اِشتِراکِ زبان کا فائدہ صرف اس قدر ہے کہ جو لوگ ایک زبان بولتے ہیں وہ باہمی تفاہُم اور تبادلۂ خیالات کے زیادہ مواقع رکھتے ہیں۔ اس سے اجنبیت کا پردہ بڑی حد تک اُٹھ جاتا ہے اور ایک زبان بولنے والے اپنے آپ کو ایک دوسرے سے قریب تر محسوس کرتے ہیں۔ مگر ادائے خیال کے وسیلہ کا مشترک ہونا، خود خیال کے اِشتِراک کو مستلزم نہیں ہے۔ ایک ہی خیال دس مختلف زبانوں میں ادا ہوسکتا ہے اور ان سب کے بولنے والوں کا اس خیال میں متَّحد ہوجانا ممکن ہے۔ بخلاف اس کے دس مختلف بیانات ایک زبان میں ادا ہوسکتے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ اس ایک ہی زبان کے بولنے والے مختلف خیالات کے معتقد ہوکر باہم مختلف ہوجائیں۔ لہٰذا وحدت خیال جو حقیقتاً قوم کی جان ہے اِشتِراکِ زبان کا محتاج نہیں ہے اور نہ اِشتِراکِ زبان کے ساتھ وحدت خیال ضروری ہے۔ پھر ایک بڑا سوال یہ ہے کہ آدمی کی آدمیت اور اس کے ذاتی حُسن و قبح میں اس کی زبان کو کیا دخل ہے؟ ایک جرمن بولنے والے شخص کو ایک فرنچ بولنے والے کے مقابلہ میں کیا محض اس بنا پر ترجیح دی جاسکتی ہے کہ وہ جرمن زبان بولتا ہے؟ دیکھنے کی چیز اس کا جوہر ذاتی ہے نہ کہ اس کی زبان ۔زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ ایک ملک کے انتظامی معاملات اور عام کاروبار میں وہی شخص مفید ہوسکتا ہے جو اس ملک کی زبان جانتا ہو مگر انسانیت کی تقسیم اور قومی امتیاز کے لیے یہ کوئی صحیح بنیاد نہیں ہے۔