۱۶۔’’اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے صاف حکم دیا کہ غیر احمدیوں کے ساتھ ہمارے کوئی تعلقات ان کی غمی اور شادی کے معاملات میں نہ ہوں ۔جب ان کے غم میں ہم نے شامل ہی نہیں ہونا تو پھر جنازہ کیسا ۔‘‘ (کلمۃ الفصل۱۸جون۱۹۱۶)
۱۷۔’’حضور مرزا صاحب فرماتے ہیں غیر احمدیوں کی لڑکی لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی نکاح جائز ہے۔ ‘‘ (کلمۃ الفصل،۱۶دسمبر۱۹۲۰)
۱۸۔’’یہ اعلان بغرض آگاہی عام شائع کیاجاتاہے کہ احمدی لڑکیوں کے نکاح غیر احمدیوں سے کرنے ناجائز ہیں۔ آئندہ احتیاط کی جائے۔ ‘‘
(اعلان ناظر امور عامہ قادیان ، الفضل ،۱۴فروری ۱۹۳۳ء )
۱۹۔’’حضرت مرزا صاحب نے اپنے بیٹے (مرزا فضل احمد مرحوم ) کا جنازہ محض اس لیے نہیں پڑھاکہ وہ غیر احمدی تھا۔ ‘‘ (الفضل ، ۱۵دسمبر ۱۹۲۱ء)
۲۰۔’’پس یاد رکھو کہ جیساکہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے ، تمہارے پر حرام ہے کہ کسی کافر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو ۔ بلکہ چاہیے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔‘‘ (اربعین نمبر۳،مرزا غلام احمد صاحب، ص ۳۴)
۲۱۔’’میرا یہ عقیدہ ہے کہ جو لوگ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان کا جنازہ جائز نہیں۔ کیونکہ میرے نزدیک وہ احمدی نہیں ہیں ، اسی طرح جو لوگ غیر احمدیوں کو لڑکی دے دیں اور وہ اپنے اس فعل سے توبہ کیے بغیر فوت ہوجائیں ، ان کاجنازہ بھی جائز نہیں۔‘‘
(مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا خط، الفضل ،۱۳اپریل۱۹۲۶ء)
۲۲۔’’حضرت مسیح موعود نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھاہے جو نبی کریم ؐ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی کیارہ گیاہے جو ہم ان کے ساتھ مل کر کرسکتے ہیں ؟ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی دوسرے دنیوی ۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کااکٹھا ہونا ہے۔ اور دنیوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ وناطہ ہے ۔ سو یہ دونوں ہمارے لیے حرام قرار دئیے گئے ۔ اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتاہوں نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے اور اگر یہ کہو کہ غیر احمدیوں کو سلام کیوں کیاجاتاہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ بعض اوقات نبی کریم ؐ نے یہود تک کو سلام کا جواب دیاہے ۔‘‘
(کلمۃ الفصل ،ص ۱۶۹)