Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
مسئلہ جبر و قدر کی حقیقت
اختیار و اضطرار کا ابتدائی اثر
مسئلہ جبر و قدر کا نقطۂ آغاز
مابعد الطبیعی نقطۂ نظر
فلسفے کی ناکامی
طبیعی نقطۂ نظر
سائنس کی ناکامی
اخلاقی نقطۂ نظر
اخلاقیات کی ناکامی
دینیاتی نقطۂ نظر
صحیح اسلامی مسلک
متکلمین اسلام کے مذاہب
مذہب قدر
قرآن مجید سے قدریہ کا استدلال
مذہب جبر
قرآنِ مجید سے جبریہ کا استدلال
متکلمین کی ناکامی
تحقیق مسئلہ
امور ماورائے طبیعت کے بیان سے قرآن کا اصل مقصد
مسئلہ قضا و قدر کے بیان کا منشا
عقیدۂ تقدیر کا فائدہ عملی زندگی میں!
تناقض کی تحقیق
حقیقت کی پردہ کشائی
مخلوقات میں انسان کی امتیازی حیثیت
ہدایت و ضلالت
عدل اور جزا و سزا
جبرو قدر

مسئلہ جبرو قدر

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مخلوقات میں انسان کی امتیازی حیثیت

قرآن ہمیں خبر دیتا ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے دنیا میں مخلوقات کی جتنی انواع موجود تھیں وہ سب اپنی فطرت کے لحاظ سے اطاعت کیش واقع ہوئی تھیں۔( اس کلیے سے صرف جن مستثنیٰ ہیں جِنّ کا مسئلہ یہاں زیربحث نہیں ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جِنّوں کی زندگی میں بھی جبر و اختیار کی آمیزش ہے اور ان کے اعمال کا ایک حصہ ایسا ہے جن میں وہ مختار اور جواب دہ ہیں، لیکن بہرحال وہ ان خصوصیات کے حامل نہیں ہیں جن کی بنا پر انسان کو زمین کی خلافت دی گئی ہے۔
) اختیار اور ارادے کی قوت سرے سے ان کودی ہی نہیں گئی تھی۔ ان کا کام صرف یہ تھا کہ جس کے سپرد جو خدمت کر دی گئی اس کو وہ ایک قانون اور ایک نظام کے مطابق ذرّہ برابر سرکشی کیے بغیر بجا لاتا رہے۔ ان میں سب سے افضل مخلوق فرشتے تھے جن کے متعلق حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَo التحریم66:6
جو کچھ اللہ ان کوحکم دیتا ہے اس کی وہ نافرمانی نہیں کرتے ہیں اور جو ان کو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔
اسی طرح اجرامِ فلکی کی عظیم الشان ہستیاں تھیں، جن کا حال یہ تھا:
وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّہَا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ۝۳۸ۭ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِo لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَہَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّہَارِ۝۰ۭ وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَo یٰسین36:38-40
سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جا رہا ہے یہ ایک زبردست صاحب علم کا ٹھہرایا ہوا اندازہ ہے اور چاند کی منزلیں ہم نے مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی پہلی کجی کی طرف پلٹ آتا ہے، نہ سورج کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے نہ رات کی یہ مجال ہے کہ دن سے پہلے آ جائے۔ سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔
یہی حال آسمان و زمین کی دوسری مخلوقات کا تھا:
كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَo الروم30:26
سب اس کے تابع فرمان ہیں۔
لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا يَسْتَحْسِرُوْنَo يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ لَا يَفْتُرُوْنَo
الانبیاء20: 19-20
اپنے رب کی بندگی سے نہ سرکشی کرتے ہیں، نہ تھکتے ہیں، شب و روز چاکری میں دوڑ رہے ہیں، ذرا دم نہیں لیتے۔
پھر اللہ نے چاہا کہ اپنی بنائی ہوئی مخلوقات میں سے کسی کو اپنی وہ امانت سپرد کر دے جو اس وقت تک کسی کو نہ دی گئی تھی۔ چنانچہ اس نے وہ امانت آسمان اور زمین کی مخلوقات میں سے ایک ایک کے سامنے پیش کی اور ہر ایک نے زبانِ حال سے اپنی ناقابلیت اور اپنے عدم تحمل کا اقرار کیا۔ آخر کار اللہ نے اپنی تخلیق کا جدید ترین ایڈیشن نکالا جس کا نام انسان ہے اور اس نے بڑھ کر وہ بارِ امانت اٹھا لیا جس کے اٹھانے کی صلاحیت اور ہمت کسی مخلوق میں نہ تھی۔
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo الاحزاب33:72
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے آگے پیش کیا مگر انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ یقیناً وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا اور نادان ہے (کہ اتنا بڑا بار امانت اٹھا کر اس کی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا۔)
یہ امانت کیا تھی؟ اللہ تعالیٰ کی صفات علم، قدرت، اختیار، ارادہ اور فرماں روائی کا پرتو جو اس وقت تک کسی مخلوق پر نہ ڈالا گیا تھا، جس کے قبول کرنے کی صلاحیت نہ فرشتوں میں تھی نہ اجرام فلکی[میں]، نہ پہاڑوں میں، نہ دنیا کی کسی مخلوق میں۔ وہ صرف انسان تھا جو اپنی فطرت کے لحاظ سے اس پرتو کا متحمل ہو سکتا تھا۔ اس لیے اس نے یہ بارِ امانت اٹھا لیا اور اسی لیے وہ اللہ کی خلافت و نیابت کے منصب پر سرفراز ہوا۔
اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۝۰ۭ البقرہ2:130
اس بارِ امانت کے حامل اس خلیفۃ اللہ فی الارض کی امتیازی خصوصیت جس کی بنا پر یہ دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز ہو گیا ہے، یہ ہے کہ وہ طبعاً اطاعت کیش نہیں بنایا گیا ہے۔ ( یہ بات متعدد آیاتِ قرآنی سے ثابت ہوتی ہیں مثلاً وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۝۰ۭ(یونس10:99)، لَوْشَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکُوْا (الانعام6:107) وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا خود یہ نہیں چاہتا تھا کہ انسان کو زبردستی شرک سے روکے اور ایمان پر مجبور کرے۔
) اس کو عام مخلوقات کی طرح نظام کلی کے تحت قوانین و حدودِ الٰہی کا پابند بنانے کے ساتھ ایک ایسی قوت بھی عطا کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بخلاف دوسری مخلوقات کے ایک خاص دائرے میں مجبورانہ اطاعت سے آزاد ہے اور اتنا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے اطاعت کرے اور چاہے سرکشی و نافرمانی کرنے لگے۔ یہ ایسا فرق ہے جو کلامِ الٰہی میں تدبر کرنے والے کو صاف نظر آتا ہے۔ قرآنِ مجید میں آپ کو انسان کے سوا کسی اور ایسی مخلوق کا نشان نہ ملے گا جس کی طرف اطاعت اور عصیاں، فرمانبرداری اور نافرمانی، حدود اللہ کی پابندی، اور ان حدود سے تجاوز، دونوں کی نسبت دی گئی ہو اور جس کی اطاعت پرجزا اور عصیان پر سزا کے مرتکب ہونے کا ذکر کیا گیا ہو، وہ انسان ہی ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ:
وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo البقرہ2:22
جو لوگ اللہ کے حدود سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔
وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّہِمْ الاعراف7:77
انھوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی۔
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۝۰ۭ النساء4:60
چاہتے ہیں کہ طاغوت کے پاس اپنا مقدمہ لے جائیں حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ اس سے کفر کریں۔
وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَo الاعراف7:160
انھوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔
وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ يُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا۝۰ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُo وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ يُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا۝۰۠
النساء4:13، 14
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے حدود سے تجاوز کرے گا اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔
یہ اور ایسی ہی بے شمار آیات ظاہر کرتی ہیں کہ انسان میں بخلاف دوسری تمام مخلوقات کے ایک ایسی قوت موجود ہے جس سے وہ اطاعت اور سرکشی دونوں پر قدرت رکھتا ہے اور اسی قوت کے صحیح یا غلط استعمال سے فلاح یا خسران ثواب یا عتاب انعام یا غضب کا مستحق ہوتا ہے۔

شیئر کریں