اس میں شک نہیں کہ قومیت کی ابتداء ایک معصوم جذبہ سے ہوتی ہے، یعنی اس کا مقصد اوّل یہ ہوتا ہے کہ ایک خاص گروہ کے لوگ اپنے مشترک مفاد و مصالح کے لیے عمل کریں اور اجتماعی ضرویات کے لیے ایک قوم بن کر رہیں لیکن جب ان میں ’’قومیّت‘‘ پیدا ہوجاتی ہے تو لازمی طور پر ’’عصبیّت‘‘ کا رنگ اس میں آجاتا ہے اور جتنی جتنی ’’قومیّت‘‘شدید ہوتی جاتی ہے اسی قدر ’’عصبیّت‘‘میں بھی شدت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جب کبھی ایک قوم اپنے مفاد کی خدمت اور اپنے مصالح کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو ایک رشتۂ اتحاد میں منسلک کرے گی یا بالفاظِ دگر اپنے گرد ’’قومیّت‘‘ کا حصار چُن لے گی تو لازماً وہ اس حصار کے اندر والوں اور باہر والوں کے درمیان اپنے اور غیر کا امتیاز کرے گی۔ اپنے کو ہرمعاملہ میں غیر پر ترجیح دے گی۔ غیر کے مقابلہ میں اپنے کی حمایت کرے گی۔ جب کبھی دونوں کے مفاد و مصالح میں اختلاف واقع ہوگا تو وہ اپنے کے مفاد کی حفاظت کرے گی اور اس پر غیرکے مفاد کو قربان کردے گی۔ انھی وجوہ سے ان میں صلح بھی ہوگی اور جنگ بھی مگر رزم اور بزم دونوں میں قومیّت کی حد ِ فاصل دونوں گروہوں کے درمیان قائم رہے گی۔ اسی چیز کا نام عصبّیت و حمیّت ہے اور قومیت کی یہ وہ لازمی خصوصیت ہے جو اس کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔