مذہبی مراسم اور قومی شعائر کو پبلک میں اعلان و اظہار کے ساتھ ادا کرنے کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ اہل الذمّہ خود اپنی بستیوں میں تو ان کو پوری آزادی کے ساتھ کر سکیں گے البتہ خالص اسلامی آبادیوں میں حکومتِ اسلامی کو اختیار ہو گا کہ ان میں آزادی دے یا ان پر کسی قسم کی پابندیاں عائد کر دے ۱؎ ۔ بدائع میں ہے:۔
لا یمنعون من اظہار شییٔ مما ذکرنا من بیع الخمر والخنزیر والصلیب وضرب الناقوس فی قریۃ او موضع لیس من امصار المسلمین ولو کان فیہ عدد کثیر من اھل الاسلام وانما یکرہ ذالک فی امصار المسلمین وھی الّتی یقام فیھا الجمع والا عیاد والحدود۔
واما اظھار فسق یعتقدون حرمتہ کالزناوسائر الفواحش اللّٰتی حرام فی دینھم فانھم یمنعون من ذالک سواء کانوا فی امصار المسلمین او فی امصارھم۔ (بدائع ج ۷ ص۱۱۳)
’’جو بستیاں امصار مسلمین میں سے نہیں ہیں ان میں ذمّیوں کو شراب و خنزیر بیچنے اور صلیب نکالنے اور ناقوس بجانے سے نہیں روکا جائے گا خواہ وہاں مسلمانوں کی کتنی ہی کثیر تعداد آباد ہو۔ البتہ یہ افعال امصار مسلمین میں ناپسندیدہ ہیں، یعنی ان شہروں میں جنہیں جمعہ و عیدین اور اقامتِ حدود کے لیے مخصوص کیا گیا ہو۔
رہا وہ فسق جس کی حرکت کے خود وہ بھی قائل ہیں مثلاً زنا اور دوسرے تمام فواحش جو ان کے دین میں بھی حرام ہیں، تو اس کے علانیہ ارتکاب سے ان کو ہر حال میں روکا جائے گا، خواہ وہ امصارِ مسلمین میں ہوں یا خود اپنے امصار میں۔‘‘
لیکن امصار مسلمین میں بھی ان کو صرف صلیبوں اور مورتیوں کے جلوس نکالنے اور علانیہ ناقوس بجاتے ہوئے بازاروں میں نکلنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ ورنہ اپنے قدیم معاہد کے اندر رہ کر وہ تمام شعائر کا اظہار کر سکتے ہیں۔ حکومت اسلامیہ اس میں دخل نہ دے گی۔
(شرح ایسرالکبیر ج۳ ص۲۵۱)