اس مقام کو سمجھنے کے لیے میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اسلامی فقہ میں مزارعت اور مضاربت کا جو قانون بیان کیاگیا ہے اس کا مطالعہ کریں۔ موجودہ زمانے کے علم المعیشت میں زمین اور محنت اور سرمائے اور تنظیم کو جس طرح معاشی عوامل کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے، ہمارے متقدمین کی کتابوں میں اس انداز سے اس کو بیان نہیں کیا گیا، ورنہ اس موضوع پر الگ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ سب مسائل فقہ کے مختلف ابواب میں بیان کیے گئے ہیں اور ان کی زبان علم المعیشت کی موجودہ اصطلاحوں سے مختلف ہے۔ لیکن جو شخص بھی اصطلاحوں کا غلام نہیں بلکہ معاشیات کے اصل موضوع اور مسائل کا فہم رکھتا ہے وہ بآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس فقہی زبان میں جو کچھ کہاگیا ہے اس کے اندر معاشی تصورات کیا ہیں۔ ہماری فقہ میں مزارعت اور مضاربت کا جو قانون بیان کیا گیا ہے وہ زمین، محنت، سرمائے اور تنظیم کے بارے میں اسلام کے طرزِ فکر کو پوری طرح واضح کر دیتا ہے۔ مزارعت یہ ہے کہ زمین ایک شخص کی ہے اور اس پر کاشت دوسرا شخص کرتا ہے ، اور یہ دونوں اس کے فوائد میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ مضاربت یہ ہے کہ ایک آدمی کا روپیہ ہے اور دوسرا آدمی اس روپے سے کاروبار کرتاہے، اور یہ دونوں اس کے منافع میں حصہ دار ہیں۔ معاملات کی ان شکلوں میں جس طرح اسلام نے زمین اور سرمائے والے، اور اس پر کام کرنے والے کے حقوق تسلیم کئے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے زمین بھی ایک معاشی عامل ہے اور انسان کی محنت بھی۔ سرمایہ بھی ایک معاشی عامل ہے اور اس پر انسان کی محنت اور تنظیمی قابلیت بھی۔ یہ سب عوامل منافع میں حصہ داری کا استحقاق پیدا کرتے ہیں ۔ اسلام ابتدائی طور پر ان مختلف عوامل کے درمیان حصہ داری کا تعین عرف عا م پر چھوڑتا ہے تا کہ اگر معروف طریقے پر لوگ خود باہم انصاف کر رہے ہوں تو قانون مداخلت نہ کرے۔ لیکن اگر کسی معاملے میں انصاف نہ ہو رہا ہو تو یقیناً یہ قانون کا فریضہ ہے کہ اس میں انصاف کے حدود مقرر کرے۔ مثلاً اگر میں زمین کا مالک ہوں اور ایک شخص کو اپنی زمین بٹائی پر دیتا ہوں، یا کسی شخص سے مزدوری پر کاشت کا کام لیتا ہوں، یا کسی کو ٹھیکے پر دے دیتا ہوں ، اور اس کے ساتھ میری شرائط معروف طریقے پر انصا ف کے ساتھ طے ہوتی ہیں تو قانون کو مداخلت کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ قانون اس کے لیے ضوابط مقرر کرسکتا ہے کہ مزارعت ان اصولوں پر ان قواعد کے مطابق ہونی چاہیے، تا کہ نہ زمین والے کا حق مارا جائے اور نہ محنت کرنے والے کا حق۔ اسی طرح کاروبار میں سرمایہ لگانے والوں اور محنت اور تنظیم کرنے والوں کے درمیان بھی جب تک انصاف کے ساتھ خود معاملات طے ہو رہے ہوں اور کوئی کسی کا حق نہ مار رہا ہو ، نہ کسی پر زیادتی کر رہا ہو، تو قانون مداخلت نہیں کرے گا۔ ہاں جب ان معاملا ت میں کسی طرح کی بھی بے انصافی آ جائے گی تو قانون کو نہ صرف یہ کہ دخل دینے کا حق ہے بلکہ یہ اس کا فریضہ ہے کہ ان کے لیے ایسے منصفانہ قواعد مقرر کرے جن کے مطابق سرمایہ، محنت اور تنظیم، سب کاروبار کے منافع میں انصاف کے ساتھ حصہ دار بن جائیں۔