دوسری طرف جبریہ ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی چیز اللہ کے ارادے کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ عام اس سے کہ وہ اشیا کی ذوات ہوں یا ان کی صفات۔ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ کائنات میں ہر ہر ذرّے کی حرکت قضا و قدر کے تحت واقع ہوتی ہے، وجود اور ایجادمیں اللہ کے سوا کوئی چیز تاثیر نہیں رکھتی۔ خلق اور ابداع میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو اللہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ کوئی شے اس کے حکم اور اس کی قضا کے خلاف بال برابر حرکت نہیں کر سکتی۔ اس کے افعال پر حسن یا قبح کا حکم لگانا عقل کے امکان میں نہیں ہے۔ اس سے جو کچھ صادر ہوتا ہے بہتر ہی ہوتا ہے، دنیا میں ہم جن حوادث کو اسباب کے تحت صادر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، وہ محض ظاہر کے لحاظ سے تحت اسباب ہیں ورنہ حقیقتاً سب کا صدور اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے اور تمام اراضی و سماوی حوادث کا فاعل حقیقی وہی ہے۔
اس بنیادی عقیدے سے متعدد فرعی اعتقادات نکلے ہیں جبہم بن صفوان اور شیبان بن مسلمہ خارجی کا مذہب ہے کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے، نہ وہ ارادہ رکھتا ہے اور نہ اختیار، اللہ تعالیٰ جس طرح جمادات، نباتات اور دوسری چیزوں میں افعال پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح انسان میں بھی پیدا کرتا ہے۔ انسان کی طرف افعال کی نسبت محض مجازی ہے، رہا ثواب و عتاب تو جس طرح افعال جبری ہیں اسی طرح جزا و سزا بھی جبری ہے، یعنی جس طرح جبر کی بنا پر انسان اچھے اور برے افعال کرتا ہے اسی طرح جبر ہی کی بنا پر اسے جزا اور سزا بھی دے دی جاتی ہے۔ یہ خالص جبریت ہے جو معتزلہ کی خالص قدرت کے مقابلے میں ہے۔
ایک دوسری جماعت جس میں حسین النجار، بشر بن غیاث المریسی، ضرار بن عمرو، حفص الفرد اور ابوعبداللہ محمد بن کرّام، شعیب بن محمد الخارجی اور عبداللہ بن اباض بانی فرقہ اباضیہ وغیرہ شامل ہیں، خدا کو انسان کے اچھے اور برے اعمال کا خالق تو قرار دیتی ہے مگر اس کی رائے میں بندوں کو ایک طرح کی قدرت و ارادۂ حادثہ بھی حاصل ہے جس کا کچھ نہ کچھ حصہ ان افعال کے صدور میں ضرور ہے۔ اس کا نام انھوں نے ’’کسب‘‘ رکھا ہے۔ اسی کسب کی وجہ سے انسان کو امرو نہی کے احکام دیے گئے ہیں اور اسی کے لحاظ سے آدمی عذاب و ثواب کا مستحق ہو گا۔
امام ابو الحسن اشعری نے ’’کسب‘‘ کو تو تسلیم کیا اور انسان کے لیے قدرت حادثہ بھی ثابت کی مگر اس قدرت کی تاثیر سے انکار کردیا۔ یعنی ان کے نزدیک اللہ اپنے بندے سے جس فعل کے صدور کا ارادہ کرتا ہے وہ بندے کی قدرت حادثہ کے تحت صادر ہو جاتا ہے، لیکن یہ قدرت محض ایک آلہ ہے ارادۂ الٰہی کے فعل میں آنے کا، ورنہ حقیقتاً خود اس قدرت میں کوئی تاثیر نہیں جو فعل کے وجود میں آنے کی علّت ہو۔
قاضی ابوبکر باقلانی نے اس سے تھوڑا سا، اختلاف کیا ہے۔ ان کی رائے میں انسان کے ہر فعل کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو اس کے نفس فعل ہونے کا ہے بلااعتبار حسن و قبح و خیر و شر اور دوسرا پہلو اس کے اطاعت اور معصیت ہونے کا ہے۔ مثلاً نماز اور روزہ کہ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ وہ عبادت اور طاعت ہے۔ ان میں پہلا ر ُخ باری تعالیٰ کی طرف منسوب ہو گا کیونکہ وہ اسی کی قدرت سے ظہور میں آتا ہے اور دوسرا رُخ بندے کی طرف کیونکہ اسی پہلو سے ایک فعل بندے کی قدرت حادثہ کے تحت رونما ہوتا ہے اور اسی پر جزا و سزا مترتب ہوتی ہے۔
استاذ ابو اسحق اِسفرائینی نے اس مسلک سے بھی اختلاف کیا ہے۔ ان کے نزدیک فعل بجائے خود اور فعل کی صفات (یعنی اس کا حسن و قبح) دونوں معاً بندے اور خدا دونوں کی قدرت کے تحت ظہور میں آتے ہیں۔
امام الحرمین نے ان دونوں کے مذہب کو رَد کر دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بندے میں قدرت اور ارادہ پیدا کیا ہے۔ پھر اسی قدرت اور ارادے سے بندے کے مقدورات اور مرادات حاصل ہوتے ہیں۔
آخر میں امام رازی آتے ہیں جو مذہب جبر کے پُرزور وکیل ہیں۔ وہ بندے کی قدرت کے لیے کسی قسم کی تاثیر تسلیم نہیں کرتے۔ ’’کسب‘‘ کو ایک اسم بامسمٰی سمجھتے ہیں، خدا کو بندوں کے تمام اعمال کا خالق قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کفر اور ایمان، طاعت اور معصیت ، ہدایت اور ضلالت، سب کچھ خدا ہی اپنے بندوں میں پیدا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ ممکن نہیںہے کہ خدا کسی سے کفر کے صدور کا ارادہ کرے اور وہ مؤمن ہو جائے، خدا کے علم میں کوئی شخص مؤمن ہو اور وہ کافر ہو جائے، خدا نے کسی میں طاعت پیدا کی ہو اور وہ اس کے خلاف عاصی ہو جائے۔ رہا یہ سوال کہ جب ان چیزوں کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے،اور بندوں میں اس کے خلاف چلنے کی طاقت نہیں ہے تو پھر اوامرو نواہی کی تکلیف کیونکر جائز اور معقول ہو سکتی ہے تو اس کا جواب امام صاحب یہ دیتے ہیں کہ خدا کے لیے تکلیف مالا یطاق جائز ہے اور اس کے کاموں میں کیوں اور کس لیے کا سوال نہیں ہوسکتا۔
بہرحال اشاعرہ اور ان کے ہم خیال حضرات خواہ کسب کے قائل ہوں یا نہ ہوں اور قدرت حادثہ کے لیے کسی قسم کی تاثیر مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔ ان کے استدلال کا منطقی نتیجہ خالص جبر ہی ہے، کیونکہ جب خدا اپنے بندوں کا خالق ہے اور اسی نے ان سے اچھے اور برے اعمال کے صدور کا ارادہ کیا ہے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہو گی یا تو بندے میں قضائے الٰہی کے خلاف عمل کرنے کی قدرت ہو گی یا نہ ہو گی، صورت اوّل میں بندے کی قدرت اور اس کے ارادے کا خدا کی قدرت اور اس کے ارادے پر غالب آ جانا لازم آتا ہے جو بالاتفاق باطل ہے بصورتِ دوم خدا کی قدرت کے آگے بندے کی قدرت کا بے اثر اور خدا کے ارادے کے سامنے بندے کے ارادے کا بے چارہ ہونا لازم آتا ہے جس کے بعد کسب اور قدرت حادثہ کا عدم اور وجود برابر ہے۔ یہی خالص جبریت ہے اور یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جبریت کے مقدمات کو تسلیم کر لینے کے بعد کوئی شخص عقیدۂ جبر کی انتہا کو پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بیج میں کسی مقام پر ٹھہر جانا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ( بالکل یہی حال مسیحی متکلمین کا بھی ہے۔ ان کے ایک بڑے گروہ کے مقاصد اس باب میں وہی ہیں جو اشاعرہ کے ہیں۔ سینٹ اگسٹائن (St. Augustine)نے جبریت خالصہ سے بچنے کی بہت کوشش کی ہے۔ مگر خدا کو فاعل حقیقی اور انسان کو محض ایک منفعل ہستی مان لینے کے بعد وہ اپنے مذہب کو خالص جبریت سے نہیں بچا سکا۔ اسکواٹس ایرجینا (Scotus Erigena) مدرسیت مسیحی علم کلام (soholasticism) کا بانی اوّل ہے۔ خدا کے فاعل افعال عباد ہونے میں انتہا درجے کا غلو کرتا ہے۔ اس کے نزدیک خدا تمام کائنات کی روح ہے اور وہ خدا ہی ہے جو زندگی، قوت، نور، عقل بن کر موجودات عالم میں اپنے کرشمے دکھا رہا ہے۔ سینٹ آنسلم (St. Anselm) عام مسیحی اعتقاد کے مطابق انسان کے پیدائشی گناہ اور پھر خدا کے مسیح کی شکل میں نزول کرنے، اور انسان کے گناہ کا کفارہ بننے کا قائل ہے اور ظاہر ہے کہ اس اعتقاد میں جبریت کے سوا کسی اور چیز کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ابیلارڈ (Abelard) اور سینٹ ٹامس اکوم (St. Thomas of Aquin) دونوں ارادۂ الٰہی کو وجوبی و جبری قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک خدا ہی بندوں کے تمام اعمال کا خالق ہے بلکہ مؤخر الذکر نے تو اشاعرہ سے تکلیف مالایطان کے جواز کا عقیدہ بھی اخذ کر لیا ہے۔ ممتاز مدرسین میں صرف ایک ڈنس اسکوٹس (Duns Scotus) ایک ایسا شخص ہے جسے معتزلہ کی طرح قدریت کا مذہب اختیار کیا ہے۔اس کے نزدیک انسان کو ارادہ کرنے یا نہ کرنے اور اپنے ارادے کو فعل میں لانے یا نہ لانے کا پورا اختیار حاصل ہے اور خدا کی قدرت انسان کی آزادی اختیار میں مانع نہیں ہے۔