ثالثاً، اس کے لیے حضورؐ نے وہ خاص دن انتخاب فرمایا جس دن تاریخ اسلام کا سب سے زیادہ زریں کارنامہ حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام نے انجام دیا تھا یعنی یہ کہ بوڑھا باپ اپنے ربّ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے ٹھنڈے دل سے آمادہ ہوگیا، اور بیٹا بھی یہ سن کر کہ مالک اس کی جان کی قربانی چاہتا ہے، چھری تلے گردن رکھ دینے پر بخوشی راضی ہوگیا۔ اس طرح یہ محض قربانی عبادت ہی نہ رہی بلکہ ایک بڑے تاریخی واقعہ کی یادگار بھی بن گئی جو ایمانی زندگی کے اس منتہائے مقصود، اس کے اس آئیڈیل مثل اعلیٰ کو مسلمانوں کے سامنے تازہ کرتی ہے کہ انھیں اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ قربانی کا حکم بجا لانے اور عید کا تہوار منانے کے لیے سال کا کوئی دن بھی مقرر کیا جاسکتا تھا۔ اس سے دوسرے تمام فوائد حاصل ہو جاتے، مگر یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اس کے لیے اس خاص تاریخ کا انتخاب ’’بیک کرشمہ دو کار‘‘ کا مصداق ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس انتخاب کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے۔ آپ سے پوچھا گیا مَا ھٰذِہِ الْاَضَاحِیْ، یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ فرمایا: سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ، یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس واقعہ کے بعد ہر سال اسی تاریخ کو جانور قربان فرمایا کرتے تھے۔ حضورؐ نے اس سنت کو زندہ کیا اور اپنی امت کو ہدایت فرمائی کہ قرآن میں قربانی کا جو عام حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل خصوصیت کے ساتھ اس روز کریں جس روز حضرت ابراہیم ؑ اپنی اس عظیم الشان قربانی کی یادتازہ کیا کرتے تھے۔ اپنی تاریخ کے یادگار واقعات کا ’’یوم‘‘ دنیا کی ہر قوم منایا کرتی ہے۔ اسلام کا مزاج یادگار منانے کے لیے بھی اس دن کا انتخاب کرتا ہے جس میں دو بندوں کی طرف سے خدا پرستی کے انتہائی کمال کا مظاہرہ ہوا۔