قومِ نوحؑ کے بعد قرآن عاد کا ذکر کرتاہے۔ یہ قوم بھی اللہ کی ہستی سے منکر نہ تھی۔ اس کے الٰہ ہونے سے بھی اسے انکار نہ تھا۔ جس معنی میں حضرت نوحؑ کی قوم اللہ کو رب تسلیم کرتی تھی اس معنی میں یہ قوم بھی اللہ کو رب مان رہی تھی البتہ بنائے نزاع وہی دو امور تھے جو اوپر قومِ نوحؑ کے سلسلہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ چنانچہ قرآن کی حسبِ ذیل تصریحات اس پر صاف دلالت کرتی ہیں:
وَاِلٰي عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا۰ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ……قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا۰ۚ
(الاعراف۷: ۵۶۔۷۰)
عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ اس نے کہا، اے برادرانِ قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی الٰہ نہیں…انھوں نے جواب دیا: کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہم بس اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کے وقتوں سے ہوتی آ رہی ہے؟
قَالُوْا لَوْ شَاۗءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَۃً ۔ (حٰم السجدہ۴۱۔۱۴)
انھوں نے کہا اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیج سکتا تھا۔
وَتِلْكَ عَادٌ۰ۣۙ جَحَدُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہٗ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍo (ہود۱۱: ۵۹)
اور یہ عاد ہیں جنھوں نے اپنے رب کے احکام ماننے سے انکار کیا اس کے رسولوں کی اطاعت قبول نہ کی، اور ہر جبّار دشمنِ حق کی پیروی اختیار کر لی۔