مذکورہ بالا تین قسمیں تو ان اراضی کی تھیں جو پہلے سے مختلف قسم کے لوگوں کی ملکیت میں تھیں اور اسلامی نظام قائم ہونے کے بعد یا تو ان کی پچھلی ملکیتوں ہی کی توثیق کر دی گئی، یا بعض حالات میں اگر رد و بدل کیا بھی گیا تو صرف ہاتھوں میں کیا گیا نہ کہ بجائے خود نظامِ ملکیت میں۔ اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جن زمینوں کا کوئی مالک نہ تھا، یا نہ رہا تھا، ان کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاءؓ نے کیا طرزِ عمل اختیار فرمایا۔
اس نوعیت کی اراضی دو بڑی اصناف پر مشتمل تھیں:
ایک ’’موات‘‘ یعنی افتادہ زمینیں، خواہ وہ عادیُّ الارض ہوں (جن کے مالک مرکھپ گئے ہوں) یا جن کا کبھی کوئی مالک رہا ہی نہ ہو، یا جو جھاڑیوں اور دلدلوں اور سیلابوں کے نیچے آگئی ہوں۔
دوسری ’’خالصہ‘‘ زمینیں، یعنی جن کو سرکاری املاک قرار دیا گیا تھا۔ ان میں کئی طرح کی اراضی شامل تھیں۔ ایک وہ جن کے مالکوں نے خود ان سے دست بردار ہو کر حکومت کو اختیار دے دیا تھا کہ انہیں جس طرح چاہیں استعمال کرے۔( ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو انصار نے وہ تمام زمینیں جن تک ان کی آبپاشی کا پانی نہ پہنچتا تھا، آپؐ کے حوالے کر دیں تا کہ آپؐ ان سے جو چاہیں کام لیں۔ (کتا ب الاموال، ص ۲۸۲)دوسری وہ جن کے مالکوں کو اسلامی حکومت نے بے دخل کر کے خالصہ کرلیا تھا۔ مثلاً مضافاتِ مدینہ میں بنی نضیر کی زمینیں۔ تیسری وہ جو مفتوحہ علاقوں میں خالصہ قرار دی گئی تھیں۔ مثلاً وہ اراضی جو عراق میں کسریٰ اور اس کے اہلِ خاندان کے قبضے میں تھیں، یا جن کے مالک جنگ میں مارے گئے تھے یا بھاگ گئے تھے، اور حضرت عمرؓ نے ان کو خالصہ قرار دے دیا تھا۔(اس طرح کی اراضی کی دس اقسام امام ابو یوسف اور ابو عبید رحمہما اللہ نے اپنی کتابوں میں گنائی ہیں۔)
ان دونوں اقسام کا حکم ہم الگ الگ بیان کریں گے۔