قومِ ابراہیم ؑ کے بعد ہمارے سامنے وہ قوم آتی ہے جس کی اصلاح پر حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ مامور کیے گئے تھے۔ اس قوم کے متعلق بھی قرآن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ تو اللہ کے وُجود کی منکر تھی نہ اس بات کی منکر تھی کہ اللہ خالق اور رب بمعنی اول ودوم ہے۔ البتہ اسے انکار اس سے تھا کہ اللہ ہی کو تیسرے، چوتھے اور پانچویں معنی میں بھی رب مانے اور اس کے معتمد علیہ نمایندے کی حیثیت سے رسول کے اقتدار کو تسلیم کرے۔ وہ چاہتی تھی کہ اپنی خواہشِ نفس کے مطابق خود جس طرح چاہے کام کرے۔ یہی اس کا اصلی جرم تھا اور اسی بنا پر وہ عذاب میں مبتلا ہوئی۔ قرآن کی حسبِ ذیل تصریحات اس پر شاہد ہیں:
اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَo اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌo فَاتَّــقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِo وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ۰ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَo وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَo (الشعرائ۲۶:۱۶۱۔۱۶۵)
جب ان کے بھائی لوط علیہ السلام نے ان سے کہا کہ تم تقویٰ اختیار کرو، دیکھو میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا اللہ کے غضب سے بچو اورمیری اطاعت کرو۔ اس کام پر میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا معاوضہ تو صرف رب العٰلمین کے ذمہ ہے۔ کیا دنیا کے لوگوں میں سے تم لڑکوں کی طرف جاتے ہو اور تمھارے رب نے تمھارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں انھیں چھوڑ دیتے ہو؟ تم بڑے ہی حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔
ظاہر ہے کہ یہ خطاب ایسے ہی لوگوں سے ہو سکتا تھا جو اللہ کے وجود اور اس کے خالق اور پروردگار ہونے کے منکر نہ ہوں۔ چنانچہ جواب میں وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ اللہ کیا چیز ہے؟ یا وہ پیدا کرنے والا کون ہوتا ہے؟ یا وہ کہاں سے ہمارا رب ہو گیا؟ بلکہ کہتے ہیں کہ:
لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہِ يٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَo (الشعرائ۲۶: ۱۶۷)
اے لوط ؑ! اگر تم اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو ملک سے نکال باہر کیے جائو گے۔
دوسری جگہ اس واقعہ کو یوں فرمایا گیا ہے:
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ۰ۡمَا سَبَقَكُمْ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَo اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ۰ۥۙ وَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ۰ۭ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللہِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَo (العنکبوت۲۹: ۲۸۔۲۹)
اور ہم نے لوط کو بھیجا۔ جب اس نے قوم سے کہا کہ تم لوگ وہ فعلِ شنیع کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہ کیا تھا، کیا تم مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو، راستوں پر ڈاکے مارتے ہو، اور اپنی مجلسوں میں علانیہ ایک دوسرے کے سامنے بدکاریاں کرتے ہو؟ تو اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ لے آئو ہم پر اللہ کا عذاب اگر تم سچے ہو۔
کیا یہ جواب کسی منکرِ خدا قوم کا ہو سکتا تھا؟ پس معلوم ہوا کہ ان کا اصلی جُرم انکار الوہیّت وربوبیّت نہ تھا، بلکہ یہ تھا کہ وہ فوق الفطری معنی میں اللہ کو الٰہ اور رب مانتے تھے۔ لیکن اپنے اخلاق، تمدن اور معاشرت میں اللہ کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرنے سے انکار کرتے تھے اور اس کے رسول کی ہدایت پر چلنے کے لیے تیار نہ تھے۔