اس کے بعد اہلِ مدین اور اصحاب الایکہ کو لیجیے جن میں حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ یہ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد سے تھے۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کے وجود اور اس کے الٰہ اور رب ہونے کے قائل تھے یا نہ تھے۔ ان کی حیثیت دراصل ایک ایسی قوم کی تھی جس کی ابتدا اسلام سے ہوئی اور بعد میں وہ عقائد واعمال کی خرابیوں میں مبتلا ہو کر بگڑتی چلی گئی۔ بلکہ قرآن سے تو کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مومن ہونے کے بھی مدعی تھے۔ چنانچہ بار بار حضرت شعیب ؑ ان سے فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم مومن ہو‘‘ تو تمھیں یہ کرنا چاہیے۔ حضرت شعیبؑ کی ساری تقریروں اور ان کے جوابات کو دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی قوم تھی جو اللہ کو مانتی تھی۔ اسے معبود اور پروردگار بھی تسلیم کرتی تھی، مگر دو طرح کی گم راہیوں میں مبتلا ہو گئی تھی۔ ایک یہ کہ وہ فوق الفطری معنی میں اللہ کے سوا دوسروں کو بھی الٰہ اور رب سمجھنے لگی تھی، اس لیے اس کی عبادت صرف اللہ کے لیے مختص نہ رہی تھی۔ دوسرے یہ کہ اس کے نزدیک اللہ کی ربوبیت کو انسان کے اخلاق، معاشرت، معیشت اور تمدن وسیاست سے کوئی سروکار نہ تھا، اس بنا پر وہ کہتی تھی کہ اپنی تمدنی زندگی میں ہم مختار ہیں، اپنے معاملات کو جس طرح چاہیں چلائیں۔
قرآن کی حسبِ ذیل آیات ہمارے اس بیان کی تصدیق کرتی ہیں:
وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاہُمْ شُعَيْبًا۰ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَہُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo…… وَاِنْ كَانَ طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِيْٓ اُرْسِلْتُ بِہٖ وَطَاۗىِٕفَۃٌ لَّمْ يُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰي يَحْكُمَ اللہُ بَيْنَنَا۰ۚ وَہُوَخَيْرُ الْحٰكِمِيْنَo
(الاعراف۷: ۸۵۔۸۷)
اورمدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو کہ اس کے سوا تمھارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس روشن ہدایت آ چکی ہے۔ پس تم ناپ تول ٹھیک کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو، اور زمین میں فساد نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح کی جا چکی تھی۔ اسی میں تمھاری بھلائی ہے اگر تم مومن ہو… اگر تم میں سے ایک گروہ اس ہدایت پر ’’جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں‘‘ ایمان لاتا ہے اور دُوسرا ایمان نہیں لاتا تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
وَيٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَo بَقِيَّتُ اللہِ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰ۥۚ وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍo قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤُا۰ۭ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُo
(ہود۱۱: ۸۵۔۸۷)
اے برادرانِ قوم! پیمانے اور ترازو انصاف کے ساتھ پورے پورے ناپو اور تولو، لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد نہ برپا کرتے پھرو، اللہ کی عنایت سے کاروبار میں جو بچت ہو وہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم مومن ہو۔ اور میں تمھارے اوپر کوئی نگاہ بان نہیں ہوں۔ انھوں نے جواب دیا: اے شعیب! کیا تمھاری نماز تمھیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے، یا یہ کہ ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرّف کرنا ترک کر دیں؟ تم ہی تو ایک بردبار اور راست باز رہ گئے ہو!
آخری خط کشیدہ الفاظ خصوصیت کے ساتھ اس بات کو واضح کر دیتے ہیں کہ ربوبیت والُوہیّت کے بارے میں ان کی اصل گم راہی کیا تھی۔