مولانا فرماتے ہیں کہ ’’فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ لیکن یہ ایک قطعی غلط اور سراسر بے بنیاد دعویٰ ہے۔ پوری انسانی تاریخ سے ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ کوئی قوم محض وطن سے بنی ہو۔ آج اس زمانہ میں بھی دُنیا کی تمام قومیں مولانا کے سامنے موجود ہیں۔ وہ فرمائیں کہ ان میں سے کون سی قوم وطن سے بنی ہے؟ کیا امریکا کے حبشی اور ریڈ انڈین اور سفید فام ایک قوم ہیں؟ کیا جرمنی کے یہودی اور جرمن ایک قوم ہیں؟ کیا پولینڈ، روس، ترکی، بلغاریہ، یونان، یوگوسلاویہ، چیکوسلوواکیہ، لتھوانیا، فن لینڈ، کسی جگہ بھی خاکِ وطن کے اِشتِراک نے ایک قوم بنائی؟ کیا ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ یہودی جو روئے زمین کے اطراف و اکناف میں منتشر ہیں کسی جگہ بھی وطنی قومیت میں جذب ہوگئے ہیں؟ کیا یورپ کے مختلف ممالک میں جرمن، مگیار، سلافی، مورادین وغیرہ مختلف قومی اقلیتیں کسی جگہ بھی وطنی رشتۂ اِشتِراک میں گم ہوئیں؟ واقعات تو بہرحال واقعات ہیں۔ آپ ان کو اپنی خواہشات کا تابع نہیں بناسکتے، آپ کو یہ کہنے کا حق ہے۔ اگر آپ ایسا کہنا چاہیں کہ اب قوموں کو اوطان سے بننا چاہیے لیکن آپ کو ثبوت اور شہادت سے بے نیاز ہوکر دنیا کو یہ غلط خبر دینے کا کیا حق ہے کہ اب قومیں اوطان سے بننے لگی ہیں؟
ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنِ
اس میں شک نہیں کہ ایک ملک کے باشندوں کو باہر والے ان کے ملک کی طرف منسوب کرتے ہیں، مثلاً امریکن، خواہ حبشی ہو یا فرنگی، باہر والے اس کو امریکن ہی کہیں گے۔ مگر کیا اس سے یہ حقیقت بدل جاتی کہ امریکا میں دو الگ الگ قومیں ہیں، نہ کہ ایک قوم؟ یہ بھی صحیح ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں ایک شخص اصطلاحاً اس سلطنت کا ’’نیشنل‘‘ کہلاتا ہے جس کی وہ رعایا ہو۔ مثلاً اگر مولانا حسین احمد صاحب بیرونِ ہند تشریف لے جائیں تو ان کو ’’برٹش نیشنلٹی‘‘ (برطانوی قومیت) سے منسوب کیا جائے گا لیکن کیا یہ اصطلاحی قومیت حقیقت میں بھی مولانا کی قومیت بدل دے گی؟ پھر بھلا علمی حیثیت سے اس استدلال کی کیا وقعت ہوسکتی ہے کہ ’’اس وطن کے رہنے والے کی حیثیت سے سب (عیسائی، پارسی وغیرہ) ایک ہی شمار ہوتے ہیں؟‘‘ شمار ہونے اور فی الواقع ہونے میں بڑا فرق ہے۔ ایک کو دوسرے کے لیے نہ تو دلیل بنایا جاسکتا ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کو فی الواقع وہی ہونا چاہیے جیسے وہ شمار کیے جاتے ہیں۔