Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسئلۂ قربانی شرعی اور عقلی نقطۂ نظر سے پاکستان میں قربانی کے خلاف مہم
اس پروپیگنڈے کا اثر ہندی مسلمانوں پر
شیطانی ذوق تفرقہ اندازی
تفریق بین اللہ و الرسول
منصبِ رسولؐ
رسالت کا غلط تصوُّر
غلط تصو ر کی فتنہ انگیزی
چند مثالیں اور نتائج
سنت، قرآن کی عملی تشریح ہے
قربانی کے قرآنی احکام اور ان کی حکمت
اوقاتِ قربانی کی تعیین
قربانی کا تاریخی پس منظر
اسے عالم گیر بنانے میں مصلحت
قربانی کی حقیقی روح
نبیؐ کی خدا داد بصیرت
احادیث سے قربانی کا ثبوت
فقہائے اُمّت کا اِتفاق
اُمّت کا تواتر عمل
ہمارا اَخلاقی انحطاط
مخالفین کے دلائل کا دینی تجزیہ
اجتماعی نقطۂ نظر سے جائزہ
معترضین کے چند مزید سہارے

مسئلہ قربانی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

قربانی کے قرآنی احکام اور ان کی حکمت

قرآن میں اس مسئلے کے متعلق جو اصولی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ عبادت کی تمام وہ صورتیں جو انسان نے غیر اللہ کے لیے اختیار کی ہیں، دین حق میں وہ سب غیر اللہ کے لیے حرام اور خالصًا اللہ تعالیٰ کے لیے واجب کر دی گئیں۔ مثلاً: انسان غیر اللہ کے آگے جھکتا اور سجدے کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کے لیے مخصوص کر دیا اور اس کے لیے نماز کی صورت مقرر کر دی۔ انسان غیر اللہ کے سامنے مالی نذرانے پیش کرتا تھا۔ دین حق نے اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا اور اس کی عملی صورت زکوٰۃ مقرر کر دی۔ انسان غیر اللہ کے نام پر روزے رکھتا تھا۔ دین حق نے اسے بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا اور اس غرض کے لیے رمضان کے روزے فرض کر دیے۔ انسان غیر اللہ کے لیے تیرتھ یاترا کرتا اور استھانوں کے طواف کرتا تھا۔ دین حق نے اس کے لیے ایک بیت اللہ بنایا اور اس کا حج اور طواف فرض کر دیا۔ اسی طرح انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک غیر اللہ کے لیے قربانی کرتا رہا ہے۔ دین حق نے اسے بھی غیر اللہ کے لیے حرام کر دیا اور حکم دیا کہ یہ چیز بھی صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ چنانچہ دیکھیے، ایک طرف قرآن مجیداُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ [المائدہ5:3] (جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو)اور وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ [المائدہ5:3](جسے استھانوں پر ذبح کیا گیا ہو) کو قطعی حرام قرار دیتا ہے اور دوسری طرف حکم دیتا ہے کہفَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ [الکوثر108:2] اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھ اور اُسی کے لیے قربانی کر۔
۲۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں بھی عطا فرمائی ہیں ان سب کا شکریہ اس پر واجب ہے۔ اور یہ شکریہ ہر نعمت کے لیے قربانی اور نذرانہ کی شکل میں ہونا چاہیے۔ ذہن اور نفس کے عطیے کا شکریہ اسی شکل میں ادا ہوسکتا ہے کہ آدمی ایمان و طاعت کی راہ اختیار کرے۔ جسم اور اس کی طاقتوں کا عطیہ یہی شکریہ چاہتا ہے کہ آدمی نماز اور روزے کی شکل میں اسے ادا کرے۔ مال کے عطیے کا شکریہ زکوٰۃ ہی کی صورت میں ادا کیا جاسکتا ہے، اور زکوٰۃ بھی اس طرح کہ سیم و زر کی زکوٰۃ اسی سیم و زر سے، زرعی پیداوار کی زکوٰۃ اسی پیداوار میں سے اور مواشی کی زکوٰۃ انھی مواشی میں سے نکالی جائے۔ اسی طرح اپنے پیدا کیے ہوئے جانوروں پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قدرت بخشی ہے اور ان سے طرح طرح کے بے شمار فائدے اٹھانے کا موقع اس نے دیا ہے۔ اس کے شکریے کی بھی یہی صورت ہے کہ انسان ان جانوروں ہی میں سے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کرے۔ چنانچہ سورۂ حج میں قربانی کی ہدایت فرمانے کے بعد اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہکَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ [الحج22:36]اسی طرح ہم نے انھیں تمھارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔
۳۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوںپر جو اقتدار اور تصرف کا اختیار بخشا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بالادستی اور حاکمیت و مالکیت کا اعتراف کرتا رہے تاکہ اسے کبھی یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ سب کچھ میرا ہے اور میں ہی اس کا خود مختار مالک ہوں۔ اس بالاتری کے اعتراف کی مختلف شکلیں اللہ کے مختلف عطیوں کے معاملے میں رکھی گئی ہیں۔ جانوروں کے معاملہ میں اس کی شکل یہ ہے کہ انھیں اللہ کے نام پر قربان کیا جائے۔ چنانچہ اسی سورۂ حج میں اسی سلسلۂ کلام میں آگے چل کر فرمایا گیا کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ [الحج22:37] اسی طرح اللہ نے انھیں تمھارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اس ہدایت پر جو اس نے تمھیں بخشی۔‘‘
یہی تین وجوہ ہیں جن کی بنا پر قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیشہ سے تمام شرائع الٰہیہ میں تمام امتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے:
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْم بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ الحج22:34
’’اور ہر اُمت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں۔‘‘
اور یہ طریقہ جس طرح دوسری امتوں کے لیے تھا اسی طرح شریعت محمدیؐ میں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی مقرر کیا گیا:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ
الانعام6:162-163
’’اے محمدؐ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں سرِ اطاعت جھکانے والا ہوں۔‘‘
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ الکوثر108:2
’’پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘
یہ حکم عام تھا جو قربانی کے لیے قرآن میں دیا گیا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ قربانی کب کی جائے، کہاں کی جائے، کس پر واجب ہے، اور اس حکم پر عمل درآمد کرنے کی دوسری تفصیلات کیا ہیں۔ ان چیزوں کو بیان کرنے اور ان پر عمل کرکے بتانے کاکام اللہ نے اپنے رسولؐ پر چھوڑ دیا کیوں کہ رسولؐ اس نے بلا ضرورت نہیں بھیجا تھا۔ کتاب کے ساتھ رسولؐ بھیجنے کی غرض یہی تھی کہ وہ لوگوں کو کتاب کے مقصد و منشا کے مطابق کام کرنا سکھائے۔

شیئر کریں