Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
جدید ایڈیشن
مقدمہ
۱ اِلٰہ: لغوی تحقیق
اہلِ جاہلیت کا تصورِ اِلٰہ
اُلوہیّت کے باب میں ملاک اَمر
قرآن کا استدلال
۲ رَبّ: لغوی تحقیق
قرآن میں لفظ ’’رَبّ‘‘ کے استعمالات
ربُوبیّت کے باب میں گم راہ قوموں کے تخیلات
قومِ نوحؑ
قومِ عاد
قومِ ثمود
قومِ ابراہیم ؑونمرود
قومِ لُوطؑ
قومِ شعیبؑ
فرعون اور آلِ فرعون
یہود ونصارٰی
مشرکینِ عرب
قرآن کی دعوت
۳ عبادت: لغوی تحقیق
لفظِ عباد ت کا استعمال قرآن میں
عبادت بمعنی اطاعت
عبادت بمعنی پرستش
مثالیں
عبادت بمعنی بندگی واطاعت وپرستش
۴ دین: لغوی تحقیق
قرآن میں لفظِ ’’دین‘‘ کا استعمال
دین بمعنی اوّل ودُوُم
دین بمعنی سوم
دین بمعنی چہارم
دین ایک جامع اصطلاح

قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں

اُمت مسلمہ کے زوال کے اسباب پر اگرغور کیا جائے تو اس میں سر فہرست یہ سبب نظر آئے گا کہ اس نے قرانی تعلیمات کو فراموش کر دیا اور اس کی انقلابی دعوت سے نا آشنا ہوگئی۔ آج اگر ہم قرآن مجید کو پڑھتے ہیں تو اس کے معانی ومفہوم سے بے خبر اور محض رسماً۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے دکھوں کا علاج اور ترقی کا زینہ دنیا بھر کے افکار ونظریات میں تلاش کرتے ہیں لیکن خود نسخہ شفا سے استفادہ نہیں کرتے یا استفادے کی اہلیت نہیں رکھتے جواللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نازل کیا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒنے اس کتاب کو لکھ کر قرآن کی اس ہی انقلابی دعوت کو واضح کیا ہے۔ جس نے اونٹوں کی نکیل پکڑنے والوں کو دنیا کا امام بنا دیا تھا اور اس کے ذریعے سے فہم قرآن کی راہ کو آسان بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا موصوف کو علوم قرانی میں جوگہری بصیرت عطا فرمائی ہے۔ یہ کتاب اس کی پوری طرح آئنہ دارہے۔

قرآن کی دعوت

گم راہ قوموں کے تخیّلات کی یہ تحقیق جو پچھلے صفحات میں کی گئی ہے۔ اس حقیقت کو بالکل بے نقاب کر دیتی ہے کہ قدیم ترین زمانہ سے لے کر زمانۂ نزولِ قرآن تک جتنی قوموں کا ذکر قرآن نے ظالم، فاسد العقیدہ اور بدراہ ہونے کی حیثیت سے کیا ہے، ان میں سے کوئی بھی خدا کی ہستی کی منکر نہ تھی، نہ کسی کو اللہ کے مطلقاً رب اور الٰہ ہونے سے انکار تھا، البتہ ان سب کی اصل گم راہی اور مشترک گم راہی یہ تھی کہ انھوں نے ربوبیت کے اُن پانچ مفہومات کو جو ہم ابتدا میں لغت اور قرآن کی شہادتوں سے متعین کر چکے ہیں، دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
ربّ کا یہ مفہوم کہ وہ فوق الفطری طور پر مخلوقات کی پرورش، خبر گیری، حاجت روائی اور نگاہ بانی کا کفیل ہوتا ہے، ان کی نگاہ میں ایک الگ نوعیت رکھتا تھا، اور اس مفہوم کے اعتبار سے وہ اگرچہ ربِّ اعلیٰ تو اللہ ہی کو مانتے تھے، مگر اس کے ساتھ فرشتوں اور دیوتائوں کو، جنوں کو، غیر مرئی قوتوں کو، ستاروں اور سیاروں کو، انبیا اور اولیا اور روحانی پیشوائوں کو بھی ربوبیت میں شریک ٹھیراتے تھے۔
اور ربّؔ کا یہ مفہوم کہ وہ امر ونہی کا مختار، اقتدارِ اعلیٰ کا مالک، ہدایت وراہ نُمائی کا منبع، قانون کا ماخذ، مملکت کا رئیس اور اجتماع کا مرکز ہوتا ہے، ان کے نزدیک بالکل ہی ایک دوسری حیثیت رکھتاتھا اور اس مفہوم کے اعتبار سے وہ یا تو اللہ کی بجائے صرف انسانوں کو رب مانتے تھے یا نظریے کی حد تک اللہ کو رب ماننے کے بعد عملاً انسانوں کی اخلاقی وتمدنی اور سیاسی ربوبیت کے آگے سرِ اطاعت خم کیے دیتے تھے۔
اسی گم راہی کو دور کرنے کے لیے ابتدا سے انبیا علیہم السلام آتے رہے ہیں اور اسی کے لیے آخر کار محمد a کی بعثت ہوئی۔ ان سب کی دعوت یہ تھی کہ ان تمام مفہومات کے اعتبار سے رب ایک ہی ہے اور وہ اللہ جل شانہ ہے۔ ربوبیت ناقابلِ تقسیم ہے۔ اس کا کوئی جز کسی معنی میں بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہے۔ کائنات کا نظام ایک کامل مرکزی نظام ہے جسے ایک ہی خدا نے پیدا کیا۔ جس پر ایک خدا فرماں روائی کر رہا ہے، جس کے سارے اختیارات واقتدارات کا مالک ہی خدا ہے۔ نہ اس نظام کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا کچھ دخل ہے، نہ اس کی تدبیر وانتظام میں کوئی شریک ہے، اور نہ اس کی فرماں روائی میں کوئی حصہ دار ہے۔ مرکزی اقتدار کا مالک ہونے کی حیثیت سے وہی اکیلا خدا تمھارا فوق الفطری رب بھی ہے اور اخلاقی وتمدنی اور سیاسی رب بھی۔ وہی تمھارا معبود ہے۔ وہی تمھارے سجدوں اور رکوعوں کا مرجع ہے۔ وہی تمھاری دعائوں کا ملجا وماوٰی ہے۔ وہی تمھارے توکل واعتماد کا سہارا ہے۔ وہی تمھاری ضرورتوں کا کفیل ہے اور اسی طرح وہی بادشاہ ہے۔ وہی مالک الملک ہے۔ وہی شارع وقانون ساز اور امر ونہی کا مختار بھی ہے۔ ربوبیت کی یہ دونوں حیثیتیں جنھیں جاہلیت کی وجہ سے تم نے ایک دوسرے سے الگ ٹھہرا لیا ہے، حقیقت میں خدائی لازمہ اور خدا کے خدا ہونے کا خاصہ ہیں۔ انھیں نہ ایک دُوسرے سے منفک کیا جا سکتا ہے، اور نہ ان میں سے کسی حیثیت میں بھی مخلوقات کو خدا کا شریک ٹھیرانا دُرست ہے۔
اس دعوت کو قرآن جس طریقہ سے پیش کرتا ہے وہ خود اسی کی زبان سے سنیے:
اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۝۰ۣ يُغْشِي الَّيْلَ النَّہَارَ يَطْلُبُہٗ حَثِيْثًا۝۰ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِہٖ۝۰ۭ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَo
(الاعراف۷: ۵۴)
حقیقت میں تمھارا رب تو اللہ ہے جس نے آسمان وزمین کو چھے دن میں پیدا کیا اور پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہو گیا، جو دن کو رات کا لباس اڑھاتا ہے اور پھر رات کے تعاقب میں دن تیزی کے ساتھ دوڑ آتا ہے، سورج اور چاند اور تارے سب کے سب جس کے تابع فرماں ہیں۔ سنو! خلق اسی کی ہے اور فرماں روائی بھی اسی کی۔ بڑا بابرکت ہے وہ کائنات کا رَبّ۔
قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ۝۰ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللہُ۝۰ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo فَذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ۝۰ۚۖ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَo (یونس۱۰: ۳۱۔۳۲)
ان سے پوچھو، کون تم کو آسمان وزمین سے رزق دیتا ہے؟ کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی کس کے قبضہ واختیار میں ہے؟ کون ہے جو بے جان کو جان دار میں سے اور جان دار کو بے جان میں سے نکالتا ہے؟ اور کون اس کارگاہِ عالم کا انتظام چلا رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے اللہ، کہو، پھر تم ڈرتے نہیں ہو؟ جب یہ سارے کام اسی کے ہیں تو تمھارا حقیقی رب اللہ ہی ہے۔ حقیقت کے بعد گم راہی کے سوا اورکیا رہ جاتا ہے؟ آخر کہاں سے تمھیں یہ ٹھوکر لگتی ہے کہ حقیقت سے پھرے جاتے ہو؟
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَـقِّ۝۰ۚ يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَي النَّہَارِ وَيُكَوِّرُ النَّہَارَ عَلَي الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ…… ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْكُ۝۰ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَo (الزمر۳۹: ۵۔۶)
اس نے زمین وآسمان کو برحق پیدا کیا ہے۔ رات کو دن پر اور دن کو رات پر وہی لپیٹتا ہے۔ چاند اور سورج کو اسی نے ایسے ضابطے کا پابند بنایا ہے کہ ہر ایک اپنے مقررہ وقت تک چلے جا رہا ہے… یہی اللہ تمھارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ آخر یہ تم کہاں سے ٹھوکر کھا کر پھرے جاتے ہو؟
اَللہُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا۝۰ۭ …… ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ۝۰ۘ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۡۚ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَo …… اَللہُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۝۰ۚۖ فَتَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَo ہُوَالْـحَيُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَادْعُوْہُ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۭ (المومن۴۰: ۶۱۔۶۵)
اللہ جس نے تمھارے لیے رات بنائی کہ اس میں تم سکون حاصل کرو۔ اور دن کو روشن کیا… وہی تمھارا اللہ تمھارا رب ہے، ہر چیز کا خالق، کوئی اور معبود اس کے سوا نہیں، پھر یہ کہاں سے دھوکا کھا کر تم بھٹک جاتے ہو؟… اللہ جس نے تمھارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا، اور آسمان کا گنبد بنا دیا، تمھاری صورتیں بنائیں اور خوب ہی صورتیں بنائیں، اور تمھاری غذا کے لیے پاکیزہ چیزیں مہیا کیں، وہی اللہ تمھارا رب ہے، بڑا بابرکت ہے وہ کائنات کا رب۔ وہی زندہ ہے۔ کوئی اور معبود اس کے سوا نہیں۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے۔
وَاللہُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ……يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَيُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ۝۰ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۝۰ۡۖ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْكُ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍo اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ۝۰ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ۝۰ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ۝۰ۭ (فاطر۳۵: ۱۱ ۔۱۴)
اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا… وہ رات کو دن میں پرو دیتا ہے اور دن کو رات میں، اس نے چاند اور سورج کو ایسے ضابطہ کا پابند بنایا ہے کہ ہر ایک اپنے مقرر وقت تک چلے جا رہا ہے۔ یہی اللہ تمھارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ اس کے سوا جن دوسری ہستیوں کو تم پکارتے ہو ان کے ہاتھ میں ایک ذرّہ کا اختیار بھی نہیں ہے۔ تم پکارو تو وہ تمھاری پکاریں سن نہیں سکتے، اور سن بھی لیں تو تمھاری درخواست کا جواب دینا اُن کے بس میں نہیں۔ تم جو انھیں شریکِ خدا بناتے ہو اس کی تردید وہ خود قیامت کے دن کر دیں گے۔
وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَo …… ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ ہَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَاۗءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْہِ سَوَاۗءٌ تَخَافُوْنَہُمْ كَخِيْفَتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَo بَلِ اتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَہْوَاۗءَہُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ۝۰ۚ …… فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۝۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۝۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۝۰ۤۙ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَo
(الروم۳۰:۲۶۔۳۰)
آسمانوں کے رہنے والے ہوں یا زمین کے، سب اس کے غلام اور اس کے تابع فرمان ہیں… اللہ خود تمھاری اپنی ذات سے ایک مثال تمھارے سامنے بیان کرتا۔ کیا تمھارے غلاموں میں سے کوئی اُن چیزوں کی ملکیت میں تمھارا شریک ہوتا ہے جو ہم نے تمھیں بخشی ہیں؟ کیا ان چیزوں کے اختیارات وتصرفات میں تم اور تمھارے غلام مساوی ہوتے ہیں؟ کیا تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر والوں سے ڈرا کرتے ہو؟ جو لوگ عقل سے کام لینے والے ہیں ان کے لیے تو ہم حقیقت تک پہنچا دینے والی دلیلیں اس طرح کھول کر بیان کر دیتے ہیں مگر ظالم لوگ علم کے بغیر اپنے بے بنیاد خیالات کے پیچھے چلے جا رہے ہیں… لہٰذا تم بالکل یک سُو ہو کر حقیقی دین کے راستہ پر اپنے آپ کو ثابت قدم کر دو اللہ کی فطرت پر قائم ہو جائو۔ جس پر اس نے سب انسانوں کوپیدا کیا ہے۔ اللہ کی خلقت کو بدلانہ جائے۔ یہی ٹھیک سیدھا طریقہ ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۝۰ۤۖ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِہٖ۝۰ۭ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَo (الزمر۳۹: ۶۷)
ان لوگوں نے اللہ کی عظمت وکبریائی کا اندازہ جیسا کہ کرنا چاہیے تھا، نہیں کیا۔ قیامت کے روز یہ دیکھیں گے کہ زمین پوری کی پوری اس کی مٹھی میں ہے اور آسمان اس کے ہاتھ میں سمٹے ہوئے ہیں۔ اس کی ذات منزّہ اور بالاترہے اس سے کہ کوئی اس کا شریک ہو، جیسا کہ یہ لوگ قرار دے رہے ہیں۔
فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَرَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo وَلَہُ الْكِبْرِيَاۗءُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰۠ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَـكِيْمُo (الجاثیہ۴۵: ۳۶۔۳۷)
پس ساری تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو زمین وآسمان اور تمام کائنات کا رب ہے۔ کبریائی اسی کی ہے۔ آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی۔ اور وہ سب پر غالب اور حکیم ودانا ہے۔
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ۝۰ۭ ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِيًّاo (مریم۱۹: ۶۵)
وہ زمین اور آسمانوں کا مالک اور ان ساری چیزوں کا مالک ہے جو زمین وآسمان میں ہیں۔ لہٰذا تو اسی کی بندگی کر اور اس کی بندگی پر ثابت قدم رہ۔ کیا اس جیسا کوئی اور تیرے علم میں ہے؟
وَلِلہِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَيْہِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْہِ۝۰ۭ (ہود۱۱: ۱۲۳)
زمین اور آسمانوں کی ساری پوشیدہ حقیقتیں اللہ کے علم میں ہیں اور سارے معاملات اسی کی سرکار میں پیش ہوتے ہیں۔ لہٰذا تو اسی کی بندگی کر اور اسی پر بھروسا کر۔
رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَاتَّخِذْہُ وَكِيْلًاo (المزمل۷۳: ۹)
مشرق اور مغرب سب کا وہی مالک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ لہٰذا تُو اسی کو اپنا مختارِ کار بنا لے۔
اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۝۰ۡۖ وَاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِo وَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ۝۰ۭ كُلٌّ اِلَيْنَا رٰجِعُوْنَo (الانبیا۲۱: ۹۲۔۹۳)
حقیقت میں تمھاری یہ امت ایک ہی امت ہے۔ اور میں تمھارا رب ہوں۔ لہٰذا تم میری ہی بندگی کرو۔ لوگوں نے اس کارِ ربوبیت اور اس معاملہ بندگی کو آپس میں خود ہی تقسیم کر لیا ہے مگر ان سب کو بہرحال ہماری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۭ (الاعراف۷:۳)
پیروی کرو اس کتاب کی جو تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور اسے چھوڑ کر دوسرے کارسازوں کی پیروی نہ کرو۔
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ
(آلِ عمران۳: ۶۴)
کہو، اے اہلِ کتاب آئو اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم نہ تو اللہ کے سوا کسی کی بندگی کریں، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیں اور نہ ہم میں سے کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِكِ النَّاسِo اِلٰہِ النَّاسِo (الناس۱۱۴: ۱۔۳)
کہو مَیں پناہ ڈھونڈتا ہوں اس کی جو انسانوں کا رب ،انسانوں کا بادشاہ اور انسانوں کا معبود ہے۔
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًاo (الکہف۱۸: ۱۱۰)
پس جو اپنے رب کی ملاقات کا اُمیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی اور کی بندگی شریک نہ کرے۔
ان آیات کو سلسلہ وار پڑھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن ربوبیت کو بالکل حاکمیت اور سلطانی (Sovereignty) کا ہم معنی قرار دیتا ہے اور ’’ربّ‘‘ کا یہ تصور ہمارے سامنے پیش کرتا ہے کہ وہ کائنات کا سلطانِ مطلق اور لاشریک مالک وحاکم ہے۔
اسیؔ حیثیت سے وہ ہمارا اور تمھارا، جہان کا پروردگار، مربی اور حاجت روا ہے۔
اسیؔ حیثیت سے اس کی وفاداری وہ قدرتی بنیاد ہے جس پر ہماری اجتماعی زندگی کی عمارت صحیح طور پر قائم ہوتی ہے۔ اور اس کی مرکزی شخصیت سے وابستگی تمام متفرق افراد اور گروہوں کے درمیان ایک امت کا رشتہ پیدا کرتی ہے۔
اسیؔ حیثیت سے وہ ہماری اور تمام مخلوقات کی بندگی، اطاعت اور پرستش کا مستحق ہے۔
اسیؔ حیثیت سے وہ ہمارا اور ہر چیز کا مالک، آقا اور فرماں روا ہے۔
اہلِ عرب اور دُنیا کے تمام جاہل لوگ ہر زمانہ میں اس غلطی میں مبتلا تھے اور اب تک ہیں کہ ربوبیت کے اس جامع تصور کو انھوں نے پانچ مختلف النّوع ربوبیتوں میں تقسیم کر دیا۔ اور اپنے قیاس وگمان سے یہ رائے قائم کی کہ مختلف قسم کی ربوبیتیں مختلف ہستیوں سے متعلق ہو سکتی ہیں اور متعلق ہیں قرآن اپنے طاقت وَر استدلال سے ثابت کرتا ہے کہ کائنات کے اس مکمل مرکزی نظام میں اس بات کی مطلق گنجائش نہیں ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ جس کے ہاتھ میں ہے اس کے سوا ربوبیت کا کوئی کام کسی دوسری ہستی سے کسی درجہ میں بھی متعلق ہو۔ اس نظام کی مرکزیت خود گواہ ہے کہ ہر طرح کی ربوبیت اُسی خدا کے لیے مختص ہے جو اس نظام کو وجود میں لایا۔ لہٰذا جو شخص اس نظام کے اندر رہتے ہوئے ربوبیت کا کوئی جز کسی معنی میں بھی خدا کے سوا کسی اور سے متعلق سمجھتا ہے یا متعلق کرتا ہے، وہ دراصل حقیقت سے لڑتا ہے، صداقت سے منہ موڑتا ہے، حق کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور امرِواقعی کے خلاف کام کرکے اپنے آپ کو خود نقصان اور ہلاکت میں مبتلا کرتا ہے۔
خ خ خ

شیئر کریں