جن صدیوں میں ہم مسلسل انحطاط کی طرف جا رہے تھے، ٹھیک وہی صدیاں تھیں، جن میں یورپ نشاۃ جدیدہ کی ایک نئی تحریک کے سہارے ابھر رہا تھا۔ اس تحریک کا آغاز ہی میں دور متوسط کے عیسائی مذہب سے تصادم ہو گیا اور یہ تصادم ایک ایسے افسوسناک نتیجے پر ختم ہوا جو نہ صرف یورپ کے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے غارت گر ثابت ہوا۔ پرانے زمانے کے عیسائی متکلمین نے اپنے مذہبی عقائد کی اور بائیبل کے تصور کائنات وانسان کی پوری عمارت یونانی فلسفہ وسائنس کے نظریات، دلائل اور معلومات پر تعمیر کر رکھی تھی اور اُن کا گمان یہ تھا کہ ان بنیادوں میں سے کسی کو اگر ذرا سی ٹھیس بھی لگ گئی تو یہ پوری عمارت دھڑام سے زمین پرآ رہے گی اور اس کے ساتھ مذہب بھی ختم ہو جائے گا۔ اس لیے وہ نہ کسی ایسی تنقید وتحقیق کو گوارا کرنے کے لیے تیار تھے جو یونانی فلسفہ وسائنس کے مسلمان کو مشتبہ بناتی ہو، نہ کسی ایسے فلسفیانہ تفکر کو برداشت کر سکتے تھے، جو ان مسلمات سے ہٹ کر کوئی دوسری ایسی فکر پیش کرتی ہو، جس کی وجہ سے اہل کلیسا کو اپنے علمِ کلام پرنظر ثانی کرنی پڑ جائے اور نہ کسی ایسی علمی تحقیقات کی اجازت دے سکتے تھے جس سے کائنات وانسان کے بارے میں بائیبل کی دی ہوئی اور متکلمین کی مانی ہوئی تصویر کا کوئی جز غلط ثابت ہوجائے اس طرح کی ہر چیز کو وہ مذہب کے لیے اور مذہب پر بنے ہوئے پورے نظامِ تمدن وسیاست ومعیشت کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس جو لوگ نشاۃ جدیدہ کی تحریک اور اس کے محرکات کے زیر اثر تنقید، تحقیق اور دریافت کا کام کر رہے تھے، انھیں قدم قدم پر اس فلسفہ وسائنس کی کم زوریاں معلوم ہو رہی تھیں جن کے سہارے عقائد وکلام کا یہ پورا نظام کھڑا ہوا تھا۔ مگر وہ جوں جوں اس میدان میں آگے بڑھتے تھے، اہل کلیسا اپنے مذہبی اور سیاسی اقتدار کے بل بوتے پر روز بروز زیادہ سختی کے ساتھ ان کی راہ روکنے کی کوشش کرتے تھے۔ آنکھوں کو پچھلے زمانے کی مانی ہوئی حقیقتوں کے خلاف بہت سی چیزیں روز روشن میں نظر آ رہی تھیں۔ مگر اہلِ کلیسا کو اصرار تھا کہ ان مسلمات پر نظر ثانی کرنے کے بجائے دیکھنے والی آنکھیں پھوڑ دی جائیں۔ دماغوں کو بہت سے ان نظریات میں جھول محسوس ہو رہا تھا جن کو پہلے بعض عقائد کی اٹل دلیل سمجھا گیا تھا مگر اہلِ کلیسا کہتے تھے کہ ان دلائل پر غور مکرّر کرنے کے بجائے ان دماغوں کو پاش پاش کر دینا چاہیے جو ایسی باتیں سوچتے ہیں۔
اس کش مکش کا پہلا نتیجہ یہ ہوا کہ جدید علمی بیداری میں اول روز ہی سے مذھب اور اہلِ مذھب کے خلاف ایک ضد سی پیدا ہو گئی اور جُوں جُوں اہل مذھب کی سختیاں بڑھتی گئیں، یہ ضد بھی بڑھتی اور پھیلتی چلی گئی۔ یہ ضد صرف مسیحیت اور اس کے کلیسا ہی تک محدود نہ رہی بلکہ مذھب فی نفسہٖ اس کا ہدف بن گیا۔ علومِ جدیدہ اور تہذیب جدید کے علم برداروں نے یہ سمجھ لیا کہ مذھب بجائے خود ایک ڈھونگ ہے۔ وہ کسی عقلی امتحان کی ضرب نہیں سہہ سکتا، اس کے عقائد دلیل پرنہیں بلکہ اندھے اذہان پر مبنی ہیں۔ علم کی روشنی بڑھنے سے وہ ڈرتا ہے کہ کہیں اس کا پول نہ کھل جائے۔
پھر جب علم کے میدان سے آگے بڑھ کر سیاست اور معیشت اورنظام اجتماعی کے مختلف میدانویں میں یہ کش مکش پھیلی اوراہلِ کلیسا کی حتمی شکست کے بعد تہذیب جدید کے علم برداروں کی قیادت میں ایک نئے نظامِ زندگی کی عمارت اٹھی، تو اس سے دواور نتیجے برآمد ہوئے جنھوں نے آنے والے دَور کی پوری انسانی تاریخ پر گہرا اثرڈالا۔
ایک یہ کہ نئے نظامِ زندگی کے ہر شعبے سے’’مذہب‘‘کو عملاً بے دخل کردیا گیا اور اس کا دائرہ صرف شخصی عقیدہ وعمل تک محدود کرکے رکھ دیا گیا۔ یہ بات تہذیبِ جدید کے بنیادی اصولوں میں داخل ہو گئی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم وفن غرض اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں بھی دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ وہ محض افراد کا شخصی معاملہ ہے۔ کوئی شخص اپنی انفرادی زندگی میں خدا اور پیغمبروں کو ماننا چاہے تو مانے اوران کی دی ہوئی ہدایات کی پیروی کرنا چاہے توکرتا رہے۔ مگر اجتماعی زندگی کی ساری اسکیم اس سوال سے قطع نظر کرکے بننی اور چلنی چاہیے کہ مذھب اس کے بارے میں کیا ہدایت دیتا ہے اور کیا ہدایت نہیں دیتا۔
دوسرے یہ کہ تہذیب جدید کی رگ رگ میں خدا بیزاری اور لامذہبیت کی ذہنیت پیوست ہو گئی، علوم وفنون اور ادب کا جو کچھ بھی ارتقا ہوا، اس کی جڑ میں وہ ضد برابر موجود رہی جو علمی بیداری کے آغاز میں مذہب اور اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کے خلاف پیدا ہو چکی تھی۔ اس فکری غذا سے پرورش پائی ہوئی تہذیب جہاں جہاں پہنچی وہاں اندازِ فکر یہ ہو گیا کہ مذہب جو چیز بھی پیش کرتا ہے، خواہ وہ خدا، اور آخرت اور وحی اور رسالت کا عقیدہ ہو یا کوئی اخلاقی وتمدنی اصول، بہرحال وہ شک کا مستحق ہے۔ اس کی صحت کا کوئی ثبوت ملنا چاہیے اور نہ ملے تو اس سے انکار کیا جانا چاہیے۔ اس کے برعکس ہر وہ چیز جو دنیوی علوم وفنون کے اساتذہ کی طرف سے آئے وہ مان لینے کی مستحق ہے ا لّا یہ کہ اس کے غلط ہونے کا کوئی ثبوت مل جائے۔ یہ اندازِ خیال مغرب کے پورے نظامِ فکر پر اثر انداز ہوا ہے اور اس نے صرف علم و ادب ہی کو مذہبی نقطۂ نظر سے منحرف نہیں کر دیا ہے بلکہ تمام وہ اجتماعی فلسفے اور اجتماعی نظام جو اس نظامِ فکر کی بنیاد پر بنے ہیں عملاً خدا پرستی کے تخیل سے خالی اور آخرت کے تصور سے عاری ہیں۔