Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسئلۂ قربانی شرعی اور عقلی نقطۂ نظر سے پاکستان میں قربانی کے خلاف مہم
اس پروپیگنڈے کا اثر ہندی مسلمانوں پر
شیطانی ذوق تفرقہ اندازی
تفریق بین اللہ و الرسول
منصبِ رسولؐ
رسالت کا غلط تصوُّر
غلط تصو ر کی فتنہ انگیزی
چند مثالیں اور نتائج
سنت، قرآن کی عملی تشریح ہے
قربانی کے قرآنی احکام اور ان کی حکمت
اوقاتِ قربانی کی تعیین
قربانی کا تاریخی پس منظر
اسے عالم گیر بنانے میں مصلحت
قربانی کی حقیقی روح
نبیؐ کی خدا داد بصیرت
احادیث سے قربانی کا ثبوت
فقہائے اُمّت کا اِتفاق
اُمّت کا تواتر عمل
ہمارا اَخلاقی انحطاط
مخالفین کے دلائل کا دینی تجزیہ
اجتماعی نقطۂ نظر سے جائزہ
معترضین کے چند مزید سہارے

مسئلہ قربانی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

قربانی کا تاریخی پس منظر

ثالثاً، اس کے لیے حضورؐ نے وہ خاص دن انتخاب فرمایا جس دن تاریخ اسلام کا سب سے زیادہ زریں کارنامہ حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام نے انجام دیا تھا یعنی یہ کہ بوڑھا باپ اپنے ربّ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے ٹھنڈے دل سے آمادہ ہوگیا، اور بیٹا بھی یہ سن کر کہ مالک اس کی جان کی قربانی چاہتا ہے، چھری تلے گردن رکھ دینے پر بخوشی راضی ہوگیا۔ اس طرح یہ محض قربانی عبادت ہی نہ رہی بلکہ ایک بڑے تاریخی واقعہ کی یادگار بھی بن گئی جو ایمانی زندگی کے اس منتہائے مقصود، اس کے اس آئیڈیل مثل اعلیٰ کو مسلمانوں کے سامنے تازہ کرتی ہے کہ انھیں اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ قربانی کا حکم بجا لانے اور عید کا تہوار منانے کے لیے سال کا کوئی دن بھی مقرر کیا جاسکتا تھا۔ اس سے دوسرے تمام فوائد حاصل ہو جاتے، مگر یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اس کے لیے اس خاص تاریخ کا انتخاب ’’بیک کرشمہ دو کار‘‘ کا مصداق ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس انتخاب کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے۔ آپ سے پوچھا گیا مَا ھٰذِہِ الْاَضَاحِیْ، یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ فرمایا: سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ، یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس واقعہ کے بعد ہر سال اسی تاریخ کو جانور قربان فرمایا کرتے تھے۔ حضورؐ نے اس سنت کو زندہ کیا اور اپنی امت کو ہدایت فرمائی کہ قرآن میں قربانی کا جو عام حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل خصوصیت کے ساتھ اس روز کریں جس روز حضرت ابراہیم ؑ اپنی اس عظیم الشان قربانی کی یادتازہ کیا کرتے تھے۔ اپنی تاریخ کے یادگار واقعات کا ’’یوم‘‘ دنیا کی ہر قوم منایا کرتی ہے۔ اسلام کا مزاج یادگار منانے کے لیے بھی اس دن کا انتخاب کرتا ہے جس میں دو بندوں کی طرف سے خدا پرستی کے انتہائی کمال کا مظاہرہ ہوا۔

شیئر کریں