قومیت کا قیام وحدت و اشتراک کی کسی ایک جہت سے ہوتا ہے، خواہ وہ کوئی جہت ہو۔ البتہ شرط یہ ہے کہ اس میں ایسی زبردست قوتِ رابطہ و ضابطہ ہونی چاہیے کہ َاجسام کے تعدُّد اور نفوس کے تکثُّرکے باوجود وہ لوگوں کو ایک کلمہ، ایک خیال، ایک مقصد اور ایک عمل پر جمع کردے اور قوم کے مختلف کثیرالتعداد اجزاء کو قومیّت کے تعلق سے اس طرح بستہ و پیوستہ کردے کہ وہ سب ایک ٹھوس چٹان بن جائیں اور افرادِ قوم کے دل و دماغ پر اتنا تسلُّط و غلبہ حاصل کرلے کہ قومی مفاد کے معاملہ میں وہ سب متَّحد ہوں اور ہر قربانی کے لیے آمادہ رہیں۔
یوں تو اِشتِراک اور وحدت کی جہتیں بہت سی ہونی ممکن ہیں لیکن آغازِ عہد ِ تاریخ سے آ ج تک دنیا میں جتنی قومیتیں بنی ہیں ان سب کی تعمیر بجز ایک اسلامی قومیت کے ، حسب ذیل اِشتِراکات میں سے کسی ایک قسم کے اِشتِراک پر ہوئی ہے اور اس عناصر کے ساتھ چند دوسرے اِشتِراکات بھی بطور مددگار کے شریک ہوگئے ہیں۔
اِشتِراکِ نسل، جس کو نسلیت کہتے ہیں۔
اِشتِراکِ مرزبوم، جس کو وطنیت کہتے ہیں۔
اِشتِراکِ زبان، جو وحدت خیال کا ایک زبردست ذریعہ ہونے کی وجہ سے قومیّت کی تعمیر میں خاص حصہ لیتا ہے۔
اِشتِراکِ رنگ، جو ایک رنگ کے لوگوں میں ہم جنسی کا احساس پیدا کرتا ہے اور پھر یہی احساس ترقی کرکے ان کودوسرے رنگ کے لوگوں سے احتراز و اجتناب پر آمادہ کردیتا ہے۔
معاشی اغراض کا اِشتِراک،جو ایک معاشی نظام کے لوگوں کو دوسرے معاشی نظام والوں کے مقابلہ میں ممتاز کرتا ہے، اور جس کی بناپروہ ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنے معاشی حقوق و منافع کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
نظامِ حکومت کا اِشتِراک،جو ایک سلطنت کی رعایا کو مشترک نظم و نسق کے رشتہ میں منسلک کرتا ہے اور دوسری سلطنت کی رعایا کے مقابلہ میں حدودِ فاصلہ قائم کردیتا ہے۔
قدیم ترین عہد سے لے کر آج بیسویں صدی کے روشن زمانے تک جتنی قومیتوں کے عناصرِ اصلیہ کا آپ تجسُّس کریں گے، ان سب میں آپ کو یہی مذکورہ بالا عناصر ملیں گے۔
اب سے دو تین ہزار برس پہلے یونانیت، رومیت، اسرائیلیت، ایرانیت وغیرہ بھی انھی بنیادوں پر قائم تھیں جن پر آج جرمنیت، اطالو ِیت، فرانسیسیت، انگریزیت اور جاپانیت وغیرہ قائم ہیں۔