رہے وہ لوگ جو آخر وقت تک مقابلہ کریں اور بزورِ شمشیر مغلوب ہوں، تو ان کے بارے میں تین مختلف طرزِ عمل ہم کو عہد نبوت و خلافتِ راشدہ میں ملتے ہیں:
ایک وہ طرزِ عمل جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اختیار فرمایا، یعنی فتح کے بعد لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کا اعلانِ عام اور مفتوحین کو جان و مال کی پوری معافی۔ اس صورت میں، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے، اہلِ مکہ اپنی زمینوں اور جائیدادوں کے بدستور مالک رہے، اور اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی زمینیں عشری زمینیں قرار دے دی گئیں۔
دوسرا وہ طرزِ عمل جو آپؐ نے خیبر میں اختیار فرمایا، یعنی مفتوح علاقے کو مالِ غنیمت قرار دینا۔ اس صورت میں سابق مالکوں کی ملکیت ساقط کر دی گئی۔ ایک حصہ خدا اور رسولؐ کے حق میں لے لیا گیا، اور باقی زمین کو ان لوگوں پر تقسیم کر دیا گیا جو فتح خیبر کے موقع پر لشکر اسلام میں شامل تھے۔ یہ تقسیم شدہ زمینیں جن جن لوگوں کے حصے میں آئیں وہ ان کے مالک قرار پائے اور ان پر عشر لگا دیا گیا۔ (کتاب الاموال لابی عبید، ص 513)
تیسرا وہ طرزِ عمل جو حضرت عمرؓ نے ابتدائً شام اور عراق میں اختیار فرمایا اور بعد میں تمام مفتوح ممالک کا بندوبست اسی کے مطابق ہوا۔ وہ یہ تھا کہ آپ نے مفتوح علاقے کو فاتح فوج میں تقسیم کرنے کے بجائے اس کو تمام مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت قرار دیا، اس کا انتظام مسلمانوں کی طرف سے نیابتہً اپنے ہاتھ میں لے لیا، اصل باشندوں کو حسبِ سابق ان کی زمینوں پر بحال رہنے دیا، ان کو ذمّی قرار دے کر ان پر جزیہ و خراج عائد کر دیا، اور اس جزیہ و خراج کا مصرف یہ قرار دیا کہ وہ عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر صَرف ہو، کیوں کہ بنیادی نظریے کے اعتبار سے وہی ان مفتوح علاقوں کے اصل مالک تھے۔
اس آخری صورت میں بظاہر ’’اجتماعی ملکیت ‘‘ کے تصور کا ایک دھندلا سا شائبہ پایا جاتا ہے، مگر جس طرح یہ پورا معاملہ طے ہوا تھا اس کی تفصیلات پر نظر ڈالنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس اجتماعی ملکیت کو اشتراکیت کے تصور سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ جب مصر و شام اور عراق کے وسیع علاقے فتح ہوئے تو حضرت زبیرؓ اور حضرت بلالؓ اور ان کے ہم خیال لوگوں نے حضرت عمرؓ سے مطالبہ کیا کہ ان علاقوں کی تمام زمینیں اور جائیدادیں خیبر کی طرح فاتح فوج میں تقسیم کر دی جائیں لیکن حضرت عمرؓ نے اس سے انکار کیا اور حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت معاذؓ بن جبل جیسے اکابر صحابہ نے اس معاملے میں ان کی تائید کی۔ اس کے وجوہ کیا تھے؟ اس پر وہ تقریریں روشنی ڈالتی ہیں جو اس موقع پر ہوئیں۔ حضرت معاذؓ نے کہا:
’’اگر آپ اسے تقسیم کریں گے تو خدا کی قسم اس کا نتیجہ وہ ہوگا جو آپ ہر گز پسند نہ کریں گے۔ بڑی بڑی زرخیز زمینوں کے ٹکڑے فوج میں تقسیم ہو جائیں گی۔ پھر یہ لوگ مرکھپ جائیں گے اور کسی کی وارث کوئی عورت ہوگی اور کسی کا وارث کوئی بچہ ہوگا۔ پھر جو دوسرے لوگ اسلام کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اٹھیں گے انہیں دینے کے لیے حکومت کے پاس کچھ نہ ہوگا۔ لہٰذا آپ وہ کام کیجئے جس میں آج کے لوگوں کے لیے بھی گنجائش ہو اور بعد والوں کے لیے بھی۔‘‘
حضرت علیؓ نے فرمایا:
’’ملک کی کاشت کار آبادی کو اس کے حال پر رہنے دیجئے تا کہ وہ سب مسلمانوں کے لیے معاشی قوت کا ذریعہ ہوں۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اس زمین کو تم لوگوں پر تقسیم کر دوں اور بعد کے آنے والوں کو اس حال میں چھوڑ دوں کہ ان کا اس میں کچھ حصہ نہ ہو … آخر بعد کی نسلوں کے لیے کیا رہے گا؟… کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ آئندہ آنے والوں کے لیے کچھ نہ رہے؟… اور مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ اگر میں اسے تمہارے درمیان تقسیم کر دوں تو تم پانی پر آپس میں فساد کرنے لگو گے۔‘‘
اس بنیاد پر جو فیصلہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ زمین اس کے سابق باشندوں ہی کے پاس رہنے دی جائے ، اور ان کو ذمّی بنا کر ان پر جزیہ و خراج لگا دیا جائے، اور یہ خراج مسلمانوں کی عام فلاح پر صرف ہو۔ اس فیصلے کی اطلاع حضرت عمرؓ نے اپنے عراق کے گورنر، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کو جن الفاظ میں دی تھی وہ یہ ہیں:
فَانْظُرْ مَااَجْلَبُوْا بِہٖ عَلَیْکَ فِی الْعَسْکَرِ مِنْ کُرَاعٍ اَوْمَالِ فَاقْسَمْہُ بَیْنَ مَنْ حَضَرَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاتْرُکِ الْاَرْضِیْنَ وَالْاَنْھَارَ لِعُمَّالِھَا لِیَکُوْنَ ذَالِکَ فِیْ اَعُطِیَّاتِ الْمُسْلِمِیْنَ، فَاِنَّا اِنْ قَسَمْنَا ھَا بَیْنَ مَنْ حَضَرَ لَمْ یَکُن لِّمَنْ بَعَدَھُمْ شَیءٌ ( اس پوری بحث کے لیے ملاحظہ ہو کتاب الخراج، ص 20,21 ، اور کتاب الاموال، ص 57,63۔ )
جو کچھ اموالِ منقولہ سپاہیوں نے دورانِ جنگ میں بطورِ غنیمت حاصل کیے ہیں اور لشکر میں جمع کرا دیئے ہیں انہیں تو انہی لوگوں میں تقسیم کر دو جو جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ مگر نہروں اور زمینوں کو انہی لوگوں کے ہاتھ میں رہنے دو جو ان پر کام کرتے تھے تا کہ وہ مسلمانوں کی تنخواہوں کے لیے محفوظ رہیں۔ ورنہ اگر ہم ان کو بھی موجودہ لوگوں میں تقسیم کر دیں تو پھر بعد والوں کے لیے کچھ نہ رہے گا۔
اس نئے بندوبست کا اساسی نظریہ تو یہی تھا کہ اب ان مفتوحہ اراضی کے مالک مسلمان ہیں، اور سابق مالکوں کی اصل حیثیت صرف کاشتکارانہ ہے، اور حکومت مسلمانوں کے ایجنٹ کی حیثیت سے ان کے ساتھ معاملہ کر رہی ہے(اس نظریے کی توضیح اس واقعے سے ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ عتبہ بن فرقد حضرت عمرؓ سے ملنے آئے اور ان کو اطلاع دی کہ میں نے فرات کے کنارے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کس سے؟ انہوں نے عرض کیا اس کے مالکوں سے، آپ نے مہاجرین و انصار کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس کے مالک تو یہاں بیٹھے ہیں۔ (کتاب الاموال، ص 74) اور حضرت علیؓ کا وہ ارشاد بھی اس نظریے پر روشنی ڈالتا ہے کہ جب عراق کے پرانے زمین دارں میں سے ایک نے آکر آپ کے سامنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا تو آپ نے فرمایا کہ اب جزیہ تو تجھ سے ساقط ہوگیا لیکن تیری زمین خراجی ہی رہے گی، کیوں کہ وہ ہماری ہے۔ (کتاب الاموال، ص 80)، لیکن عملاً ذمی بنا لینے کے بعد ان کو جو حقوق دیئے گئے وہ مالکانہ حقوق سے کچھ بھی مختلف نہ تھے۔ وہ انہی رقبوں پر قابض رہے جن پر پہلے قابض تھے۔ ان پر خراج کے سوا کوئی دوسری چیز حکومت یا مسلمانوں کی طرف سے عائد نہ کی گئی۔ اور ان کو اپنی زمینوں پر بیع اور رہن اور وراثت کے وہ تمام حقوق بدستور حاصل رہے جو پہلے حاصل تھے۔ اس معاملے کو امام ابو یوسفؒ ایک قانونی ضابطے کی شکل میں یوں بیان فرماتے ہیں:
جس سرزمین کو امام بزورِ شمشیر فتح کرے اس کے معاملہ میں وہ اختیار رکھتا ہے کہ اگر چاہے تو فاتح فوج میں اسے تقسیم کر دے۔ اس صورت میں وہ عشری زمین ہو جائے گی۔ لیکن اگر وہ تقسیم کرنا مناسب نہ سمجھے اور بہتر یہی خیال کرے کہ اسے اس کے پرانے باشندوں کے ہاتھوں میں رہنے دے، جیسا کہ حضرت عمرؓ نے عراق میں کیا، تو وہ ایسا کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہے۔ اس صورت میں وہ زمین خراجی زمین ہوگی اور خراج لگ جانے کے بعد پھر امام کو یہ حق باقی نہ رہے گا کہ اس کے باشندوں سے اس کو چھین لے۔ وہ ان کی ملک ہوگی ، وہ اس کو وراثت میں ایک دوسرے کی طرف منتقل کریں گے، اس کی خرید و فروخت کرسکیں گے، ان پر خراج لگادیا جائے گا، اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالاجائے گا۔
(کتاب الخراج، ص 35,36)