Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دینِ حق
اَلِّدیْن َکا مفہوم
الاِسلام کا مفہوم
قرآن کا دعوٰی کیا ہے؟
طریقِ زندگی کی ضرورت
زندگی کا انقسام پذیر نہ ہونا
زندگی کی جغرافی ونسلی تقسیم
زندگی کی زمانی تقسیم
انسان کیسے طریقِ زندگی کا حاجت مند ہے
کیا انسان ایسا نظام خود بنا سکتا ہے؟
الدین کی نوعیت
انسانی ذرائع کا جائزہ
۱۔ خواہش
۲۔ عقل
۳۔ سائنس
۴۔ تاریخ
مایوس کُن نتیجہ
اُمِّید کی ایک ہی کرن
قرآن کے دلائل
خدائی ہدایت کے پرکھنے کا معیار
ایمان کے تقاضے

دینِ حق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مایوس کُن نتیجہ

یہ مختصر اشارات جو میں نے کیے ہیں، مجھے توقع ہے کہ میں نے ان میں کوئی علمی یا استدلالی غلطی نہیں کی ہے۔ اور اگر انسان کے ذرائع کا جائزہ جو میں نے لیا ہے، صحیح ہے تو پھر ہمیں کوئی چیز اس یقین تک پہنچنے سے باز نہیں رکھ سکتی کہ انسان اپنے لیے کوئی کچا پکا، غلَط سلط، وقتی اور مقامی ’’دین‘‘ تو وضع کر سکتا ہے، لیکن وہ چاہے کہ ’’الدین‘‘ وضع کر لے، تو یہ قطعی محال ہے۔ پہلے بھی محال تھا۔ آج بھی محال ہے، اور آیندہ کے لیے بھی اس کے امکان سے پوری مایوسی ہے۔
اب اگر کوئی خدا راہ نمائی کے لیے موجود نہیں ہے جیسا کہ منکرینِ خدا کا خیال ہے تو انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ خود کشی کر لے۔ جس مسافر کے لیے نہ کوئی راہ نما موجود ہو اور نہ جس کے اپنے پاس راستہ معلوم کرنے کے ذرائع موجود ہوں، اس کے لیے یا س اور کامل یاس کے سوا کچھ مقدر نہیں۔ اس کا کوئی ہم درد اس کے سوا اُسے اور کیا مشورہ دے سکتا ہے کہ سرِراہ ایک پتھر سے اپنی مشکل آسان کر لے۔ اوراگر خدا ہے لیکن راہ نمائی کرنے والا خدا نہیں ہے، جیسا کہ بعض فلسفیانہ اور سائنٹیفک طرز کے مثبتینِ خدا کا گمان ہے تو یہ اور بھی افسوس ناک صورت حال ہے۔ جس خدا نے موجوداتِ عالم کے بقا ونشوونما کے لیے ہر اس چیز کی فراہمی کا انتظام کیا ہے جس کی ضرورت کا تصوّر کیا جا سکتا ہو، لیکن ایک نہیں کیا تو صرف انسان کی اُس سب سے بڑی ضرورت کا انتظام جس کے بغیر پوری نوع کی زندگی غلَط ہوئی جاتی ہے، اس کی بنائی ہوئی دُنیا میں رہنا ایک مصیبت ہے، ایسی سخت مصیبت جس سے بڑھ کر کسی دوسری مصیبت کا تصوّر ممکن نہیں۔ آپ غریبوں اور مفلسوں، بیماروں اور زخمیوں، مظلوموں اور دکھی جنتائوں کی مصیبت پر کیا روتے ہیں، رویے اس پوری نوع کی مصیبت پر جو اس بیچارگی کے عالم میں چھوڑ دی گئی ہے کہ بار بار غلَط تجربہ کرکے ناکام ہوتی ہے، ٹھوکریں کھا کر گرتی ہے اور پھر اٹھ کر چلتی ہے تاکہ پھر ٹھوکر کھائے، ہر ٹھوکر پر ملک کے ملک اور قومیں کی قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اُس غریب کو اپنے مقصدِ زندگی تک کی خبر نہیں ہے، کچھ نہیں جانتی کہ کاہے کے لیے سعی وعمل کرے اور کس ڈھنگ پر کرے۔ یہ سب کچھ وہ خدا دیکھ رہا ہے جو اسے زمین پر وجود میں لایا ہے، مگر وہ بس پید ا کرنے سے مطلب رکھتا ہے، راہ نمائی کی پروا نہیں کرتا۔

شیئر کریں