حاضرین و حاضرات! یہ دُنیا جس خدا نے بنائی اور جس نے اِس زمین کا فرش بچھا کر اِس پر انسانوں کو بسایا ہے، وہ کوئی اندھا دُھند اور الل ٹپ کام کرنے والا خدا نہیں، وہ چوپٹ راجا نہیں ہے کہ اس کی نگری اندھیرنگری ہو، وہ اپنے مستقل قانون، پختہ ضابطے اور مضبوط قاعدے رکھتا ہے، جن کے مطابق وہ سارے جہاں پر خدائی کررہا ہے۔ اس کے قانون سے جس طرح سورج، چاند، زمین اور تارے بندھے ہوئے ہیں، جس طرح ہوا، پانی، درخت اور جانور بندھے ہوئے ہیں، اسی طرح ہم آپ سب انسان بھی بندھے ہوئے ہیں۔ اس کا قانون جس طرح ہماری پیدائش اور موت پر ہمارے بچپن اور جوانی اور بڑھاپے پر، ہمارے سانس کی آمد و رفت پر، ہمارے ہاضمے اور خون کی گردش پر، ہماری بیماری اور تن درستی پر بے لاگ اور اٹل طریقے سے چل رہا ہے، ٹھیک اسی طرح اس کا ایک اور قانون بھی ہے جو ہماری تاریخ کے اُتارچڑھائو پر، ہمارے گرنے اور اٹھنے پر، ہماری ترقی اور تنزل پر اور ہماری ذاتی، قومی اور ملکی تقدیروں پر حکومت کر رہا ہے اور یہ قانون بھی اتنا ہی بے لاگ اور اٹل ہے۔
اگر یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی ناک سے سانس لینے کے بجائے، آنکھوں سے سانس لینے لگے اور معدے میں کھانا ہضم کرنے کے بجائے، دل میں ہضم کرنے لگے، تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کے قانون کی رُو سے، جس راہ پر چل کر کسی قوم کو نیچے جانا چاہیے، وہ اُسے بلندی پر لے جائے۔ اگر آگ ایک کے لیے گرم اور دوسرے کے لیے ٹھنڈی نہیں ہے تو بُرے کرتوت بھی، جو خدا کے قانون کی رُو سے بُرے ہیں، ایک کو گرانے والے اور دُوسرے کو اٹھانے والے نہیں ہو سکتے۔ جو اصول بھی خدا نے انسان کی بھلی اور بُری تقدیر بنانے کے لیے مقرر کیے ہیں وہ نہ کسی کے بدلے بدل سکتے ہیں، نہ کسی کے ٹالے ٹل سکتے ہیں، اور نہ اُن میں کسی کے ساتھ دشمنی اور کسی کے ساتھ رعایت ہی پائی جاتی ہے۔خدا کے اس قانون کی پہلی اور سب سے اہم دفعہ یہ ہے کہ:
وہ بنائو کو پسند کرتا ہے اور بگاڑ کو پسند نہیں کرتا۔