اس لغوی تحقیق کے بعد جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کتابِ پاک میں یہ لفظ تمام تر پہلے تین معنوں میں استعمال ہوا ہے کہیں معنیٔ اوّل ودوم ایک ساتھ مراد ہیں، کہیں معنیٔ دوم اور کہیں صرف معنیٔ سوم مراد لیے گئے ہیں، اور کہیں تینوں معنی بیک وقت مقصود ہیں۔
عبادت بمعنی غلامی واطاعت
پہلے اور دوسرے معنی کی مثالیں حسب ذیل ہیں:
ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَاَخَاہُ ہٰرُوْنَ۰ۥۙ بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍo اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا عَالِيْنَo فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَo (مومنون۲۳: ۴۵۔۴۷)
پھر ہم نے موسیٰ ؑاور اس کے بھائی ہارونؑ کو اپنی نشانیوں اور صریح دلیلِ ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کی طرف بھیجا۔ مگر وہ تکبر سے پیش آئے، کیوں کہ وہ بااقتدار لوگ تھے۔ انھوں نے کہا کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کا کہا مان لیں اور آدمی بھی وہ جن کی قوم ہماری عابد ہے۔
وَتِلْكَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَيَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَo (الشعرائ۲۶: ۲۲)
(فرعون نے جب موسیٰ ؑکو طعنہ دیا کہ ہم نے تجھے اپنے ہاں بچپن سے پالا ہے تو موسیٰ ؑ نے کہا) اور تیرا وہ احسان جس کا تو مجھے طعنہ دے رہا ہے۔ یہی تو ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا عبد بنا لیا۔
دونوں آیتوں میں عبادت سے مراد غلامی اور اطاعت وفرماں برداری ہے۔ فرعون نے کہا موسیٰ ؑ اور ہارون کی قوم ہماری عابد ہے، یعنی ہماری غلام ہے اور ہمارے فرمان کی تابع ہے۔ اور حضرت موسیٰ ؑنے کہا کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا عبد بنا لیا ہے، یعنی انھیں غلام بنا لیا ہے اور ان سے من مانی خدمت لیتا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلہِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَo (البقرہ۲: ۱۷۲)
اے ایمان لانے والو! اگر تم ہماری عبادت کرتے ہو تو ہم نے جو پاک چیزیں تمھیں بخشی ہیں انھیں کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو۔
اس آیت کا موقع ومحل یہ ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اپنے مذہبی پیشوائوں کے احکام اور اپنے آبائو اجداد کے اوہام کی پیروی میں کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق طرح طرح کی قیود کی پابندی کرتے تھے۔ جب ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اگر تم ہماری عبادت کرتے ہو، تو ان ساری پابندیوں کو ختم کرو اور جو کچھ ہم نے حلال کیا ہے اسے حلال سمجھ کر بے تکلف کھائو پیو۔‘‘ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنے پنڈتوں اور بزرگوں کے نہیں بلکہ ہمارے بندے ہو، اور اگر تم نے واقعی ان کی اطاعت وفرماں برداری چھوڑ کر ہماری اطاعت وفرماں برداری قبول کی ہے تو اب تمھیں حلّت وحرمت اور جواز وعدمِ جواز کے معاملہ میں ان کے بنائے ہوئے ضابطوں کی بجائے ہمارے ضابطہ کی پیروی کرنا ہو گی۔ لہٰذا یہاں بھی عبادت کا لفظ غلامی اور اطاعت ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
قُلْ ہَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللہِ۰ۭ مَنْ لَّعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَيْہِ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَـنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ۰ۭ (المائدہ۵: ۶۰)
کہو! میں بتائوں تمھیں کہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا انجام کن لوگوں کا ہے؟ وہ جن پر اللہ کی پھٹکار ہوئی اور اس کا غضب ٹوٹا، جن میں سے بہت سے لوگ بندر اور سؤر تک بنا دیے گئے، جنھوں نے طاغوت کی عبادت کی۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۰ۚ
(النحل۱۶: ۳۶)
ہم نے ہر قوم میں ایک پیغمبر یہ تعلیم دینے کے لیے بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے باز رہو۔
وَالَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْہَا وَاَنَابُوْٓا اِلَى اللہِ لَہُمُ الْبُشْرٰى۰ۚ
(الزمر۳۹: ۱۷)
اور خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے طاغوت کی عبادت کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کیا۔
تینوں آیتوں میں طاغوت کی عبادت سے مراد طاغوت کی غلامی اور اطاعت ہے، جیسا کہ اس سے پہلے ہم اشارہ کر چکے ہیں، قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد ہر وہ ریاست واقتدار اور ہر وہ راہ نُمائی وپیشوائی ہے جو خدا سے باغی ہو کر خدا کی زمیں میں اپنا حکم چلائے اور اس کے بندوں کو زور وجبر سے یا تحریص واطماع سے یا گم راہ کن تعلیمات سے اپنے تابع امر بنائے۔ ایسے ہر اقتدار اور ایسی ہر پیشوائی کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا اور اس کی بندگی اختیار کرکے اس کا حکم بجا لانا طاغوت کی عبادت ہے۔