یہ ہے میرے نزدیک اس نظامِ تعلیم کا نقشہ جو موجودہ مذہبی تعلیم اور دنیوی تعلیم کے نظام کو ختم کرکے اس ملک میں قائم ہونا چاہیے۔ مگر اصلاحِ حال کی ساری کوشش لاحاصل رہے گی جب تک کہ مذکورہ بالااصلاحات کے ساتھ ساتھ حسبِ ذیل اقدامات بھی نہ کیے جائیں۔
سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیمی پالیسی کی باگیں ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیں جو اسلامی فکر رکھتے ہوں‘ اسلامی نظامِ تعلیم کو جانتے ہوں اور اسے قائم کرنا چاہتے بھی ہوں۔ یہ کام اگر ہو سکتا ہے تو ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہو سکتا ہے نہ کہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں جو نہ اسلام کو جانتے ہیں، نہ اس کے نظامِ تعلیم کو، اور نہ اس کے قیام کی کوئی خواہش ہی دل میں رکھتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اگر زمامِ کار پر قابض رہیں اور پھر ہم رات دن کی چیخ پکار سے دبائو ڈال ڈال کر ان سے یہ کام زبردستی کراتے رہیں تو بادلِ نخواستہ وہ کچھ اسی طرح کی ضمنی اور سطحی ’’اصلاحات‘‘ کرتے رہیںجیسی اب تک ہوتی رہی ہیں، اور ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے مدرسوں اور کالجوں کے لیے معلمین اور معلمات کے انتخاب میں ان کی سیرت واخلاق اور دینی حالت کو ان کی تعلیمی قابلیت کے برابر، بلکہ اس سے زیادہ اہمیت دین اور آئندہ کے لیے معلمین کی ٹریننگ میں بھی اسی مقصد کے مطابق اصلاحات کریں۔ جو شخص تعلیم کے معاملہ میں کچھ بھی بصیرت رکھتا ہے ،وہ اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہو سکتا کہ نظامِ تعلیم میں نصاب اور اس کی کتابوں سے بڑھ کر استاد اور اس کا کریکٹر اور کردار اہمیت رکھتا ہے۔ فاسد العقیدہ اور فاسد الاخلاق استاد اپنے شاگردوں کو ہرگز وہ ذہنی اور اخلاقی تربیّت نہیں دے سکتے جو ہمیں اپنے نئے نظام میں مطلوب ہے۔ دوسرے تمام شعبہ ہائے زندگی میں تو بگڑے ہوئے کارکن زیادہ تر موجودہ نسل ہی کو بگاڑتے ہیں مگر نظامِ تعلیم اگر بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو وہ آئندہ نسل کا بھی ناس کر دیتے ہیں جس کے بعد مستقبل میں بھی کسی صلاح وفلاح کی امید باقی نہیں رہتی۔آخری چیز اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ہمیں اپنی تعلیم گاہوں کا پورا ماحول بدل کر اسلام کے اصول اسپرٹ کے مطابق بنانا ہو گا۔ یہ مخلوط تعلیم، یہ فرنگیت کے مظاہر، یہ ازفرق تا بقدم مغربی تہذیب وتمدن کا غلبہ، یہ کالجوں کے مباحثے اور انتخابات کے طریقے، اگر یہ سب کچھ آپ کے ہاںیوں ہی جاری رہے اور ان میں سے کسی چیز کو بھی آپ بدلنے کے لیے تیار نہ ہوں تو پھر ختم کیجئے اصلاحِ تعلیم کی ساری اس گفتگو کو، اس لیے کہ اس ذہنی وتہذیبی غلامی کے ماحول میں ایک آزاد مسلم مملکت کے وہ باعزت شہری اور کارکن و کار فرما کبھی پروان نہیں چڑھ سکتے جنہیں اپنی قومی تہذیب پر فخر ہو‘ اور اس بے سیرتی کی آب وہوا میں کبھی اس مضبوط کردار کے لوگ پرورش نہیں پا سکتے جو اصول اور ضمیر کے معاملے میں کوئی لچک کھانے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہ ماحول برقرار رکھنا ہو تو پھر ہمیں سرے سے یہ خیال ہی چھوڑ دینا چاہیے کہ یہاں ہمیں ایک ایمان دار اور باضمیر قوم تیار کرنی ہے۔ آخر یہ کیا مذاق ہے کہ ایک طرف آپ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح احکام کی خلاف ورزی کرکے جو ان لڑکیوں اور جوان لڑکوں کو ایک ساتھ بٹھاتے ہیں اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ انہی لڑکوں اور لڑکیوں میں خدا کا خوف اور اخلاقی قوانین کا احترام پیدا ہو۔ ایک طرف آپ اپنی تمام حرکات وسکنات اور اپنے پورے ماحول سے اپنی نئی نسلوں کے ذہن پر فرنگی تہذیب اور فرنگی طرز زندگی کا رعب بٹھاتے ہیں اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ زبانی باتوں سے ان کے دلوں میں قومی تہذیب کی قدر پیدا ہو جائے۔ ایک طرف آپ اپنے مباحثوں میں روز اپنے نوجوانوں کو زبان اور ضمیر کا تعلق توڑنے اور ضمیر کے خلاف بولنے کی مشق کراتے ہیں، اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ ان کے اندر راست بازی اور حق پرستی پیدا ہو۔ ایک طرف آپ ان کو وہ سارے انتخابی ہتھکنڈے اپنے کالجوں ہی میں برتنے کا خوگر بنا دیتے ہیں جنہوں نے ہماری پوری سیاسی زندگی کو گندہ کرکے رکھ دیا ہے اور دوسری طرف آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ یہاں سے نکل کر وہ بڑے ایمان دار اور کھرے ثابت ہوں گے۔ ایسے معجزات کا ظہور صریحاً محال ہے۔ اگر ہم اپنی قومی زندگی کو خرابیوں سے پاک کرنے کے واقعی خواہش مند ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ماحول کی تطہیر سے اس کا آغاز کرنا ہو گا۔