Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)
سرورِ عالم ﷺ
میلادُ النبیؐ
سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ
معراج کی رات
معراج کا پیغام
معراج کا سفرنامہ
شب برأت
روزہ اور ضبطِ نفس
عید قربان
قربانی
پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے
زندگی بعد موت

نشری تقریریں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

قربانی

آج سے چار ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ عراق کی سرزمین میں ایک شخص پیدا ہوا تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گیا ہے۔ جس زمانے میں اس نے آنکھیں کھولیں اس وقت تمام دنیا شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھی، جس قوم میں وہ پیدا ہوا وہ ایک ستارہ پرست قوم تھی، چاند سورج اور دوسرے سیارے اس کے خدا تھے اور شاہی خاندان انہی خدائوں کی اولاد ہونے کی حیثیت سے اہل ملک کا رب مانا جاتا تھا۔ جس خاندان میں وہ پیدا ہوا وہ پروہتوں کا خاندان تھا اور اپنی قوم کو ستارہ پرستی کے جال میں پھانسے رکھنے کا اصل ذمہ دار وہی تھا۔
ایسے زمانے، ایسی قوم، اور ایسے خاندان میں یہ شخص پیدا ہوا دنیا کی عام روش پر چلنے والا ہوتا تو وہ بھی اسی راستے پر جاتا جس پر اس کے خاندان کے لوگ، اس کے ملک کے لوگ اور اس کے زمانے کے لوگ چلے جارہے تھے۔ کوئی ایسی روشنی بظاہر اس وقت دنیا میں کہیں موجود بھی نہ تھی جو کسی دوسرے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہو۔ اور اس کے ذاتی و خاندانی مفاد کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ کسی اور راستے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لاتا، کیونکہ اس کے خاندان کی مذہبی دکان تو اسی ستارہ پرستی کے بل پر زور شور سے چل رہی تھی۔ لیکن وہ ان انسانوں میں سے نہ تھا جو بے شعور خس و خاشاک کی طرف اسی رخ پر اڑنے لگتے ہیں جدھر کی ہوا ہو۔ وہ موروثی تعصب کی بنا پر باپ دادا اور قوم کے طریقے کو بے چون و چرا قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی یہ تحقیق کرنا ضروری سمجھا کہ جن عقیدوں اور اصولوں پر اس کے بزرگوں نے اور اس کی ساری قوم نے اپنی زندگی کی عمارت قائم کر رکھی ہے وہ بجائے خود صحیح بھی ہیں یا نہیں۔ اس آزادانہ تحقیقات کے سلسلے میں اس نے سورج، چاند، زہرہ اور ان سب معبودوں پر نگاہ ڈالی جن کی خدائی کے چرچے وہ بچپن سے سنتا آیا تھا۔ ایک ایک کو جانچ کر دیکھا کہ اس پر خدائی کا گمان کہاں تک سچا ہے۔ اور آخر کار یہ بے لاگ رائے قائم کی کہ دراصل یہ سب بندے ہیں۔ خدائی صرف اس ایک ہستی کی ہے جس نے زمین و آسمان کوپیدا کیا۔
پھر جب یہ حقیقت اس پر منکشف ہوگئی تو اس نے ان لوگوں کی سی روش اختیار نہیں کی جو ایک بات کو حق جاننے اور سمجھنے کے باوجود اسے قبول نہیں کرتے اس نے حق کو حق جاننے کے بعد اسے ماننے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہ کی۔ فوراً اقرار کیا کہ ’’میں جھک گیا اس خدا کے آگے جو زمین اور آسمانوں کا خالق ہے۔‘‘ اور اس اقرار کے ساتھ اپنی برادری اور قوم کے سامنے یہ اعلان بھی کر دیا کہ میرا راستہ تم سے الگ ہے۔ میں اس شرک اور بت پرستی میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں۔ یہ اس شخص کی پہلی قربانی تھی۔ یہ پہلی چھری تھی جو اس نے باپ دادا کی اندھی تقلید پر، خاندانی اور قومی تعصبات پر، اور نفس کی ان تمام کمزوریوں پر پھیر دی جن کی وجہ سے آدمی اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک راستے پر صرف اس لیے چلتا رہتا ہے کہ برادری اور قوم دیا اور اسی پر چلی جارہی ہے۔
اس اقرار و اعلان کے بعد یہ شخص خاموش نہیں بیٹھ گیا۔ اس پر یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ کائنات کی اصل حقیقت توحید ہے اور شرک سراسر ایک بے بنیاد چیز ہے۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد وہ خود ہی یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ سب انسان جو توحید کے بجائے شرک کے عقیدوں اور مشرکانہ اصولوں پر اپنے مذہب، اخلاق اور تمدن کی عمارت قائم کیے ہوئے ہیں انہوں نے دراصل ایک ایسی شاخ نازک پر آشیانہ بنا رکھا ہے جو سخت ناپائیدار ہے۔ اس احساس نے اس کو بے چین کر دیا۔ وہ پورے احساس فرض کے ساتھ کھڑا ہوگیا کہ اپنی قوم کو شرک سے روکے اور توحید کی طرف دعوت دے۔ اسے معلوم تھا کہ قومی مذہب کے خلاف اس طرح کی علانیہ تبلیغ کرکے وہ خود پروہت کی گدی سے محروم ہو جائے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا خاندان اگر قومی مذہب سے پھرگیا تو وہ ساری وجاہت ختم ہو جائے گی جو اسے ملک میں حاصل ہے۔ اس کو یہ بھی خبر تھی کہ اس تبلیغ کی وجہ سے ساری قوم کا غصہ اس پر بھڑک اٹھے گا۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر نہ تھا کہ یہ تبلیغ اسے حکومت کے عتاب میں مبتلا کر دے گی کیونکہ شاہی خاندان کے اقتدار کی بنیاد ہی وہاں یہ عقیدہ تھا کہ وہ دیوتائوں کی اولاد ہے اور اس بنا پر توحید لازماً حکومت کے بنیادی نظریے سے ٹکراتی تھی۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اٹھا، اپنے باپ کو، اپنے خاندان کو، اپنی قوم کو اور بادشاہ تک کو اس نے شرک سے باز آنے اور توحید کا عقیدہ قبول کرنے کی دعوت دی۔ اور جتنی زیادہ اس کی مخالفت کی گئی اتنی ہی زیادہ اس کی سرگرمی بڑھتی چلی گئی۔ آخر کار نوبت یہ آگئی کہ ایک طرف وہ تن تنہا انسان تھا اور دوسری طرف اس کے مقابلہ میں بادشاہ، ملک، برادری، خاندان، حتیٰ کہ اس کا اپنا باپ تک صف آرا تھا۔ اب پورے ملک میں کوئی اس کا دوست نہ تھا۔ ہر طرف دشمن ہی دشمن تھے۔ ایک ہمدردی کی آواز بھی اس کے حق میں اٹھنے والی نہ تھی۔ اس پر بھی جس اس نے ہمت نہ ہاری اور توحید کی دعوت پیش کرنے سے اس کی زبان نہ تھکی تو فیصلہ کیا گیا کہ برسرعام اسے زندہ جلا دیا جائے۔ مگر اس ہولناک سزا کا خوف بھی اسے باطل کو باطل اور حق کو حق کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔ اس نے آگ کے الائو میں پھینکا جانا گوارا کرلیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ جس حقیقت پر وہ ایمان لاچکا تھا اس سے پھر جائے اور اسے حقیقت کہنا چھوڑ دے۔ یہ اس کی دوسری عظیم الشان قربانی تھی۔
نہ معلوم کس طرح خدا نے اسے آگ سے جلنے سے بچا لیا۔ اس خطرے سے بخریت گزر جانے کے بعد اس کے لیے ملک میں ٹھہرنا غیر ممکن تھا۔ آخر کار اس نے جلاوطنی کی زندگی اختیار کی۔ آس پاس کے سارے ملک جن میں وہ جاسکتا تھا اس وقت بت پرست تھے۔ کہیں کوئی ایسی چھوٹی سی چھوٹی برادری یا سوسائٹی بھی موجود نہ تھی جو توحید کی قائل ہوتی، جس کے پاس وہ پناہ لے کر امن کی زندگی پاسکتا۔ اس حالت میں امن پانے کی صرف یہی ایک صورت تھی کہ وہ اپنے ملک سے نکل جانے کے بعد دعوت توحید سے زبان بند کرلیتا۔ انفرادی طور پر ایک اجنبی آدمی کسی مذہب کا پیرو ہو تو دوسرے ملکوں کے لوگ اسے خواہ مخواہ چھیڑنے کی تکلیف کیوں کرنے لگے تھے۔ بلکہ انہیں یہ معلوم ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کا مذہب کیا ہے۔ مگر یہ خدا کا بندہ دوسرے ملکوں میں بھی جاکر خاموش نہ رہا۔ جہاں بھی گیا اس نے خدا کے سب بندوں کو یہی دعوت دی کہ دوسروں کی بندگی چھوڑو اور صرف اسی ایک خدا کے بندے بن کر رہو جو حقیقت میں تمہارا خدا ہے۔ اس تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ملک سے نکل کر بھی اسے کہیں چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ کبھی شام میں ہے تو کبھی فلسطین میں، کبھی مصر میں ہے تو کبھی حجاز میں۔ غرض ساری عمر یونہی ملک ملک کی خاک چھانتے گزر گئی۔ اس کو آرام کے ٹھکانے کی طلب نہ تھی۔ اس کو گھر اور کھیت اور مویشی اور کاروبار کی طلب نہ تھی۔ اس کو دنیا کے عیش اور زندگی کے سروسامان کی طلب نہ تھی۔ اسے صرف اس چیز کی طلب تھی کہ جس حق پر وہ ایمان لایا ہے اس کا کلمہ بلند ہو اور اس کے بنی نوع گمراہی کو چھوڑ کر اس سیدھی راہ پر چلنے لگیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ یہی طلب اسے جگہ جگہ لیے پھرتی تھی اور اسی طلب کے پیچھے اس نے اپنے ہر مفاد کو تج دیا۔ یہ اس کی تیسری قربانی تھی۔
اس خانہ بدوشی اور بے سروسامانی کے عالم میں پھرتے پھرتے جب عمر تمام ہونے کو آئی تو خدا نے اسے ایک بیٹا دیا۔ اس بچے کو پالا پوسا۔ یہاں تک کہ وہ اس عمر کو پہنچا جب اولاد والدین کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے اور زندگی کی دوڑ دھوپ میں ان کا ساتھ دینے کے قابل ہوتی ہے۔ بیٹا اور وہ بھی اکلوتا بیٹا۔ پھر عنفوان شباب کو پہنچا ہوا اور باپ زندگی کے اس مرحلہ میں جب کہ آدمی جوان اولاد کے سہارے کا سب سے بڑا محتاج ہوتا ہے۔ ہر شخص اس صورت حال کا تصور کرکے اندازہ کرسکتا ہے کہ اس باپ کو وہ بیٹا کیسا کچھ عزیز ہوگا۔ مگر مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اسے خدا اور اس کی مرضی سے بڑھ کر کوئی چیز بھی عزیز نہ ہو۔ اس لیے وہ ساری قربانیاں بھی کافی نہ سمجھی گئیں جو یہ بندہ اپنے خدا کے لیے ساری عمرکرتا رہا تھا۔ ان سب کے بعد اس کا آخری امتحا ن لینا ضروری سمجھا گیا اور وہ یہ تھا کہ یہ بندہ مسلم اپنے اس عزیز ترین بیٹے کی محبت کو بھی خدا کی محبت پر قربان کرسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ یہ امتحان بھی لے ڈالا گیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ بوڑھا انسان اپنے خدا کا صریح حکم نہیں، محض ایک اشارہ پاتے ہی اکلوتے نوجوان بیٹے کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ خدا نے عین ذبح کے وقت لڑکے کی جگہ مینڈھے کو قبول کر لیا، کیونکہ خدا کو لڑکے کا خون مطلوب نہ تھا، محض محبت کی آزمائش مقصود تھی، لیکن اس سچے مسلمان نے اپنی نیت کی حد تک تو اپنا لخت جگر اپنے خدا کے اشارے پر قربان کر ہی دیا تھا۔ یہ تھی وہ آخری اور سب سے بڑی قربانی جسے اس شخص نے اپنے اسلام اور ایمان، اور خدا کے ساتھ اپنی وفاداری کے ثبوت میں پیش کیا تھا۔ اسی کے صلہ میں خدا نے اسے تمام دنیا کے انسانوں کا امام بنایا اور اپنی دوستی کے مرتبہ پر سرفراز کیا۔
آپ سمجھے کہ یہ کس شخص کا ذکر ہے؟ یہ اس ذات گرامی کا ذکر ہے جسے آج ہم سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں۔ اور یہی وہ قربانی ہے جس کی یادگار آج دنیا بھر کے مسلمان جانوروں کی قربانی کرکے مناتے ہیں۔ اس یادگار کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے اندر قربانی کی وہی روح‘ اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت و وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی شخص محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے تو وہ ناحق ایک جاندار کا خون بہاتا ہے۔ خدا کو اس کے خون اور گوشت کی کوئی حاجت نہیں۔ وہاں تو جو چیز مطلوب ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ لا الہٰ الا اللہ پر ایمان لائے وہ مکمل طور پر بندۂ حق بن کر رہے۔ کوئی تعصب، کوئی دلچسپی، کوئی ذاتی مفاد، کوئی دبائو اور لالچ، کوئی خوف اور نقصان، غرض کوئی اندر کی کمزوری اور باہر کی طاقت اس کو حق کے راستے سے نہ ہٹا سکے۔ وہ خدا کی بندگی کا اقرار کرنے کے بعد پھر کسی دوسری چیز کی بندگی قبول نہ کرے۔ اس کے لیے ہر تعلق کو قربان کر دینا آسان ہو، مگر اس تعلق کو قربان کرنا کسی طرح ممکن نہ ہو جو اس نے اپنے خدا سے قائم کیا ہے۔ یہی قربانی اسلام کی اصل حقیقت ہے اور آج ہر زمانے سے بڑھ کر ہم اس کے محتاج ہیں کہ یہ حقیقت ہماری سیرتوں میں پیوست ہو۔ مسلمانوں نے جب کبھی دنیا میں چوٹ کھائی ہے اسلام کی اسی حقیقت سے خالی ہو کر کھائی ہے۔

اکتوبر ۱۹۴۷ئ؁

شیئر کریں