا حکم روایت کرتے ہیں۔ یہ سن کر وہ رافعؓ بن خدیج سے ملنے گئے اور مَیں اُن کے ساتھ تھا۔ انھوںنے رافع سے پوچھا کہ یہ کیا روایت ہے؟ جو تم بیان کرتے ہو۔ رافعؓ نے کہا کہ رسول اللہa زمینوں کے کرائے سے منع فرماتے تھے۔ اس پر ابن عمرؓ نے زمینیں کرائے پر دینا بند کردیں ، اور جب کبھی ان سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ جواب دیتے کہ رافع بن خدیجؓ کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہa نے اس سے منع فرما دیا تھا۔
اسی سے ملتی جلتی روایت خود حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے صاحب زادے حضرت سالمؓ روایت کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عبداللہؓ کے سوال پر حضرت رافعؓ نے انھیں جواب دیا کہ مَیں نے اپنے دو چچائوں کو، جو بدری صحابی تھے ، گھر والوں سے یہ کہتے سنا تھا کہ رسول اللہa نے زمین کے کرائے سے منع کیا ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ نے فرمایا:
لقد کنت اعلم فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان الارض تکریٰ
’’مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں زمینیں کرائے پر دی جاتی تھیں‘‘۔
مگر حضرت عبداللہؓ نے اس ڈر سے کہ شاید رسول اللہa نے اس سے منع کیا ہو اور مجھے نہ معلوم ہواہو، اپنی زمینیں کرائے پر دینا بند کر دیں‘‘۔ (بخاری، مسلم ، ابوداؤد، ابن ماجہ)
دیکھیے عبداللہ بن عمرؓ وہ شخص ہیں جن کی حقیقی بہن رسول اللہ a کے نکاح میں تھیں۔ جن کے والد، حضرت عمرؓ، نبی اکرمؐ اور حضرت ابوبکرؓ کے معتمد ترین وزیر رہے اور پھر خود دس سال تک اسلامی حکومت کے خلیفہ رہے۔ کیا یہ ممکن تھا کہ اُنھیں پورے زمانۂ نبوت اور پورے زمانۂ خلافت ِ راشدہ میں یہ خبر نہ ہوتی کہ زمینوں کے بارے میں اسلام کا قانون کیا ہے؟ اور کیا یہ ممکن تھا کہ حضرت عمرؓ کی زندگی میں ان کا اپنا بیٹا خود ان کی طرف سے اُن کے گھر کی زمین داری کا انتظام ایسے طریقے پر کرتا رہتا جو اسلامی قانون میں ممنوع تھا؟{ FR 5673 }
۲- ابن عمرؓ ہی کی روایت ہے، اور عبداللہ بن عباسؓ اور انسؓ بن مالک کی روایات اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ نبی اکرمa نے خیبر پر حملہ کیا۔ اس کا کچھ حصہ صلحا ً فتح ہوا اور کچھ بزورِ شمشیر مغلوب ہوا ۔ آںحضرتؐ نے آدھے علاقے کو حکومت کی ضروریات کے لیے مخصوص فرما دیا اور آدھے علاقے کو اٹھارہ سو حصوں میں تقسیم کر کے ان پندرہ سو مجاہدین پر بانٹ دیا جو غزوئہ خیبر میں شریک تھے۔ (یعنی بارہ سو پیادوں کا اکہرا حصہ اور تین سو سواروں کا دوہرا حصہ) پھر آپؐ نے ارادہ فرمایا کہ یہودی باشندوں کو علاقہ مفتوحہ سے نکال دیں مگر یہودیوں نے آکر عرض کیا کہ آپ ہمیں یہاں رہنے دیں، ہم آپ کی طرف سے یہاں کاشت کریں گے،آدھی پیداوار آپ لے لیجیے گا اور آدھی ہم لے لیں گے۔{ FR 5679 } آں حضرتؐ نے یہ دیکھ کر کہ آپ کے پاس کام کرنے والے آدمیوں کی کمی ہے، ان کی بات مان لی اور ان سے فرمایا کہ ہم جب تک چاہیں گے تمھیں رکھیں گے اور جب چاہیں گے تمھیں یہاں سے نکال دیں گے۔ چنانچہ ان شرائط پر آپ نے ان سے معاملہ طے کرلیا۔ وہ کاشت کاروں کی حیثیت سے خیبر میں کام کرتے تھے۔ آدھی زمین کی مالک حکومت تھی اور بقیہ نصف کے مالک وہ پندرہ سو حصہ دار تھے جن پر اٹھارہ سو قطعات تقسیم کیے گئے تھے۔ بٹائی کے معاہدے کی رُو سے جو نصف پیداوار وہاں سے آتی تھی اسے حکومت اور حصہ داروں کے درمیان تقسیم کردیا جاتا تھا۔ نبی اکرمa کا اپنا حصہ بھی عام حصہ داروں کے ساتھ تھا۔ چنانچہ آپ میں سے ہرسال ایک خاص مقدار میں غلہ اور کھجوریں اپنی اَزواجِ مطہراتؓ کو برابر برابر دیا کرتے تھے۔ یہ بندوبست حضوؐر کے آخر حیات تک جاری رہا۔ اسی پر حضرت ابوبکرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں عمل کیا۔ اسی پر حضرت عمرؓ اپنے ابتدائی زمانہ میں کاربند رہے۔ پھر جب یہودیوں نے خیبر میں پیہم شرارتیں کیں اور حضرت عمرؓ کی رائے یہ ہوئی کہ معاہدے کے مطابق ان کو وہاں سے نکال دیا جائے تو آپ نے اعلان کیا کہ خیبر میں جس جس کا حصہ ہے وہ جاکر اپنی اپنی زمین سنبھال لے۔ اَزواجِ مطہراتؓ کے سامنے حضرت عمرؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ آپ میں سے جو جو پسند کریں وہ اتنی زمین لے لیں جس کی پیداوار اسی قدر ہو جس قدر غلّہ اور ثمرہ آپ کو نبیa کے زمانے سے ملتا آرہا ہے، اور جو چاہیں اپنے حصہ کی زمین حکومت کے انتظام میں رہنے دیں اور اتنا ہی غلہ اور ثمرہ حکومت سے لیتی رہیں۔ اس تجویز کے مطابق بعض اَزواجِ مطہراتؓ نے غلّہ اور ثمرہ پسند کیا۔ اور حضرت عائشہ اور حضرت حفصہd نے زمین لے لی۔{ FR 5685 } اس کے بعد حضرت عمرؓ نے یہودیوں کو خیبر سے منتقل کر کے تیما اور اریجا میں بسا دیا۔ (بخاری، مسلم، احمد، ترمذی، ابودائود، نسائی، ابن ماجہ)
یہ عہد ِ نبوت و خلافت کے مشہور ترین واقعات میں سے ہے اور اس کی صحت میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں صریح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ نبی a نے خود بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دی ہے، اپنی طرف سے بھی، حکومت کی طرف سے بھی، اور ان پندرہ سو افراد کی طرف سے بھی جن کا حصہ خیبر میں تھا۔ اس طریقہ پر آپ اپنے آخری لمحۂ حیات تک عامل رہے، اور آپ کے بعد شیخین کا عمل بھی اسی پر رہا۔ کیا اس کے بعد بھی کسی کو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ اسلامی قانون میں بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دینا ممنوع تھا؟
اس کے جواب میں جو لوگ کہتے ہیں کہ خیبر کا معاملہ بٹائی کا نہیں بلکہ خراج کا معاملہ تھا، ان کی بات صحیح نہیں ہے۔ خیبر کی آدھی زمین جو حکومت کی مِلک قرار دی گئی تھی اُس کی بٹائی تو بے شک خراج تھی لیکن جو بقیہ نصف اراضی مجاہدین کے درمیان تقسیم کردی گئی تھی ان کی بٹائی کو ’’خراج‘‘ کا نام کیسے دیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’خیبر کے یہودی باقاعدہ ذمی رعایا نہ تھے، کیوں کہ ان پر جزیہ نہیں لگایا گیا تھا، اس لیے مسلمان مجاز تھے کہ ان سے جو چاہتے لیتے‘‘، اُن کی بات بھی صحیح نہیں ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ قرآنِ مجید میں جزیہ کے احکام غزوئہ خیبر کے وقت نازل ہی نہ ہوئے تھے۔ پھر بھلا احکامِ جزیہ کی غیرموجودگی میں جزیہ نہ عائد کیے جانے پر کسی قانونی استدلال کی بِنا کیسے رکھی جاسکتی ہے؟ اہلِ خیبر کا ذمّی ہونا تو اس سے ظاہر ہے کہ اسلامی حکومت نے انھیں ایک باضابطہ قرارداد کے مطابق اپنے ملک میں آباد رہنے دیا، ان پر خراج عائد کیا اور ان پر دیوانی و فوج داری قوانین اسی طرح نافذ کیے جس طرح وہ مسلمان رعایا پر نافذ کیے جا رہے تھے۔
ابوداؤد کی روایت ہے کہ جب خیبر کی قرارداد ہوچکی اور مسلمان یہودیوں کی بستیوں میں چلنے پھرنے لگے تو بعض مسلمان یہودیوں پر کچھ دست درازی کربیٹھے۔ اس کی شکایت یہودیوں نے نبیa سے کی۔ اس پر آپؐ نے ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:
’’اللہ نے تمھارے لیے یہ حلال نہیں کیا ہے کہ اہلِ کتاب کے گھروں میں بلااجازت گھسو اور ان کے بال بچوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جائو، حالاں کہ جو کچھ ان پر واجب تھا وہ انھوں نے تمھیں ادا کردیا ہے‘‘۔
کیا یہ اہلِ خیبر کے ذمّی ہونے کی کھلی دلیل نہیں ہے؟ اسلامی قانونِ فوجداری میں قسامت کے قاعدہ کا تو ماخذ ہی وہ واقعہ ہے جو خیبر میں ایک مسلمان کے خفیہ قتل کا پیش آیا تھا۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کو قانون کی نگاہ میں مسلمانوں کے برابر حیثیت حاصل تھی۔ اگر کہا جائے کہ جب یہ بات تھی تو آیت ِ جزیہ کے نزول کے بعد ان پر جزیہ کیوں لگایا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ نزولِ آیت سے پہلے ایک معاہدہ طے ہوچکا تھا ان پر ایک نئی شرط کا اضافہ کر دینا کیوں کر جائز ہوسکتا تھا۔ اگر کہا جائے کہ جب وہ ذمّی تھے تو پھر انھیں خیبر سے نکالا کیوں گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا اخراج اس قرارداد کے مطابق تھا جو انھیں ذمّی بناتے وقت ان سے طے ہوچکی تھی۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عمرؓ نے انھیںمنتقل کیا اور دوسرے حصے (یعنی تیما اور اَریجا) میں لے جا کر بسا دیا۔{ FR 5696 }
پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ مزارعت کا نہیں تھا کیوں کہ اس میں مدت کا تعین نہ ہوا تھا، ان کی بات بھی صحیح نہیں ہے۔ نبی اکرمa نے جو معاملہ ان سے طے کیا تھا اس میں من جملہ شرائط کے ایک شرط یہ بھی تھی کہ:
نقرکم بھا علٰی ذٰلک ما شئنا
’’ہم اس قرارداد پر جب تک چاہیںگے تمھیں یہاں رکھیں گے‘‘۔
اس میں مدت کا تعیین بلحاظِ وقت نہیں بلکہ بلحاظِ مشیت ِ مالک کیا گیا تھا اور یہ ان مخصوص حالات کی وجہ سے تھا جن میں اُس وقت یہودیوں سے معاملہ طے ہوا تھا۔ اتنی سی بات کی وجہ سے یہ فیصلہ کر دینا درست نہیں ہے کہ خیبر کا معاملہ سرے سے مزارعت کا معاملہ نظر آتا ہے۔{ FR 5697 }
۳- حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے (اور خیال رہے کہ یہ حضرت ابوہریرہؓ وہی ہیں جن سے اُوپر بٹائی اور لگان کی ممانعت اور خود کاشت کرنے یا مفت زمین دینے کی ہدایت نقل کی جاچکی ہے) کہ جب نبیa مدینہ تشریف لائے تو انصار نے آکر عرض کیا:
اقسم بیننا وبین اخواننا النخل
’’آپ ہمارے نخلستانوں کو ہمارے درمیان اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان بانٹ دیں‘‘۔
مگر آں حضرتa نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر انصار نے مہاجرین سے کہا:
تکفرنا العمل ونشرککم فی الثمرۃ
’’آپ لوگ ہماری طرف سے ان نخلستانوں میں کام کریں اور ہم آپ کو ثمرہ میں شریک کریں گے‘‘۔
اس پر مہاجرین نے کہا:
سمعنا واطعنا
’’یہ بات بخوشی منظور ہے‘‘۔ (بخاری)
۴- قیس بن مسلم حضرت ابوجعفر (یعنی امام محمد باقرb) سے روایت کرتے ہیں کہ مدینے میں مہاجرین کا کوئی گھرانا ایسا نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی حصہ پیداوار کے عوض کاشت نہ کرتا ہو۔ امام بکاری اس روایت کو نقل کرنے کے بعد پھر اس کی تائید میں مزید نظائر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بٹائی پر معاملہ حضرت علیؓ نے کیا ہے، سعد بن مالک اور عبداللہ بن مسعودؓ نے کیا ہے، عمر بن عبدالعزیز اور قاسم اور عروہ نے کیا ہے،{ FR 5753 } آلِ ابوبکرؓ، آلِ علیؓ ، آلِ عمرؓ{ FR 5754 }، سب بٹائی پر کاشت کراتے رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ لوگوں سے اس طرح معاملہ کیا کرتے تھے کہ اگر ’’عمرؓ اپنے پاس سے بیج دے گا تو آدھی پیداوار لے گا اور اگر کاشت کار اپنا بیج لائیں تو ان کا حصہ اتنا ہوگا‘‘۔{ FR 5755 } (بخاری، باب المزارعۃ بالشطر ونحوہ)
۵- حضرت ابوجعفرؓ (امام محمدباقرb) کی ایک اور روایت ہے جس میں وہ تصریح کرتے ہیں کہ:
کان ابوبکر یعطی الارض علی الشطر(طحاوی)
’’حضرت ابوبکرؓ اپنی زمین نصف نصف کی بٹائی پر زراعت کے لیے دیتے تھے‘‘۔
۶- ابن ابی شیبہ نے حضرت علیؓ کا قول نقل کیا ہے کہ:
لاباس بالمزارعۃ بالنصف (کنزالعمال)
’’نصف نصف کی بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے‘‘۔
۷- طاؤس کی روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ اپنی زمین نبیa کے زمانے میں اور آپ کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں تہائی اور چوتھائی پیداوار کی بٹائی پر زراعت کے لیے دیتے رہے (ابن ماجہ)۔ اس حدیث میں غلطی صرف اتنی ہے کہ طائوس نے حضرت عثمانؓ کے عہد کا بھی ذکر کر دیا ہے، حالانکہ حضرت معاذؓ کا انتقال حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوچکا تھا ۔ لیکن محض اس غلطی کی بناپر طائوس جیسے شخص کی پوری روایت کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔{ FR 5756 } خصوصاً جب کہ اس روایت کی سند میں سب ثقہ لوگ ہیں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ حضرت معاذؓ بن جبل وہ شخص ہیں جن کو رسول اللہ a نے یمن کا قاضی اور عامل زکوٰۃ مقرر فرمایا تھا، جن کے متعلق حضورa کا ارشاد تھا کہ:
اعلمھم بالحلال والحرام
’’وہ صحابہ میں سب سے زیادہ حلال و حرام کی واقفیت رکھتے ہیں‘‘۔
اور جنھیں حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کے بعد پورے شام کا فوجی گورنر مقرر کیا تھا۔ کیا یہ ممکن تھا کہ ایسے شخص کو یہ بھی معلوم نہ ہو تاکہ زمین کے بارے میں اسلام کا قانون کیا ہے؟
۸- موسیٰ بن طلحہؓ کی روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے عبداللہ بن مسعودؓ، عمارؓ بن یاسر، خبابؓ بن اَرتّ اور سعدؓ بن مالک کو زمینیں عطا کی تھیں۔ ان میں سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور سعدؓ بن مالک اپنی زمینیں تہائی اورچوتھائی پیداوار کی بٹائی پر کاشت کے لیے دیتے تھے۔ (کتاب الخراج لابی یوسف)
ان شواہد و نظائر سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ مزارعت کا طریقہ عہد نبوت و خلافت ِ راشدہ میں بالعموم رائج تھا۔ خود نبی اکرمa اور خلفائے راشدین اور صحابہؓ کے تمام زراعت پیشہ گھرانے اس پر عامل تھے، اور رافعؓ بن خدیج وغیرہ حضرات کی روایات پھیلنے تک پورے ۵۰سال کے دوران میں کسی کو یہ بات سرے سے معلوم ہی نہ تھی کہ اس معاملہ میں کسی قسم کے امتناعی احکام موجود ہیں۔
تنقید بلحاظِ عقل و درایت
اب ذرا اس معاملہ کو ایک دوسرے رُخ سے بھی دیکھیے۔ اسلام کے احکام ایک دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے سے متناقض و متصادم نہیں ہیں۔ اس کی ہدایت اور اس کے قوانین میں سے ہر ایک چیز اس کے مجموعی نظام میں اس طرح ٹھیک بیٹھتی ہے کہ دوسرے تمام احکام و قوانین کے ساتھ اس کا جوڑ مل جاتا ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس دین کے من جانب اللہ ہونے کا ایک نمایاں ثبوت قرار دیا ہے۔ لیکن اگر ہم یہ مان لیں کہ شریعت میں مزارعت ناجائز ہے اور یہ کہ شارع زمین کی ملکیت کو خود کاشتی تک محدود کرنا چاہتا ہے، اور یہ کہ شارع آدمی کو اس بات پرمجبور کرتا ہے کہ خودکاشتی کی حد سے زائد جتنی زمین اس کے پاس موجود ہو اسے یا تو دوسروں کو مفت دے دے یا بے کار ڈال رکھے، تو ذرا سا غور کرنے پر ہمیں علانیہ یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ احکام اسلام کے دوسرے اصول اور قوانین سے مناسبت نہیں رکھتے اور انھیں اسلامی نظام میں ٹھیک بٹھانے کے لیے دُور دُور تک اس نظام کی بہت سی چیزوں میں ترمیم ناگزیر ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر تناقض کی چند نہایت صریح صورتیں ملاحظہ ہوں:
۱- اسلامی نظام میں مملکت کے حقوق صرف ہٹے کٹے مردوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ عورتوں، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کو بھی یہ حقوق پہنچتے ہیں۔ اگر مزارعت ممنوع ہو تو ان سب کے لیے زرعی ملکیت بالکل بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔
۲- اسلامی قانونِ وراثت کی رُو سے جس طرح ایک آدمی کی میراث اس کے مرنے پر بہت سے آدمیوں کے درمیان بٹ جاتی ہے، اسی طرح بسااوقات بہت سے مرنے والوں کی میراث ایک آدمی کے پاس جمع بھی ہوسکتی ہے۔ اب یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اسلام کا قانونِ وراثت تو بیسیوں اور سیکڑوں ایکڑ تک زمین ایک شخص کے پاس سمیٹ لائے، مگر اس کا قانونِ زراعت اس کے لیے ایک محدود رقبے کے سواباقی تمام ملکیت سے انتفاع کو حرام قرار دے۔
۳- اسلامی قانونِ بیع و شرا نے کسی نوعیت کی جائز اشیا کے معاملہ میں بھی انسان پر یہ پابندی عائد نہیں کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک مخصوص حد تک ہی انھیں خرید سکتا ہو اور اس حد سے زیادہ سے زیادہ کی خریداری کا مجاز نہ ہو۔ خریدو فروخت کا یہ غیرمحدود حق جس طرح تمام جائز چیزوں کے معاملہ میں آدمی کو حاصل ہے۔ اسی طرح زمین کے معاملہ میں بھی حاصل ہے لیکن یہ بات پھر نہایت عجیب معلوم ہوتی ہے کہ دیوانی قانون کی رُو سے تو ایک شخص جتنی چاہے زمین خرید سکے، مگر قانونِ زراعت کی رُو سے وہ ایک حد خاص سے زائد ملکیت کا نفع اُٹھانے کا حق دار نہ ہو۔
۴- اسلام نے کسی نوع کی ملکیت پر بھی مقدار اور کمیت کے لحاظ سے کوئی حد نہیں لگائی ہے۔ جائز ذرائع سے جائز چیزوں کی ملکیت، جب کہ اس سے تعلق رکھنے والے شرعی حقوق و واجبات ادا کیے جاتے رہیں، بلاحد و نہایت رکھی جاسکتی ہے۔ روپیہ پیسہ، جانور، استعمالی اشیا ، مکانات، سواری، غرض کسی چیز کے معاملہ میں بھی قانوناً ملکیت کی مقدارپر کوئی حد نہیں ہے۔ پھر آخر تنہا زرعی جائداد میں وہ کون سی خصوصیت ہے جس کی بنا پر صرف اس ایک معاملہ میں شریعت کا میلان یہ ہو کہ آدمی کے حقوقِ ملکیت کو مقدار کے لحاظ سے محدود کردیا جائے، یا انتفاع کے مواقع سلب کر کے ایک حد ِ خاص سے زائد ملکیت کو آدمی کے لیے عملاً بے کار کر دیا جائے۔{ FR 5757 }
۵- اسلام نے احسان اور فیاضی کی تعلیم تو زندگی کے ہرمعاملہ میں دی ہے، لیکن واجبی حقوق وصول کرلینے کے بعد پھر کسی معاملہ میں بھی ہم اس کا یہ طریقہ نہیں دیکھتے کہ وہ فیاضی کو آدمی پر فرض قرار دیتا ہو۔ مثلاً جو شخص زکوٰۃ ادا کرچکا ہے، اسلام اسے یہ ترغیب تو ضرور دیتا ہے کہ وہ اپنا ضرورت سے زائد روپیہ حاجت مند لوگوں کو بخش دے، مگر وہ اس بخشش و سخاوت کو فرض نہیں کرتا اور نہ یہ کہتا ہے کہ حاجت مند کو قرض کی شکل میں روپیہ دینا، یا مضاربت کے اُصول پر روپیہ دے کر اس کے کاروبار میں شریک ہو جانا حرام ہے، بلکہ مدد صرف عطا اور بخشش ہی کی شکل میں ہونی چاہیے۔ اسی طرح مثلاً جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد مکانات ہوں، یا ایک بڑا مکان اس کی ذاتی ضرورت سے زیادہ کی گنجائش رکھتا ہو، اسلام بہت پسند کرتا ہے کہ آدمی اپنے ایسے مکانات اور گنجائشوں سے ان لوگوں کو فائدہ اُٹھانے کا مفت موقع دے دے جو گھر نہ رکھتے ہوں۔ لیکن اس نے یہ نہیں کہ یہ موقع لازماً مفت ہی دیا جانا چاہیے، کرایہ پر مکان دینا حرام ہے۔ ایسا ہی معاملہ ضرورت سے زائد کپڑوں، برتنوں اور سواریوں وغیرہ کا بھی ہے کہ ان میں سے ہرایک کو فیاضانہ طریقہ سے مفت دے دینا پسند تو ضرور کیا گیا ہے مگر فرض نہیں کیا گیا اور فروخت کرنے یا کرایہ پر دینے کو حرام نہیں ٹھہرایا گیا۔ اب آخر زرعی زمین میں وہ کیا خصوصیت ہے جس کی بنا پر صرف اسی کے معاملہ میں اسلام اپنے اس عام اصول کو بدل دے اور آدمی سے اس کی پیداوار پر زکوٰۃ وصول کرلینے کے بعد اسے اس بات پر بھی مجبور کرے کہ وہ اپنی ضرورت سے زائد زمین لازماً دوسروں کو مفت دے دے اور شرکت یا مضاربت کے اصول پر ان سے معاملہ ہرگز نہ کرے۔
۶- اسلامی قانون نے تجارت، صنعت اور معاشی کاروبار کے تمام شعبوں میں آدمی کو اس بات کی کھلی اجازت دی ہے کہ وہ نفع و نقصان کی شرکت کے اصول پر دوسروں کے ساتھ معاملہ کرلے۔ ایک شخص دوسرے کو اپنا روپیہ دے سکتا ہے اور طے کرسکتا ہے تو اس سے کاروبار کر، نفع ہو تو اس میں آدھے یا چوتھائی کا مَیں حق دار ہوں۔ ایک شخص دوسرے کو اپنا سرمایہ کسی عمارت کی شکل میں، کسی مشین یا انجن کی شکل میں ، کسی موٹریا کشتی یا جہاز کی شکل میں بھی دے سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ تو اس پر کام کر، جو نفع اپنا سرمایہ زمین کی شکل میں دوسرے کو دے کر یہ نہ کہہ سکے کہ تو اس میں کاشت کر، پیداوار میں تہائی یا چوتھائی یا نصف کا مَیں شریک ہوں؟
یہ چند نمایاں ترین مثالیں ہیں جن پر نگاہ ڈال کر آدمی بیک نظر دیکھ سکتا ہے کہ یہ مزارعت کی حُرمت اور یہ خود کاشتی کی قید، اور یہ ملکیت ِ زمین کے لیے رقبے کی حدبندی اسلام کے مجموعی نظام میں کسی طرح ٹھیک نہیں بیٹھتی۔ اسے کھپانا ہو تو دوسرے بہت سے اصول و قوانین کو بدلنا پڑے گا۔ دوسرے اصول و قوانین اپنی جگہ رہیں تو یہ ہرقدم پر ان سے متصادم ہوتی رہے گی۔
امتناعی احکام کا اصل مفہوم
پھر کیا نقل اور عقل کے ان دلائل کی بنا پر یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ وہ تمام احادیث غلط ہیں جو اس کثرت سے ثقہ راویوں نے اتنے صحابیوں سے روایت کی ہیں؟ نہیں ، اصل بات یہ نہیں ہے کہ یہ روایتیں جھوٹی یا ضعیف ہیں۔ اصل حقیقت صرف یہ ہے کہ ان میں ادھوری بات بیان ہوئی ہے جس کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ خود رافعؓ بن خدیج اور جابرؓ بن عبداللہ وغیرہ حضرات کی دوسری روایتیں جب ہمارے سامنے آتی ہیں، اور بعض دوسرے جلیل القدر صحابہؓ کی توضیحات کو جب ہم دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ دراصل نبی اکرمa نے فرمایا: کچھ اور تھا اور وہ روایات میں بیان کسی اور طرح ہوگیا۔
رافعؓ بن خدیج کی توضیحات
جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، امیرمعاویہؓ کے ابتدائی دورِ حکومت تک تمام بلادِ اسلامیہ میں بالعموم سب ہی بٹائی اور لگان کا معاملہ کرتے تھے اور کسی کو یہ گمان تک نہ تھا کہ اس میں کسی قسم کی شرعی قباحت ہے۔ اس لیے جب ۵۰ھ کے لگ بھگ زمانہ میں یکایک یہ خبر مشہور ہوئی کہ بعض صحابی اس چیز کی ممانعت کا حکم نبیa سے روایت کرتے ہیں تو ہر طرف ایک کھلبلی سی مچ گئی اور لوگ مجبور ہوئے کہ صحابہ کرامؓ کے پاس جاکر تحقیق کریں کہ نبی a نے فی الحقیقت کیا حکم دیا ہے، کن حالات میں دیا ہے، اور کس چیز کے متعلق دیا ہے؟ اس سلسلہ میں خود ان صحابیوں سے بھی پوچھ گچھ کی گئی جن سے مزارعت اور کرایۂ زمین کی ممانعت کے اَحکام مروی ہوئے تھے، اور دوسرے صحابہؓ سے بھی پوچھا گیا۔ اس طرح جو بات کھلی وہ ہم ذیل میں خود انھی بزرگوں کی زبان سے نقل کرتے ہیں۔
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں: میں نے رافع بن خدیجؓ سے پوچھا: سونے اور چاندی کی شکل میں زمین کا کرایہ طے کرنا کیسا ہے؟ انھوں نے کہا: کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے بعد انھوں نے مزید تشریح کے طور پر فرمایا:
انما کان الناس یواجرون علٰی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علٰی الماذیانات واقبال الجد اوّل واشیاء من الزرع فیھلک ھٰذا ویسلَم ھٰذا ویسلم ھٰذا ویھلک ھٰذا ، فلم یکن للناس کراء الا ھٰذا فلذٰلک زجر عنہٗ واما شی ء معلوم مضمون فلا باس بہٖ (مسلم، ابوداؤود، نسائی)
’’اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہa کے زمانے میں لوگ اپنی زمینیں اُجرت پر دیتے ہوئے یہ طے کیا کرتے تھے کہ پانی کی نالیوں کے سرے پر اور ان کے کناروں پر اور کھیت کے بعض مخصوص حصوں میں جو پیداوار ہوگی وہ مالک زمین لے گا۔ اب کبھی ایسا ہوتا کہ ایک جگہ کی کھیتی برباد ہوتی اور دوسری جگہ کی بچ جاتی اور کبھی اس جگہ کی بچ جاتی اور اس جگہ کی برباد ہوجاتی۔ اس زمانہ میں زمینیں کرائے پر دینے کا کوئی دوسرا دستور اس کے سوا نہ تھا۔ اسے نبیa نے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔ رہا ایک واضح اور متعین حصہ، تو اس پر معاملہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
حنظلہ بن قیس کی دوسری روایت میں رافع بن خدیجؓ کے الفاظ یہ ہیں:
کنا نکری الارض بالناحیۃ منھا مسمّی لسیّد الارض قال فمھما یصاب ذٰلک وتسلم الارض ومھما یصاب الارض ویسلم ذٰلک ، فنھینا، واما الذہب والورق فلم یکن یومئذٍ (بخاری)
’’ہم لوگ زمینیں اس طرح کرایہ پر دیتے تھے کہ مالک زمین کھیت کے ایک خاص حصہ کی پیداوار کو اپنے لیے مخصوص کرلیتا تھا۔ اب کبھی ایسا ہوتا کہ اسی حصہ پر آفت آجاتی اور باقی زمین بچ جاتی اور کبھی ایسا ہوتا کہ وہی حصہ بچ جاتا اور ساری زمین پر آفت آجاتی۔ اسی لیے ہمیں ایسا معاملہ کرنے سے روک دیا گیا۔ رہا سونا چاندی تو اس پر معاملہ کرنے کا اس زمانہ میں دستور ہی نہ تھا‘‘۔
حنظلہ بن قیس کی تیسری روایت میں یہ ذکر ہے کہ حضرت رافعؓ نے فرمایا:
حدثنی عمای انھم کانوا یکرون الارض علی عھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بما ینبت علٰی الاربعاء او شیء یستثنیہ صاحب الارض فنھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن ذٰلک ، فقلت لرافع فکیف ھی بالدینار والدرھم فقال رافع لیس بھا باس بالدینار والدرھم (بخاری، احمد، نسائی)
’’میرے دو چچائوں نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی a کے زمانہ میں لوگ اپنی زمینوں کو اس پیداوار کے عوض کرایہ پر دیتے تھے جو پانی کی نالیوں پر پیدا ہو یا زمین کے کسی ایسے حصے میں پیدا ہو جسے مالک زمین مستثنیٰ کرلیتا تھا۔ اس طریقے کو نبیa نے منع فرما دیا۔ اس پر میں نے رافع سے پوچھا کہ دینار اور درہم کے عوض معاملہ کرنا کیسا ہے؟ رافعؓ نے کہا: اس میں کوئی مضائقہ نہیں‘‘۔
حضرت رافعؓ کی ایک اور روایت جو حنظلہ الزرقی کے واسطہ سے آئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
کنا اکثر الانصار حقلًا ، کنا نکری الارض علٰی ان لنا ھٰذہٖ ولھم ھٰذہٖ فربما اخرجت ھذہ ولم تخرج ھٰذہٖ فنھانا عن ذٰلک واما الورق فلم ینھنا(مسلم، ابن ماجہ، بخاری){ FR 5758 }
’’ہم لوگ انصار میں سب سے زیادہ کھیتی باڑی کرنے والے تھے۔ ہم زمین اس طرح کرایہ پر دیا کرتے تھے کہ کھیت کے اس حصہ کی پیداوار ہماری اور اس حصے کی پیداوار تمھاری۔اب کبھی ایسا ہوتا کہ ایک حصے میں فصل ہوتی اور دوسرے میں نہ ہوتی۔ اس وجہ سے نبیa نے ہمیں یہ معاملہ کرنے سے منع فرما دیا۔ رہا چاندی کے عوض معاملہ کرنا تو اس سے آپؐ نے منع نہیں فرمایا۔
خود رافع بن خدیجؓ کے چچازاد بھائی اُسید بن ظہیر روایت کرتے ہیں:
کان احدنا اذا استغنٰی عن ارضہ او افتقر الیھا اعطاھا بالثلث والربع والنصف واشترط ثلٰث جد اول والقصارۃ وما یسقی الربیع وکان العیش اذ ذاک شدیدًا وکان یعمل فیھا بالحدید وبماشاء اللہ ویصیب منھا منفعۃ فاتانا رافع بن خدیج فقال ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھاکم عن امر کان لکم نافعًا وطاعۃ اللہ وطاعۃ رسولہ انفع لکم ان رسول اللہ ینھاکم عن الحقل ویقول من استغنٰی عن ارضہ فلیمنحھا اخاہ او لیدع (ابوداؤد، احمد، نسائی، ابن ماجہ)
’’ہم میں سے کوئی شخص جب اپنی زمین سے بے نیاز ہوتا، یا اسے کرائے پر دینے کا حاجت مند ہوتا تو اسے تہائی یا چوتھائی یا نصف پیداوار کی بٹائی پر دوسرے کو دے دیتا تھا اور ساتھ ہی شرط کرلیتا تھا کہ تین نالیاں اور گانٹھیں (یا گھنڈیاں){ FR 5759 } اور بڑی نالی کے کنارے کی پیداوار اس کی ہے۔ اس زمانہ میں زندگی بڑی سخت تھی۔ آدمی دن بھر ہل چلاتا یا دوسرا کام کرتا تب تھوڑا سا فائدہ حاصل کرتا تھا۔ ایک دن رافع بن خدیجؓ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہa نے تم کو ایسے کام سے روک دیا ہے جو تمھارے لیے نافع تھا۔ مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت تمھارے لیے زیادہ نافع ہے۔ رسول اللہ a تمھیں زمینیں کرایہ پر دینے سے منع فرماتے ہیں اور آپؐ کا ارشاد ہے کہ جو اپنی زمین سے مستغنی ہو وہ یا تو اپنے بھائی کو مفت دے دے یا یوں ہی رہنےدے‘‘۔{ FR 5760 }
جابرؓ بن عبداللہ کی توضیح
رافع بن خدیجؓ کی طرح حضرت جابرؓ بن عبداللہ سے بھی جب معاملہ کی تفصیلات دریافت کی گئیں تو اصل معاملہ جس سے نبیa نے منع فرمایا تھا، یہ کھلا:
کنا نخابر علٰی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنصیب من القُصریٰ ومن کذا ومن کذا، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من کان لَہٗ ارض فلیزرعھا او لیحرثھا اخاہ والا فلیدَعھا (احمد، مسلم)
’’ہم لوگ رسول اللہa کے زمانہ میں بٹائی پر زمینیں کاشت کے لیے دیتے تھے اور کچھ گانٹھوں (یا گھنڈیوں) میں سے اور کچھ اس چیز مین سے اور کچھ اس چیز میں سے بھی وصول کرتے تھے۔ اس پر نبیa نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو اسے چاہیے کہ یا خود کاشت کرے یا اپنے کسی بھائی کو کاشت کرا دے ورنہ اپنی زمین پڑی رہنے دے‘‘۔
زیدؓ بن ثابت کی توضیح
حضرت زیدؓ بن ثابت سے جب عروہ بن زبیر نے معاملہ کی تحقیق کی توانھوں نے فرمایا:
یغفر اللہ لرافع بن خدیج انا واللہ اعلم بالحدیث منہ ، انما اتٰی رجلان النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقد اقتتلا ، فقال ان کان ھٰذا شانکم فلا تکر والمزارع، فسمع رافع بن خدیج قولہ فلا تکر والمزارع (ابودائود، ابن ماجہ)
’’خدا معاف کرے رافع بن خدیجؓ کو، مَیں اس بات کو ان سے زیادہ جانتا ہوں اصل بات یہ تھی کہ دو آدمی نبیa کے پاس حاضر ہوئے جن کے درمیان سخت جھگڑا ہوا تھا۔ اس پر حضوؐر نے فرمایا: اگر تم لوگوں کا یہ حال ہے تواپنی زمینیں کرایہ پر نہ دیا کرو۔ رافعؓ نے حضوؐر کی بس اتنی بات سن لی کہ ’’اپنی زمینیں کرایہ پر نہ دیا کرو‘‘۔
سعدؓ بن ابی وقاص کی توضیحات
حضرت سعدؓ نے اس معاملہ کی جو حقیقت بیان کی وہ یہ ہے:
ان اصحٰب المزارع فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانوا یکرون مزارعھم بما یکون علی السواقی وما سعد بالماء مما حول النبت فجاؤا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاختصموا فی بعض ذٰلک فنھا ھم ان یکروا بذٰلک وقال اکروا بالذھب والفضۃ (احمد ، نسائی)
’’نبیa کے زمانہ میں مالکانِ زمین کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی زمینیں اس شرط پر زراعت کے لیے دیتے تھے کہ نالیوں کے دونوں جانب کی پیداوار، اور کھیتی کے اس حصہ کی پیداوار جس پر پانی خود پہنچ جائے، مالک زمین کی ہوگی۔ اس پر لوگوں کے جھگڑے ہوئے اور ان کے مقدمات رسول اللہ a کے پاس آئے۔ تب آپؐ نے ایسی شرطوں پر زمینیں دینے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ سونے اور چاندی کی شکل میں کرایہ طے کرو‘‘۔
دوسری روایت میں وہ فرماتے ہیں:
کنا نکری الارض بما علٰی السواقی من الزرع وما سعد بالماءِ منھا فنھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن ذٰلک وامرنا ان کریھا بذھب او فضۃ
’’ہم لوگ زمینیں اس شرط پر زراعت کے لیے دیتے تھے کہ کھیتی کا جو حصہ نالیوں کے کناروں پر ہے اور جس پر پانی خود پہنچ جائے اس کی پیداوار مالک کی ہے۔ پھر رسول اللہa نے ایسا معاملہ کرنے سے ہمیں روک دیا اور حکم دیا کہ سونے اور چاندی کی شکل میں کرایہ طے کریں‘‘۔(ابودائود)
ابن عباسؓ کی توضیحات
تابعین میں جو فقہا سب سے زیادہ مشہور ہیں ان میں سے ایک حضرت طائوس ہیں۔ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباسb سے جومعلومات حاصل کی ہیں وہ اس مسئلے پر سے باقی ماندہ پردے بھی اُٹھا دیتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:
لما سمع اکثر الناس فی کراء الارض قال سبحان اللہ ، انما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الا منحھا احدکم اخاہ (ای قالہ تحریضًا للناس علی الاحسان ) ولم ینہ عن کرائھا (ابن ماجہ)
’’ابن عباس نے جب کرایۂ زمین کے بارے میں سنا کہ لوگوں میں بہت چہ میگوئیاں ہورہی ہیں تو انھوں نے کہا: سبحان اللہ، رسول اللہa نے تو صرف یہ فرمایا تھا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی زمین اپنے بھائی کو مفت کیوں نہیں دے دیتا (یعنی آپ لوگوں کو احسان کی ترغیب دینا چاہتے تھے) آپ نے کرایہ پر دینے سے منع نہیں فرمایا تھا‘‘۔
دوسری مفصل روایت میں یہ ہے کہ طائوس اپنی زمینیں بٹائی پر دیا کرتے تھے۔ اس پر مجاہد نے ان سے کہا کہ چلو رافعؓ بن خدیج کے بیٹے کے پاس چلیں، وہ اپنے والد سے ایک حدیث روایت کرتے ہیں مگر طائوس نے انھیں ڈانٹ دیا اور کہا: خدا کی قسم! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہa نے اس کام سے منع فرمایا ہے تو میں اسے ہرگز نہ کرتا۔ لیکن جو شخص رافعؓ بن خدیج سے زیادہ علم رکھتا ہے، یعنی ابن عباسؓ ، اس نے مجھ سے کہا کہ:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لان یمنح الرجل اخاہ ارضہ خیر لہ من ان یاخذ علیھا خرجا معلومًا
’’رسول اللہ a نے دراصل یہ فرمایا تھا کہ کوئی شخص اپنے بھائی کو یوں ہی زمین دے دے تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ اس پر ایک مقرر لگان لے‘‘۔
دوسری روایت میں ابن عباسؓ کے الفاظ یہ ہیں:
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم ینہ عنھا ، انما قال یمنح احدکم اخاہ خیر لَہٗ من ان یاخذ علیھا خرجا معلومًا
’’نبی a نے اس سے منع نہیں فرمایا تھا۔ آپ نے تو صرف یہ فرمایا تھا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو یوں ہی زمین دے دے تو یہ اس کے حق میں زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اس پر ایک مقرر لگان وصول کرے‘‘۔
ایک اور روایت میں ابن عباسؓ کے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں:
لم یحرم المزارعۃ ولکن امر ان یرفق بعضھم ببعض
’’حضورa نے مزارعت کو حرام نہیں کر دیا تھا بلکہ آپؐ نے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رفاقت کا برتائو کریں‘‘۔ (بخاری، مسلم، ابودائود، ترمذی)
تحقیق مسئلہ
ان تمام شہادتوں اور عقلی و نقلی دلائل پر ایک جامع نگاہ ڈالنے سے مسئلے کی جو حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے وہ یہ ہے:
۱- اسلام اس تخیل سے قطعی ناآشنا ہے کہ زرعی جایداد کی ملکیت دوسری اقسام کی اِملاک اور جایدادوں سے کوئی الگ نوعیت رکھتی ہے جس کی بنا پر اُن سب کے برعکس اس کی جائز ملکیت کے لیے رقبے کے لحاظ سے کوئی حد مقرر کر دی جائے، یا یہ فیصلہ کردیا جائے کہ ہرشخص اور خاندان کے قبضے میں صرف اُتنی ہی زمین رہنی چاہیے جس میں وہ خود کاشت کرسکے، یا خود کاشتی سے زائد ملکیت کا حق دینے کے بعد دوسری ایسی پابندیاں لگا دی جائیں جن کی وجہ سے یہ حق بے معنی ہوکر رہ جائے۔ ایسی حدبندیوں کے لیے فی الحقیقت کتاب وسنت میں کوئی اصل موجود نہیں ہے۔
۲- جو شخص خود کاشت نہ کرے، یا نہ کرسکتا ہو، یا خود کاشتی کی حد سے زائد زمین رکھتا ہو، اس کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ اپنی زمین دوسرے لوگوں کو زراعت کے لیے دے اور پیداوار میں تہائی یا چوتھائی یا نصف، جس پر بھی فریقین میں معاہدہ ہو، اپنا حصہ مقرر کرلے۔ جس طرح تجارت، صنعت اور دوسرے کاروباری معاملات میں مضاربت جائز ہے، بالکل اسی طرح زراعت میں مزارعت بھی جائز ہے۔
۳- لیکن مضاربت کی طرح مزارعت بھی صرف اپنی سادہ صورت ہی میں جائز ہے، یعنی یہ کہ مالک زمین اور کاشت کار کے درمیان حصے کا تعین سیدھے سیدھے طریقہ سے اس طرح ہو کہ زمین میں جتنی پیداوار بھی ہوگی وہ اس تناسب سے فریقین میں تقسیم ہوجائے گی۔ اس کے ساتھ ایسی کوئی شرط لگانا جس سے ایک فریق کا حصہ متعین اور دوسرے کا حصہ مشتبہ ہو، یا جس میں کسی ایک کا یا دونوں کا حصہ محض بخت و اتفاق پر منحصر ہوجائے، پورے معاملہ کو ناجائز کردیتا ہے، کیوں کہ اس طرح کی شرطیں مزارعت میں سودخواری اور قماربازی کی خصوصیات پیدا کردیتی ہیں۔
۴- رہا نقد لگان، تو اگر وہ کرایۂ زمین کی نوعیت رکھتا ہو تو جائز ہے، لیکن اگر پیداوار کا تخمینہ کرکے مالک زمین اُس میں اپنا حصہ پیشگی ایک مخصوص رقم کی شکل میں وصول یا متعین کرلے تو اصولاً اس میں اور سودخواری میں کوئی فرق نہیں۔ کرایہ میں لحاظ صرف اس امر کا ہونا چاہیے کہ مالک اپنی چیز کو کرایہ دار کے لیے مہیا کرنے اور مہیا رکھنے کا، اور اس نقصان کا جو کرایہ دارکے استعمال سے اس کی چیز کو پہنچتا ہے، معاوضہ طلب کرے۔ وہ چیز خواہ مکان ہو،یا فرنیچر یا سواری یا زمین، بہرحال اس پہلو سے اس کا معاوضہ یقیناً لیا جاسکتا ہے، اور زیادہ نقصان دہ یا کم نقصان دہ استعمال کے لحاظ سے اس معاوضہ میں کمی و بیشی ہوسکتی ہے لیکن اگر چیز کا مالک معاوضہ کا تعین اس لحاظ سے کرے کہ کرایہ دار میری چیز کو جس معاشی کاروبار میں استعمال کر رہا ہے اس میں اندازاً اُسے اتنا نفع ہوگا ، لہٰذا اس میں سے مجھے اتنا معاوضہ لازماً ملنا چاہیے، تو یہ پورا معاوضہ قطعی سود ہوجائے گا۔ خواہ وہ اس طریقے پر مکان کے معاملہ میں طے کیا جائے، یا سواری کے معاملہ میں، یا زمین کے معاملہ میں۔ کرایہ دار کے منافع میں حصہ لینے کی نیت جو شخص رکھتا ہو، اسے سیدھی طرح مضاربت کرنی چاہیے۔ اگر وہ تجارت و صنعت کے نفع میں شریک ہونا چاہتا ہے، یا مزارعت کرنی چاہیے، اگر وہ زراعت کے نفع میں حصہ بٹانا چاہتا ہے ، لیکن ایک فریق کا حصہ ایک مخصوص رقم کی شکل میں معین ہو اور دوسرے کا حصہ مشتبہ اور بخت و اتفاق پر منحصر رہے، یہ نہ تجارت صنعت میں جائز ہے اور نہ زراعت میں۔
فقہا کے مذاہب
آخر میں ایک نظریہ بھی دیکھ لیجیے کہ اس مسئلے میں فقہائے اسلام کے مختلف مذاہب کا فتویٰ کیا ہے۔ علامہ شوکانی اپنی کتاب نیل الاوطار میں لکھتے ہیں:
’’حازمی کہتا ہے کہ حضرت علیؓ بن ابی طالب، عبداللہ بن مسعودؓ، عمارؓ بن یاسر، سعیدؓ بن مسیّب، محمدؓ بن سیرین، عمرؓ بن عبدالعزیز، ابن ابی لیلیٰ، ابن شہاب زُہری اور حنفیہ میں سے قاضی ابویوسف اور محمد بن حسن کہتے ہیںکہ کھیت کی پیداوار اور باغ کے ثمرے، دونوں کی بٹائی پر مالکِ زمین اور کاشت کار کے درمیان اور مالکِ باغ اور باغبان کے درمیان معاملہ ہوسکتا ہے۔{ FR 5776 } یہ دونوں معاملے ایک ساتھ بھی ہوسکتے ہیں جس طرح خیبر میں کیے گئے تھے کہ ایک ہی گروہ سے باغوں کی رکھوالی اور زمینوں کی کاشت کا معاملہ یک جا طے ہوا تھا ، اور الگ الگ بھی ہوسکتے ہیں۔ جن احادیث میں مزارعت کی نہی وارد ہوئی ہے ان کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ وہ دراصل تنزیہ پر مبنی ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سے مراد وہ صورت ہے جب کہ مالک زمین نے زمین کے کسی خاص حصے کی پیداوار اپنے لیے مخصوص کی ہو۔
اور طائوس اور ایک قلیل گروہ کہتا ہے، زمین کا کرایہ مطلقاًناجائز ہے، خواہ وہ زمین کی پیداوار کے ایک حصے کی شکل میں ہو، یا سونے اور چاندی کی شکل میں، یا کسی اور صورت میں۔{ FR 5778 } اسی رائے کی طرف ابن حزم گئے ہیں اور انھوں نے بڑے زور سے اس کی تائید کی ہے اور اپنی حجت میں ان احادیث سے استدلال کیا ہے جو اس کی مطلقاً ممانعت کرتی ہیں۔{ FR 5777 }
اور شافعیؒ اور ابوحنیفہؒ اور عترت (یعنی فقہائے امامیہ) اور بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ زمین کا کرایہ ان تمام شکلوں میں طے کرنا جائز ہے جو اشیا کی خریدوفروخت کے لیے قیمت کا کام دے سکتی ہیں، خواہ وہ سونا ہو، چاندی ہو، استعمال کا سامان ہو، یا غلّہ ہو۔ لیکن یہ کرایہ خود اس زمین کی پیداوار کے ایک حصہ کی صورت میں طے نہیں کیا جاسکتا تھا جو کرایہ پر دی جارہی ہو۔
ابن المنذِر کہتا ہے کہ سونے اور چاندی کی شکل میں زمین کا کرایہ طے کرنے کے جواز پر تو تمام صحابہ متفق ہیں اور ابن بطّال کہتا ہے کہ تمام فقہا امصار بھی اس کے جواز پر متفق ہیں لیکن پیداوار کی بٹائی کے ناجائز ہونے پر مذکورہ بالا اصحاب اُن احادیث سے استدلال کرتے ہیں جو اس کی ممانعت میں وارد ہوئی ہیں اور خیبر کے معاملہ کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ خیبر تو بزورِ شمشیر فتح ہوا تھا اور اس کے باشندے آں حضرتa کے غلام ہوچکے تھے، اس لیے اس کی پیداوار میں سے جو کچھ بھی آپ نے لیا وہ بھی آپ ہی کا تھا اور جو کچھ چھوڑ دیا وہ بھی آپ ہی کا تھا۔
حازمی کہتا ہے کہ یہ مذہب عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس اور رافع بن خدیج اور اسید بن حضیر اور ابوہریرہؓ اور نافعؓ سے مروی ہے{ FR 5829 } اور اسی کی طرف مالکؒ اور شافعیؒ اور کوفیوں میں سے ابوحنیفہؒ گئے ہیں۔
امام مالکؒ کا مذہب یہ ہے کہ غلے اور ثمرے کے سوا ہر دوسری صورت میں زمین کا کرایہ طے کرنا جائز ہے۔ غلے اور ثمرے کی شکل میں کرایہ لینے سے وہ اس لیے منع کرتے ہیں کہ یہ معاملہ غلے سے غلے کی بیع نہ بن جائے اور ان کے نزدیک ممانعت کے احکام کا اصل منشا یہی ہے۔ فتح الباری کے مصنّف نے ان کا مذہب اسی طرح نقل کیا ہے مگر ابن المنذِر کہتا ہے کہ امام مالک کے قول کا مطلب یہ لینا چاہیے کہ اگر کرایہ اس غلے میں سے طے ہو جو کرایہ پر دی جانے والی زمین سے پیدا ہوگا، تو یہ ناجائز ہے۔ رہی یہ صورت کہ کرایہ پر لینے والا شخص ایک مقرر مقدار غلہ ادا کرنے کا ذمہ لے یا موجودہ غلہ میں سے ادا کردے تو اس کے جواز میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔
امام احمدؒ بن حنبل کہتے ہیں کہ خود زمین ہی کی پیداوار میں سے ایک حصہ کرائے کے طور پر مقرر کرنا جائز ہے ، بشرطیکہ تخم مالکِ زمین کا ہو۔ امام احمدؒ کا یہ مذہب حازمی نے نقل کیا ہے‘‘۔(نیل الاوطار، جلد۵، ص ۲۳۲)
حال میں الفقہ علٰی المذاہب الاربعہ کے نام سے ایک نفیس کتاب مصر سے شائع ہوئی ہے جس میں اسلامی فقہ کے چاروں مذاہب کے احکام نہایت عمدہ ترتیب اور تفصیل کے ساتھ ان کی اصل کتابوں سے لے کر درج کیے گئے ہیں۔ اس کی تیسری جلد کے آغاز میں مزارعت کے مسئلے پر مفصل بحث کی گئی ہے۔ ذیل میں ہم اس کا ایک ضروری خلاصہ درج کرتے ہیں تاکہ ہر شخص خود دیکھ لے کہ اس مسئلے میں فقہائے اسلام کے مختلف مذاہب کا فتویٰ کیا ہے۔
مذہب ِ حنفی کی تفصیل
’’مزارعت‘‘ (یعنی بٹائی) دراصل مالک زمین اور عامل (کاشت کار) کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس کی رُو سے یا تو عامل زمین کو اُجرت پر لیتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس کی زمین میں کاشت کرے گا اور پیداوار کا ایک حصہ مالک زمین کو اُجرت میں دے گا، یا مالکِ زمین عامل کی خدمات اُجرت پر لیتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس کی زمین میں کام کرے گا اور پیداوار کا ایک حصہ اپنے کام کی اُجرت میں پائے گا۔ اس نوعیت کا معاملہ حنفیہ میں مختلف فیہ ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کہتے ہیں کہ یہ ناجائز ہے۔ امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے ۔ اور مذہب ِ حنفی میں فتویٰ انھی دونوں بزرگوں کے قول پر ہے نہ کہ امام ابوحنیفہؒ کے قول پر، لیکن خود امام ابوحنیفہؒ بھی مزارعت کو مطلقاً ناجائز نہیں فرماتے، بلکہ اُن کے نزدیک اگر مالک زمین صرف زمین ہی دے کر الگ نہ ہوجائے بلکہ تخم اور ہل بیل وغیرہ میں بھی عامل کے ساتھ شریک ہو تو اس صورت میں پیداوار کی بٹائی پر معاملہ کرنا جائز ہے۔
امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک (جس پر مذہب ِ حنفی میں فتویٰ ہے) مزارعت کی جائز صورتیں یہ ہیں:
۱- یہ کہ زمین ایک کی ہو اور تخم، آلاتِ زراعت اور عمل دوسرے کا ہو اور فریقین میں یہ قرارداد ہوجائے کہ زمین کا مالک پیداوار کا اتنا حصہ (مثلاً آدھا، تہائی یا چوتھائی) لے گا۔
۲- یہ کہ زمین اور تخم اور آلاتِ زراعت سب کچھ مالک کا ہو اور صرف عمل دوسرے شخص کا ہو اور پھر یہ طے ہوجائے کہ عامل کو پیداوار میں سے اتنا حصہ ملے گا۔
۳- یہ کہ زمین اور تخم مالک دے اور آلاتِ زراعت اور عمل دوسرے کا ہو اور پھر بٹائی میں دونوں کے حصے کا تناسب طے ہوجائے۔
۴- یہ کہ زمین بھی دونوں کی ہو، تخم بھی دونوں لائیں، آلات اور عمل میں بھی دونوں شریک ہوں اور پھر آپس میں حصے مقرر کرلیں۔
اور اس معاملہ کی ناجائز صورتیں یہ ہیں:
۱- یہ کہ زمین دونوں فریقوں کی ہو، اور ایک فریق زمین کے ساتھ صرف بیج دے اور دوسرا فریق زمین کے ساتھ صرف ہل بیل دے (بعض علما نے اس صورت کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، اگر کسی علاقے میں اس طریقے کا رواج عام ہو)۔
۲- یہ کہ ایک کی زمین ہو، دوسرے کا تخم ہو، تیسرے کے ہل بیل ہوں اور چوتھے کا عمل ہو۔ یا ہل بیل اور عمل تیسرے کا ہو۔
۳- یہ کہ تخم اور ہل بیل ایک کا ہو اور عمل اور زمین دوسرے کی ہو۔
۴- یہ کہ زمین ایک کی ہو، اور تخم میں دونوں شریک ہوں، اور عمل کے بارے میں یہ شرط ہو کہ وہ مالکِ زمین کے سوا کوئی اور کرے گا۔
۵- یہ کہ کسی ایک فریق کا حصہ مقدار کی شکل میں (مثلاً۵۰ من یا ۱۰۰ من) معین کیا جائے، یا وہ بٹائی کے حصے کے علاوہ ایک خاص مقدارِ غلہ زائد لے، یا اس زمین کی پیداوار کے علاوہ کوئی اور جنس باہر سے فراہم کر کے دینے کی ذمہ داری کسی فریق پر ڈالی جائے۔
مذہب ِ حنبلی
حنابلہ کا مذہب اس معاملہ میں تقریباً وہی ہے جو امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وہ اس بات کو ضروری قرار دیتے ہیں کہ تخم مالکِ زمین مہیا کرے۔
لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ بعد میں مذہب ِ حنبلی کے علما نے اس شرط میں کچھ ترمیم کردی۔ چنانچہ آگے چل کر جہاں الفقہ علی المذاہب الاربعۃ کا مصنّف مذہب ِ حنبلی کے تفصیلی احکام بیان کرتا ہے، وہاں وہ کہتا ہے:
’’صحیح یہ ہے کہ تخم کا مالک زمین کی طرف سے ہونا شرط نہیں ہے۔ دراصل شرط یہ ہے کہ فریقین میں سے ہر ایک کچھ رأس المال دے۔ پس یہ صورت بھی صحیح ہے کہ ایک شخص صرف زمین دے اور دوسرا شخص تخم اور آلاتِ زراعت کے ساتھ شریک ہو اور یہ بھی درست ہے کہ تخم یا ہل بیل یا دونوں مالکِ زمین کے ذمہ ہوں اور دوسرے کے ذمہ عمل اور تخم یا عمل اور ہل بیل ہوں‘‘۔ (ص ۲۱)
مذہب ِ مالکی
مالکیہ کے نزدیک مزارعت کی یہ صورت جائز نہیں ہے کہ ایک شخص زمین دے اور دوسرا تخم اور عمل اور آلات کے ساتھ شریک ہو اور پیداوار کو دونوں فریق کسی طے شدہ تناسب کے مطابق آپس میں بانٹ لیں۔ اس کی بجائے مزارعت کی جو شکل وہ تجویز کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ زمین، عمل اور آلاتِ زراعت میں سے ہر ایک کی ایک قیمت روپے یا اموالِ تجارت (باستثناء غلہ) کے حساب سے مشخص کی جائے، مثلاً یہ کہ زمین کو اتنی مدت تک استعمال کرنے کی قیمت پچاس روپے یا اتنے گز کپڑا ہے اور اس مدت کے دوران میں جو زراعت کا عمل اس پر کیا جائے گا اس کی قیمت اتنے روپے یا اتنا کپڑا ہے اور اس مدت میں آلاتِ زراعت جن سے کام لیا جائے گا ان کے استعمال کی قیمت اس قدر ہے۔ پھر جو فریق ان میں سے جس جس چیز کے ساتھ شریک ہوگا اس کے متعلق یہ قرار دیا جائے گا کہ وہ گویا اتنے سرمایہ کے ساتھ اس مشترک کاروبار میں حصہ دار بن رہا ہے۔ مگر تخم لازماً دونوں فریق برابر برابر لائیں گے اور جو کچھ منافع اس مشترک کاروبار سے حاصل ہوگا وہ اس سرمایہ کی نسبت سے فریقین کے درمیان تقسیم ہوجائے گا ، جس کے ساتھ وہ شریک ہوئے ہوں۔
مذہب ِ شافعی
شافعیہ کے نزدیک بٹائی کی تمام صورتیں ناجائز ہیں خواہ بیج اور زمین مالک دے یا بیج اور عمل کاشت کار کا ہو۔ ان کا خیال یہ ہے کہ زمین کی اُجرت خود اسی زمین کی پیداوار میں سے مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں کاشت کار یہ جانے بغیر عمل کرتا ہے کہ اس کے حصے میں کتنا غلہ آئے گا، اس لیے یہ دھوکے کا سودا ہے۔ اس کے بجائے صحیح صورت یہ ہے کہ یا تو مالکِ زمین کاشت کار کی خدمات ایک مقرر اُجرت پر حاصل کرے اور کھیتی مالک کی ہو، یا پھر کاشت کار ایک مقرر اُجرت پر مالک سے زمین لے لے اور کھیتی کاشت کار کی ہو۔ یہ صاف صاف معاملہ کرنے کے بجائے ایسا معاملہ کیوں کیا جائے جس میں فریقین کو کچھ معلوم نہ ہو کہ ان کے حصے میں کتنا کچھ غلہ آئے گا؟ شافعیہ کا کہنا یہ ہے کہ احادیث میں مخابرۃ اور مزارعت کی جو ممانعت وارد ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے۔
لیکن شافعیہ کے نزدیک یہ جائز ہے کہ ایک شخص اپنا باغ دوسرے کو رکھوالی کے لیے دے اور اس کے عمل کی اُجرت مقرر کرنے کے بجائے ثمرے میں سے اس کا حصہ طے کرے۔ نیز ان کے نزدیک یہ بھی جائز ہے کہ اگر باغ میں کچھ زمین زراعت کے لیے فارغ ہو تو اسی باغبان کو اس میں زراعت کی بھی اجازت دے دی جائے اور باغ کا مالک اس کی پیداوار میں سے اپنا حصہ بٹائی کے طریقہ پر طے کرے۔ البتہ شرط یہ ہے کہ یہ مزارعت بجائے خود ایک مستقل معاملہ کے طور پر نہ ہو بلکہ اسی باغبانی کے معاملہ میں شامل اور اس کی تابع ہو، اور اسی شخص کے ساتھ طے ہو جس سے باغبانی کا معاملہ کیا گیا ہے۔
ان تفصیلات پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ فرقۂ ظاہریہ کی ایک ذرا سی جماعت کو چھوڑ کر پوری اُمت کے ماہرین قانون میں سے کسی کا بھی یہ مسلک نہیں ہے کہ زرعی جایداد کی ملکیت کو صرف خود کاشتی کی حد تک محدود ہونا چاہیے، یا یہ کہ خود کاشتی کی حد سے زائد جتنی زمین آدمی کے پاس ہو اسے مفت دینے یا ڈال رکھنے کے سوا کوئی تیسری صورت اس کے استعمال کی شریعت میں نہیں ہے۔ زائد زمین کی کاشت دوسروں سے کرانے کی کیا صورت جائز ہے اور کیا ناجائز، اس میں تو ضرور مختلف مذاہب کے درمیان اختلاف ہے، مگر فقہ کے ہرمذہب میں کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور جائز ہے جس سے ایک آدمی اپنی زمین کی کاشت دوسرے سے کرا سکتا ہے۔
٭٭٭

شیئر کریں