سب سے پہلی قوم جس کا ذکر قرآن کرتا ہے، حضرت نوحؑ کی قوم ہے۔ قرآن کے بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے۔ حضرت نوحؑ کی دعوت کے جواب میں ان کا یہ قول خود قرآن نے نقل کیا ہے:
مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۰ۙ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَۃً۰ۚۖ (المومنون۲۳: ۲۴)
یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر تم جیسا ایک انسان، یہ دراصل تم پر اپنی فضیلت جمانا چاہتا ہے۔ ورنہ اگر اللہ کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔
انھیں اللہ کے خالق ہونے اور پہلے دوسرے معنی میں اس کے رب ہونے سے بھی انکار نہ تھا۔ چنانچہ حضرت نوحؑ جب ان سے کہتے ہیں کہ
ہُوَرَبُّكُمْ۰ۣ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَo { FR 7432 } (ہود۱۱: ۳۲)
اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفَّارًاo { FR 7433 } (نوح۷۱: ۱۰)اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاo وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْہِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًاo وَاللہُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًاo { FR 7434 } (نوح۷۱: ۱۵۔۱۷)
تو ان میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ اللہ ہمارا رب نہیں ہے، یا زمین وآسمان کو اور ہمیں اس نے پیدا نہیں کیا ہے، یا زمین وآسمان کا یہ سارا انتظام وہ نہیں کر رہا ہے۔پھر انھیں اب اس بات سے بھی انکار نہ تھا کہ اللہ ان کا الٰہ ہے۔ اسی لیے تو حضرت نوحؑ نے اپنی دعوت ان کے سامنے ان الفاظ میں پیش کی کہ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (اس کے سوا تمھارے لیے کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے) ورنہ وہ اگر اللہ کے الٰہ ہونے سے منکر ہوتے تو دعوت کے الفاظ یہ ہوتے اِتَّخِذُوْا اللّٰہَ اِلٰھًا (اللہ کو اپنا اِلٰہ بنا لو)
اب سوال یہ ہے کہ ان کے اور حضرت نوحؑ کے درمیان نزاع کس بات پر تھا؟ آیاتِ قرآن کے تبتع سے معلوم ہوتا ہے کہ بنائے نزاع دو باتیں تھیں۔
ایک یہ کہ حضرت نوحؑ کی تعلیم یہ تھی کہ جو رب العالمین ہے، جسے تم بھی مانتے ہو کہ تمھیں اور تمام کائنات کو اسی نے وجود بخشا ہے اور وہی تمھاری ضروریات کا کفیل ہے، دراصل وہی اکیلا تمھارا الٰہ ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے۔ کوئی اور ہستی نہیں ہے جو تمھاری حاجتیں پوری کرنے والی، مشکلیں آسان کرنے والی، دعائیں سننے اور مدد کو پہنچنے والی ہو۔ لہٰذا تم اسی کے آگے سر نیاز جھکائو۔
يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ ……وَّلٰكِـنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَo اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ (الاعراف۷: ۵۹۔۶۲)
اے برادران قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارے لیے کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے… مگر مَیں ربّ العٰلمین کی طرف سے پیغامبر ہوں۔ تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں۔
برعکس اس کے وہ لوگ اس بات پر مُصر تھے کہ ربّ العٰلمین تو اللہ ہی ہے مگر دوسرے بھی خدائی کے انتظام میں تھوڑا بہت دخل رکھتے ہیں، اور ان سے بھی ہماری حاجتیں وابستہ ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ ہم دوسروں کو الٰہ مانیں گے۔
وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا۰ۥۙ وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًاo (نوح۷۱: ۲۳)
ان کے سرداروں اور پیشوائوں نے کہا کہ لوگو! اپنے الٰہوں کو نہ چھوڑو، ودّ اور سُواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو نہ چھوڑو۔
دوسرے یہ کہ وہ لوگ صرف اس معنی میںاللہ کو رب مانتے تھے کہ وہ ان کا خالق، زمین وآسمان کا مالک اور کائنات کا مدبّرِ اعلیٰ ہے۔ لیکن اس بات کے قائل نہ تھے کہ اخلاق، معاشرت، تمدن، سیاست اور تمام معاملاتِ زندگی میں بھی حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ اسی کا حق ہے، وہی راہ نُما، وہی قانون ساز، وہی صاحبِ امر ونہی بھی ہے اور اسی کی اطاعت بھی ہونی چاہیے۔ ان سب معاملات میں انھوں نے اپنے سرداروں اور مذہبی پیشوائوں کو رب بنا رکھا تھا۔ برعکس اس کے حضرت نوحؑ کا مطالبہ یہ تھا کہ ربوبیت کے ٹکڑے نہ کرو۔ تمام مفہومات کے اعتبار سے صرف اللہ ہی کو رب تسلیم کرو، اور اس کا نمایندہ ہونے کی حیثیت سے جو قوانین اور احکام مَیں تمھیں پہنچاتا ہوں ان کی پیروی کرو۔
اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌo فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِo (الشعرا۲۶: ۱۰۷۔۱۰۸)
مَیں تمھارے لیے خدا کا معتبر رسول ہوں، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔