Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
ایک غلط فہمی کا ازالہ
پچھلی تاریخ کا جائزہ
ہماری غلامی کے اسباب
دینی حالت
اخلاقی حالت
ذہنی حالت
مغربی تہذیب کی بنیادیں
مذہب
فلسفۂ حیات
ہیگل کا فلسفۂ تاریخ
ڈارون کا نظریۂ ارتقا
مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ
اَخلاق
سیاست
فاتح تہذیب کے اثرات
تعلیم کا اثر
معاشی نظام کا اثر
قانون کا اثر
اخلاق ومعاشرت کا اثر
سیاسی نظام کا اثر
ہمارا ردِّعمل
انفعالی ردِّ عمل
جمودی ردِّ عمل
ہم کیا چاہتے ہیں؟
یَک سُوئی کی ضرورت
ہمارا لائحۂ عمل

مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ

اسی کا ہم جنس ایک اور فلسفہ تھا جو ڈارون ہی کے زمانے میں مارکس کی مادی تعبیر تاریخ کے بطن سے نکلا۔ اس کی تفصیلات اور اس کے دلائل سے میں یہاں کوئی بحث نہیں کروں گا اور نہ اس کی علمی حیثیت پر کوئی تنقید ہی کروں (اس کی علمی حیثیت پر مختصر تنقید ہماری کتاب ’’تفہیمات‘‘ حصہ دوم، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ لاہور میں ملے گی۔
) گا۔ میں یہاں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی ذہن کو اس نے بھی حیاتِ دنیا کا وہی تصور دیا جو پہلے ہیگل نے فکر کی دنیا کو رزم گاہ بنا کر پیش کیا تھا۔ ڈارون نے کائنات اور نظامِ فطرت کو میدانِ جنگ بنا کر دکھایا اور مارکس نے وہی تصویر انسانی معاشرے کی بنا کر دکھا دی۔ اس تصویر میں انسان ہم کو شروع سے لڑتا جھگڑتا نظر آتا ہے۔ اس کی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی اغراض اور اپنے مفاد کے لیے اپنے ہم جنسوں سے لڑے۔ وہ سراسر خود غرضی کی بنیاد پر ان طبقوں میں کش مکش اور نزاع برپا کر رہی ہے اور انسانی تاریخ کا سارا ارتقا اسی خود غرضانہ طبقاتی کش مکش کی بدولت ہوا ہے۔ قوموں اور قوموں کی لڑائی تو درکنار خود ایک ہی قوم کے مختلف طبقوں کی لڑائی بھی اس تصور میں ہم کو سراسر ایک تقاضائے فطرت نظر آتی ہے۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اور انسان کے درمیان اگر کوئی رشتہ ہے تو وہ صرف اغراض ومفاد کے اشتراک کا رشتہ ہے۔ ان رشتہ داروں سے ملنا اور متفق ہو کر ان سب لوگوں سے لڑنا جن سے آدمی کی معاشی اغراض متصادم ہوں… خواہ وہ اپنے ہی ہم قوم اور ہم مذہب کیوں نہ ہوں… سراسر حق ہے اور اس حرکت کا ارتکاب نہیں، بلکہ اس سے اجتناب خلافِ فطرت ہے۔

شیئر کریں