اوپر ہم نے قتل مرتد پر اعتراض کرنے والوں کے جو دلائل نقل کیے ہیں اور ان کے جواب میں اپنی طرف سے جو دلائل پیش کیے ہیں ان کا مقابلہ کرنے سے ایک بات بالکل واضح طور پر نظر کے سامنے آجاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ معترضین مرتد کی سزا پر جتنے اعتراض کرتے ہیں محض ایک ’’مذہب‘‘ کو نگاہ میں رکھ کر کرتے ہیں، اور اس کے برعکس ہم اس سزا کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتے ہیں ان میں ہمارے پیش نظر مجرد ’’مذہب‘‘ نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا اسٹیٹ ہوتا ہے جو کسی خاندان یا طبقہ یا قوم کی حاکمیت کے بجائے ایک دین اور اس کے اصولوں کی حاکمیت پر تعمیر ہوا ہو۔
جہاں تک مجرد مذہب کا تعلق ہے، ہمارے اور معترضین کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایسا مذہب مرتد کو سزا دینے کا حق نہیں رکھتا، جب کہ سوسائٹی کا نظم و نسق اور ریاست کا وجود عملاً اس کی بنیاد پر قائم نہ ہو۔ جہاں اور جن حالات میں اسلام فی الواقع ویسے ہی ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ معترضین کا تصورِ مذہب ہے، وہاں ہم خود بھی مرتد کو سزائے موت دینے کے قائل نہیں ہیں۔ فقہ اسلامی کی رُو سے محض ارتداد کی سزا ہی نہیں، اسلام کے تعزیری احکام میں سے کوئی حکم بھی ایسے حالات میں قابل نفاذ نہیں رہتا جب کہ اسلامی ریاست (یا با صطلاح شرع ’’سلطان‘‘) موجود نہ ہو۔ لہٰذا مسئلہ کے اس پہلو میں ہمارے اور معترضین کے درمیان بحث خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔
اب قابل بحث صرف دوسرا پہلو رہ جاتا ہے یعنی یہ کہ جہاں مذہب خود حاکم ہو، جہاں مذہبی قانون ہی ملکی قانون ہو، اور جہاں مذہب ہی نے امن و انتظام کے برقرار رکھنے کی ذمے داری اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہو، آیا وہاں بھی مذہب ایسے لوگوں کو سزا دینے کا حق رکھتا ہے یا نہیں جو اس کی اطاعت و وفاداری کا عہد کرنے کے بعد اس سے پھر جائیں؟ ہم اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ کیا ہمارے معترضین کے پاس اس کا جواب نفی میں ہے؟ اگر نہیں تو اختلاف بالکل ہی دُور ہو جاتا ہے۔ اور اگر ہے تو ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اس پر انھیں کیا اعتراض ہے اور کیا ان کے دلائل ہیں؟