اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ کی قوم کا نمبر آتا ہے۔ اس قوم کا معاملہ خاص طور پر اس لیے اہم ہے کہ اس کے بادشاہ نمرود کے متعلق یہ عام غلط فہمی ہے کہ وہ اللہ کا منکر اور خود خدا ہونے کا مُدعی تھا۔ حالانکہ وہ اللہ کی ہستی کا قائل تھا، اس کے خالق ومدبّرِ کائنات ہونے کا معتقد تھا، اور صرف تیسرے، چوتھے اور پانچویں معنی کے اعتبار سے اپنی ربوبیت کا دعویٰ کرتا تھا۔ نیز یہ بھی عام غلط فہمی ہے کہ یہ قوم اللہ سے بالکل ناواقف تھی اور اس کے الٰہ اور رب ہونے کی سرے سے قائل ہی نہ تھی۔ حالانکہ فی الحقیقت اس قوم کا معاملہ قومِ نوح اور عاد و ثمود سے کچھ بھی مختلف نہ تھا۔ وہ اللہ کے وجود کو بھی مانتی تھی، اس کا رب ہونا اور خالقِ ارض وسما اورمدبّرِ کائنات ہونا بھی اسے معلوم تھا، اس کی عبادت سے بھی وہ منکر نہ تھی۔ البتہ اس کی گم راہی یہ تھی کہ ربوبیت بمعنی اول ودوم میں اجرامِ فلکی کو حصہ دار سمجھتی تھی۔ اور اس بِناپر اللہ کے ساتھ انھیں بھی معبود قرار دیتی تھی۔ اور ربوبیت بمعنی سوم وچہارم وپنجم کے اعتبار سے اس نے اپنے بادشاہوں کو رب بنا رکھا تھا۔ قرآن کی تصریحات اس بارے میں اتنی واضح ہیں کہ تعجب ہوتا ہے کہ کس طرح لوگ اصل معاملہ کو سمجھنے سے قاصر رہ گئے… سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ کے آغازِ ہوش کا وہ واقعہ لیجیے جس میں نبوت سے پہلے ان کی تلاشِ حق کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْہِ الَّيْلُ رَاٰ كَوْكَبًا۰ۚ قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ۰ۚ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَo فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ۰ۚ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَىِٕنْ لَّمْ يَہْدِنِيْ رَبِّيْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّاۗلِّيْنَo فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّيْ ہٰذَآ اَكْبَرُ۰ۚ فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَo اِنِّىْ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَo
(الانعام۶: ۷۶۔۷۹)
جب اس پر رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا، کہنے لگا: یہ میرا رب ہے۔ مگر جب وہ تارا ڈوب گیا تو اس نے کہا: ڈوبنے والوں کو تو مَیں پسند نہیں کرتا، پھر جب چاند چمکتا ہوا دیکھا توکہا: یہ میرا رب ہے مگر وہ بھی غروب ہو گیا تو کہا: اگر میرے رب نے میری راہ نُمائی نہ فرمائی تو یہ خطرہ ہے کہ کہیں مَیں بھی گم راہ لوگوں میں شامل نہ ہو جائوں۔ پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی چھپ گیا تو وہ پکار اٹھا کہ اے برادرانِ قوم! جو شرک تم کرتے ہو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میں نے تو سب طرف سے منہ موڑ کر اپنا رُخ اس کی طرف پھیر دیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
خط کشیدہ فقروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس سوسائٹی میں حضرت ابراہیمؑ نے آنکھ کھولی تھی اس میں آسمانوں اورزمین کے پیدا کرنے والے کا تصور،اور اس ذات کے رب ہونے کا تصور، ان سیاروں کی ربوبیّت کے تصور سے الگ موجود تھا۔ اور آخر کیوں نہ موجود ہوتا جب کہ یہ لوگ ان مسلمانوں کی نسل سے تھے جو حضرت نوحؑ پر ایمان لائے تھے، اور ان کی قریبی رشتہ دار ہم سایہ اقوام (عاد وثمود) میں پے درپے انبیاعلیہم السلام کے ذریعہ سے دینِ اسلام کی تجدید بھی ہوتی چلی آ رہی تھی (جَاۗءَتْہُمُ الرُّسُلُ مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ (فصلت۴۱: ۱۴) پس حضرت ابراہیمؑ کو اللہ کے فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۱۱) اور رَبّ ہونے کا تصور تو اپنے ماحول سے مل چکا تھا، البتہ جو سوالات ان کے دل میں کھٹکتے تھے وہ یہ تھے کہ نظامِ ربوبیت میں اللہ کے ساتھ چاند، سورج، اور سیّاروں کے شریک ہونے کا جو تخیّل ان کی قوم میں پایا جاتا ہے، اور جس کی بنا پر یہ لوگ عبادت میں بھی اللہ کے ساتھ انھیں شریک ٹھہرا رہے ہیں، یہ کہاں تک مبنی برحقیقت{ FR 7435 } ہے۔ چنانچہ نبوت سے پہلے اسی کی جستجو انھوں نے کی اور طلوع وغروب کا انتظام ان کے لیے اس امرِ واقعی تک پہنچنے میں دلیلِ راہ بن گیا کہ فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۱۱) کے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ اسی بنا پر چاند کو غروب ہوتے دیکھ کر وہ فرماتے ہیں کہ اگر میرے رب، یعنی اللہ نے میری راہ نُمائی نہ فرمائی تو خوف ہے کہ کہیں میں بھی حقیقت تک رسائی پانے سے نہ رہ جائوں، اور ان مظاہر سے دھوکا نہ کھا جائوں جن سے میرے گرد وپیش لاکھوں انسان دھوکا کھا رہے ہیں۔
پھر جب حضرت ابراہیم ؑ نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے اور انھوں نے دعوتِ الی اللہ کا کام شروع کیا تو جن الفاظ میں وہ اپنی دعوت پیش فرماتے تھے ان پر غور کرنے سے وہ بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے، فرماتے ہیں:
وَكَيْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا۰ۭ (الانعام۶: ۸۱)
اور آخر میں ان سے کس طرح ڈر سکتا ہوں جنھیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو، جب کہ تم اللہ کے ساتھ انھیں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے الٰہیّت اور ربوبیّت میں شریک ہونے پر اللہ نے تمھارے پاس کوئی سند نہیں بھیجی ہے۔
وَاَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ (مریم۱۹: ۴۸)
تم اللہ کے سوا اور جن جن سے دعائیں مانگتے ہو ان سے میں دست کش ہوتا ہوں۔
قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الَّذِيْ فَطَرَہُنَّ۰ۡۖ …… قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَـيْــــًٔا وَّلَا يَضُرُّكُمْo
(الانبیائ۲۱: ۵۶۔۶۶)
کہا، تمھارا رب تو صرف آسمانوں اور زمین کا رب ہی ہے جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے… کہا پھر کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمھیں نفع ونقصان پہنچانے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے؟
اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ وَقَوْمِہٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَo اَىِٕفْكًا اٰلِــہَۃً دُوْنَ اللہِ تُرِيْدُوْنَo فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَo (الصافات۳۷: ۸۵تا ۸۷)
جب ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا، یہ تم کن کی عبادت کر رہے ہو؟ کیا اللہ کے سوا اپنے خود ساختہ الٰہوں کی بندگی کا ارادہ ہے؟ پھر رب العٰلمین کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے؟
اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ۶۰: ۴)
(ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھی مسلمانوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے صاف کہہ دیا) کہ ہمارا تم سے اور اللہ کے سوا جن جن کی عبادت تم کرتے ہو ان سب سے کوئی تعلق نہیں، ہم تمھارے طریقے کو ماننے سے انکار کر چکے ہیں اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے بغض وعداوت کی بِنا پڑ گئی ہے جب تک کہ تم اکیلے اللہ پر ایمان نہ لائو۔
حضرت ابراہیم ؑ کے ان تمام ارشادات کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مخاطب وہ لوگ نہ تھے جو اللہ سے بالکل ناواقف اور اس کے رب العٰلمین اور معبود ہونے سے منکر یا خالی الذہن ہوتے۔ بلکہ وہ لوگ تھے جو اللہ کے ساتھ ربوبیت (بمعنی اول ودوم) اور الٰہیت میں دوسروں کو شریک قرار دیتے تھے۔ اسی لیے تمام قرآن میں کسی ایک جگہ بھی حضرت ابراہیمؑ کا کوئی ایسا قول موجود نہیں ہے جس میں انھوں نے اپنی قوم کو اللہ کی ہستی اور اس کے الٰہ اور رب ہونے کا قائل کرنے کی کوشش کی ہو گی، بلکہ ہر جگہ وہ دعوت اس چیز کی دیتے ہیںکہ اللہ ہی رب اور الٰہ ہے۔
اب نمرود کے معاملہ کو لیجیے۔ اُس سے حضرت ابراہیم ؑ کی جو گفتگو ہوئی اسے قرآن اس طرح نقل کرتا ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ۰ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّيَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۰ۙ قَالَ اَنَا اُحْيٖ وَاُمِيْتُ۰ۭ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللہَ يَاْتِيْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِيْ كَفَرَ۰ۭ
(البقرہ۲: ۲۵۸)
تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے ابراہیم ؑ سے اس کے رب کے بارے میں بحث کی، اس بنا پر کہ اللہ نے اسے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے، تو اس نے کہا: زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے۔ ابراہیم ؑ نے کہا: اچھا تو حقیقت یہ ہے کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اب تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا۔ یہ سن کر وہ کافر مبہوت ہو کر رہ گیا۔
اس گفتگو سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ جھگڑا اللہ کے ہونے یا نہ ہونے پر نہ تھا بلکہ اس بات پر تھا کہ ابراہیم علیہ السلام ’’رب‘‘ کِسے تسلیم کرتے ہیں۔ نمرود اوّل تو اُس قوم سے تعلق رکھتا تھا جو اللہ کی ہستی کو مانتی تھی۔ دوسرے جب تک کہ وہ بالکل ہی پاگل نہ ہو جاتا وہ ایسی صریح احمقانہ بات کبھی نہ کہہ سکتا تھا کہ زمین وآسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو گردش دینے والا وہ خود ہے۔ پس دراصل اس کا دعوٰی یہ نہ تھا کہ میں اللہ ہوں، یا رب السٰمٰوت والارض ہوں، بلکہ اس کا دعویٰ صرف یہ تھا کہ میں اس مملکت کا ’’رب‘‘ ہوں جس کی رعیت کا ایک فرد ابراہیم ؑ ہے۔ اور یہ رب ہونے کا دعوٰی بھی اسے ربوبیت کے پہلے اور دوسرے مفہوم کے اعتبار سے نہ تھا، کیوں کہ اس اعتبار سے تو وہ خود چاند اور سورج اور سیاروں کی ربوبیت کا قائل تھا، البتہ وہ تیسرے، چوتھے اور پانچویں مفہوم کے اعتبار سے اپنی مملکت کا رب بنتا تھا۔ یعنی اس کا دعویٰ یہ تھا کہ میں اس ملک کا مالک ہوں، اس کے سارے باشندے میرے بندے، میرا مرکزی اقتدار ان کے اجتماع کی بنیاد ہے، اور میرا فرمان اُن کے لیے قانون ہے۔اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْكَ۰ۘ (البقرہ۲: ۲۵۸) کے الفاظ صریحاً اس بات کی طرف اشارہ کر رہے کہ اس دعوائے ربوبیت کی بنیاد بادشاہی کے زعم پر تھی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی رعیت میں سے ابراہیم ؑ نامی ایک نوجوان اٹھا ہے جو نہ چاند اور سورج اور سیاروں کی فوق الفطری ربوبیت کا قائل ہے اور نہ بادشاہ وقت کی سیاسی وتمدنی ربوبیت تسلیم کرتا ہے، تو اسے تعجب ہوا اور اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو بلا کر دریافت کیا کہ آخر تم کسے رب مانتے ہو؟ حضرت ابراہیمؑ نے پہلے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جس کے قبضۂ قدرت میں زندگی اور موت کے اختیارات ہیں۔ مگر اس جواب سے وہ بات کی تہہ کو نہ پہنچ سکا اور یہ کہہ کر اس نے اپنی ربوبیت ثابت کرنی چاہی کہ زندگی اور موت کے اختیارات تو مجھے حاصل ہیں جسے چاہوں قتل کرا دوں اور جس کی چاہوں جان بخشی کر دوں۔ تب حضرت ابراہیمؑ نے اسے بتایا کہ میں صرف اللہ کو رب مانتا ہوں، ربوبیت کے جملہ مفہومات کے اعتبار سے میرے نزدیک تنہا اللہ ہی رب ہے، اس نظامِ کائنات میں کسی دوسرے کی ربوبیت کے لیے گنجائش ہی کہاں ہو سکتی ہے جب کہ سورج کے طلوع وغروب پر وہ ذرّہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ نمرود آدمی ذی ہوش تھا۔ اس دلیل کو سن کر اس پر یہ حقیقت کھل گئی کہ فی الحقیقت اللہ کی سلطنت میں اس کا دعوائے ربوبیت بجز ایک زعمِ باطل کے اور کچھ نہیں ہے، اسی لیے وہ دم بخود ہو کر رہ گیا، مگر نفس پرستی اور شخصی وخاندانی اغراض کی بندگی ایسی دامن گیر ہوئی کہ حق کے ظہور کے باوجود وہ خود مختارانہ حکم رانی کے منصب سے اتر کر اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت پر آمادہ نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس گفتگو کو نقل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَo (آل عمران۳: ۸۶)(مگر اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا) یعنی اس ظہورِ حق کے بعد جو رویہ اسے اختیار کرنا چاہیے تھا اسے اختیار کرنے کے لیے جب وہ تیار نہ ہوا اور اس نے غاصبانہ فرماں روائی کرکے دنیا پر اور خود اپنے نفس پر ظلم کرنا ہی پسند کیا تو اللہ نے بھی اسے ہدایت کی روشنی عطا نہ کی، کیوںکہ اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو خود ہدایت کا طالب نہ ہو اس پر زبردستی اپنی ہدایت مسلّط کر دے۔