دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جنھوں نے اسلام تو قبول نہ کیا مگر مصالحانہ طریقے سے اسلامی حکومت کے تابع بن کر رہنا قبول کرلیا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں جو اصول نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقرر فرمایا وہ یہ تھا کہ جن شرائط پر بھی ان سے مصالحت ہوئی ہو انہیں بے کم و کاست پورا کیا جائے۔ چنانچہ حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے:
لَعَلَّکُمْ تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا یَیَظْھَرُوْنَ عَلَیْکُمْ فَیَتَّقُوْنَ بِاَمْوِالِھِمْ دُوْنَ اَنْفُسِھِمْ وَ اَبْنَآءِھِمْ فَتُصْالِحُوْنَھُمْ عَلٰی صُلْحٍ فَلَاتُصِیْبُوْا مِنْھُمْ فَوْقَ ذَالِکَ فَاِنَّہٗ لَا یَصْلُحُ ۔(ابو دائود۔ ابن ماجہ)
اگر کبھی ایسا ہو کہ کسی قوم سے تمہاری جنگ ہو، پھر وہ تمہارے سامنے آکر اپنی اور اپنے بال بچوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنے مال دینے پر تیار ہو جائیں، اور تم ان سے صلح کرلو، تو ایسی صورت میں جس چیز پر ان سے تمہاری صلح ہو اس سے زائد کچھ نہ لینا کیونکہ وہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔
اَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاھِدًا اَوِ انْتَقَصَہٗ اَوْ کَلَّفَہٗ فَوْقَ طَاقَتِہٖ اَوْ اَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا بِغَیْرِ طِیْبِ نَفْسٍ فَاَنَاحَجِیْجُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (ابودائود)
خبردار رہو، جو شخص کسی معاہد ذمی پر ظلم کرے گا، یا ازروئے معاہدہ اس کے جو حقوق ہوں ان کے اندر کوئی کمی کرے گا، یا اس پر اس کی برداشت سے زیادہ بار ڈالے گا، یا اس سے اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز لے گا، اس کے خلاف میں خود قیامت کے روز مدعی بنوں گا۔
اسی اصول کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران، ایلہ، اذرعات، ہجر اور دوسرے جن جن علاقوں اور قبیلوں کے ساتھ صلح کی ان سب کو ان کی زمینوں اور جائیدادوں اور صنعتوں اور تجارتوں پر بدستور بحال رہنے دیا اور صرف وہ جزیہ و خراج ان سے وصول کرنے پر اکتفا فرمایا جس پر ان سے معاہدہ ہوا تھا۔ پھر اسی اصول پر خلفائے راشدین نے بھی عمل کیا۔ عراق، شام، الجزیرہ، مصر، ارمینیہ، غرض جہاں جہاں بھی کسی شہر اور کسی بستی کے لوگوں نے صلح کے طریقے پر اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے حوالے کیا ان کی املاک بدستور ان کے قبضے میں رہنے دی گئیں اور ان سے مالِ صلح کے سوا کوئی چیز کبھی وصول نہ کی گئی۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بعض اہم مصلحتوں کی بنا پر نجران کے باشندوں کو اندرونِ عرب سے شام و عراق کی طرف منتقل کیا بھی گیا تو ان میں سے جس جس کے پاس نجران میں جتنی زرعی اور سکنی جائیداد تھی اس کے بدلے میں نہ صرف اتنی ہی جائیداد اس کو دوسری جگہ دی گئی بلکہ حضرت عمرؓ نے اپنے شام و عراق کے گورنروں کے نام فرمانِ عام لکھا کہ جس کے علاقے میں بھی وہ جا کر آباد ہوں وہ فَلْیُوَسِّعْھُمْ مِنْ خَرِیْبِ الْاَرْضِ ’’فراخ دلی کے ساتھ اُفتادہ زمینوں میں سے ان کو دے۔ ‘‘ (کتاب الاموال لابی عبید، ص 189)
اس قاعدئہ کلیہ میں بھی کسی استثناء کی مثال عہدِ نبوت اور عہدِ خلافت راشدہ کے نظائر سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ یہ بھی فقہاء اسلام کا متفق علیہ قانون ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔ امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ اس کو اپنی ‘‘کتاب الخراج‘‘ میں ایک قانونی دفعہ کے طور پر اس طرح ثبت فرماتے ہیں:
’’غیر مسلموں میں سے جس قوم کے ساتھ اس بات پر امام کی صلح ہو جائے کہ وہ مطیع حکم ہو جائیں اور خراج ادا کریں تو وہ اہل ذمہ ہیں، ان کی اراضی اراضیِ خراج ہیں، ان سے بس وہی کچھ لیا جائے گا جس پر ان سے صلح ہوئی ہو، ان کے ساتھ عہد پورا کیا جائے گا اور ان پر کسی چیز کا اضافہ نہ کیا جائے گا۔‘‘ (ص 35)