اس تشریح کے بعد قرآن کا دعوٰی بالکل صاف اور واضح صورت میں ہمارے سامنے آ جاتا ہے اور وہ یہ ہے:
’’نوعِ انسان کے لیے خدا کے نزدیک صرف یہی ایک صحیح طریق زندگی ہے کہ وہ خدا کے آگے سرِتسلیم خم کر دے اور فکر وعمل کی اس راہ پر چلے جس کی طرف خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے راہ نمائی کی ہے۔‘‘
یہ ہے قرآن کا دعویٰ۔ اب ہمیں تحقیق کرنا ہے کہ آیا یہ دعوٰی قبول کیا جانا چاہیے؟ خود قرآن نے اپنے اس دعوے کی تائید میں جو دلائل قائم کیے ہیں، ان پر تو ہم غور کریں گے ہی، مگر کیوں نہ اس سے پہلے خود اپنی جگہ تلاش وتجسس کرکے یہ دریافت کر لیں کہ آیا ہمارے لیے اس دعوے کو قبول کرنے کے سوا کوئی اور چارۂ کار بھی ہے؟